ColumnImtiaz Aasi

سانحہ گوادر اور آئینی تقاضے

تحریر : امتیاز عاصی
قدرتی وسائل سے مالا مال بلوچستان کو آخر کیا ہو گیا۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے لوگ فورسز پر حملہ آور ہو رہے ہیں۔ آئی ایس ایس پی آر کے مطابق گوادر کے سانحہ میں لانس نائیک شبیر کی شہادت اور ایک نوجوان آرمی آفیسر کی آنکھ ضائع ہونے کے ساتھ سولہ جون زخمی ہوئے ہیں۔ ہمارا پیارا بلوچستان شورش زدہ عشروں سے چلا آرہا تھا تاہم گوادر کے حالیہ سانحہ سے دل دہل گیا ہے۔ گوادر کی بندرگاہ بننے سے دنیا کی نظریں گوادر پر ہیں۔ وطن دشمن قوتوں کو ہماری ترقی ہضم نہیں ہو رہی ہے لہذا وہ کسی نہ کسی بہانے صوبے میں انتشار پھیلانے پر توجہ کئے ہوئے ہیں۔ ہمیں بلوچستان کے رہنے والوں کی حب الوطنی پر ذرا شک نہیں ہے البتہ یہ صوبہ دیگر صوبوں کے مقابلے میں بہت کم ترقی یافتہ ہے۔ بلوچستان کے بعض علاقوں میں لوگوں کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں اس مقصد کے لئے دوسرے ضلعوں سے ریل کے ذریعے پانی لایا جاتا ہے۔ چاغی کی مثال ہمارے سامنے ہے جہاں عوام کو پینے کا پانی دستیاب نہیں ہے۔ بے روز گاری عروج پر ہے پڑھے لکھے نوجوان در بدر ہیں۔ افغانستان اور ایران کا بارڈر ساتھ ہونے سے مسائل کو علیحدہ رکھا جائے تو صوبے کو بہت سے آئینی مسائل کا بھی سامنا ہے۔ بدقسمتی سے سیاسی حکومتیں ڈنگ ٹپائو پالیسی کے تحت صوبے کے امور چلانے کی کوشش کرتی رہیں جبکہ وہاں کے رہنے والوں کے آئینی حقوق دھرے کے دھرے رہ گئے ۔ بلوچستان کے آئینی حقوق کی بات کریں تو گوادر کے سمندر کا تیرہ میل Nautical Areaصوبائی حکومت کی ملکیت ہے لیکن وفاق وہاں کے رہنے والوں کا یہ آئینی حق تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔گوادر میں ماہی گیری کا کنٹریکٹ اصولی طور پر بلوچستان کی صوبائی حکومت کو دینا چاہیے مگر یہ کام وفاقی حکومت کرتی ہے۔گوادر شہر میں داخلے سے پہلے لوگوں کو Fencing باڑ کو عبور کرنا پڑے گا۔ وفاقی حکومت نے شہر کے ایریا میں باڑ لگانے کا کام شروع کیا تھا جو اب رک گیا ہے۔ چند سال پہلے تک گوادر کی کل آبادی 65ہزار تھی جو اب دوسرے صوبوں کے لوگوں کے آنے کے بعد قریبا ایک لاکھ ہو چکی ہے۔ پاکستان بنا تو بلوچستان میں چار آزاد ریاستیں تھیں جن کا کنٹرول برطانوی حکومت کے پاس تھا۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ خان آف قلات میر احمد یار خان کے ہاں تشریف لے گئے اور انہیں ریاست کا پاکستان سے الحاق کرنے کی درخواست کی جسے خان آف قلات نے قبول کرتے ہوئے چند شرائط رکھیں جن میں دفاعی امور، کرنسی اور خارجہ امور وفاق کے زیر نگرانی ہونے تھے جبکہ دیگر تمام امور صوبہ بلوچستان کی حکومت کے پاس ہونے تھے۔ چنانچہ دونوں رہنمائوں کے درمیان ریاست قلات کے الحاق کا معاہدہ ہو گیا اور ان چند شرائط پر اتفاق کرتے ہوئے معاہدے پر قائد اعظم محمد علی جناح، نواب زدہ لیاقت علی خان، لارڈ ماونٹ بیٹن اور خان آف قلات کے دستخط کئے۔ درحقیقت بلوچستان کے مسائل کو آغاز اسی دن سے ہوگیا تھا جب قائد اعظم اور خان آف قلات کے درمیان معاہدے پر عمل درآمد نہیں کیا گیا۔ریکوڈک جیسا عظیم الشان منصوبے کا آغاز ہوا تو سازشوںکا شکار ہو گیا۔ آئین کو دیکھیں تو قدرتی وسائل صوبوں کی ملکیت ہیں معاہدوں کا وقت آئے تو صوبے کی بجائے وفاقی حکومت معاہدے کرتی ہے۔1992 میں ریکوڈک منصوبے کا آغاز ہوا اب تو اسے مکمل ہو جانا چاہیے تھا ۔غیرملکی کمپنی نے منصوبے پر کام کا آغاز کیا تو اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے بلوچستان کے ایک شہری کی درخواست کو منصوبے پر کام روکنے کا حکم دے دیا جس کے خلاف کمپنی عالمی ثالثی عدالت میں چلی گئی۔ کئی سال کیس چلنے کے بعد اربوں روپے جرمانہ پاکستان پر عائد کر دیا گیا ۔پہلے معاہدے کے تحت بلوچستان کو کل آمدن کا 25فیصد ملنا تھا عمران خان کی دور میں اسی کمپنی سے دوبارہ معاہدہ ہوا تو بلوچستان کا حصہ 30فیصد کر دیا گیا۔دراصل قیام پاکستان کے بعد ہماری حکومت کو بلوچستان پر جتنی توجہ دینی چاہیے تھی وہ نہیں دی گئی بلکہ صوبے کو اس کے آئینی حقوق سے محروم رکھا گیا جس کا خمیازہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔بلوچستان کو آئینی حقوق دینے کی بجائے صوبے کے امور چلانے کے لئے فوجی آپریشن کئے گے ۔ہر فوجی دور میں صوبے میں آپریشن ہوا جس سے وہاں کے رہنے والوں کی دل شکنی ہوئی۔ ایوبی دور میں آپریشن کے نتیجہ میں لوگ پہاڑوں پر چلے گئے انہیں قرآن پر حلف دینے کے باوجود پھانسی دے دی گئی ۔بلوچستان کے بہت سے رہنمائوں کو قید وبند میں رکھا گیا ۔نواب اکبر بگٹی کی موت نے جلتی پر تیل کا کام کیااب اسی قبیلے کے ایک مخالف کو اقتدار سونپا گیا ہے۔بلوچستان کے بہت سے مسائل کی وجوہات ایسی ہیں جنہیں ہم ضبط تحریر میں نہیںلا سکتے۔کئی لاکھ افغان پناہ گزیں بھی بلوچستان کا بڑا مسئلہ ہے ۔ سردار اختر مینگل کا عمران خان کی حکومت سے علیحدگی کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی ان کا مطالبہ تھا افغان مہاجرین کو ان کے وطن واپس بھیجا جائے۔یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے افغان پناہ گزینوں کو طالبان حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد واپس کیوں نہیں بھیجا گیا۔قانونی طور پر کسی ملک میں پناہ وہی لوگ لے سکتے ہیں جنہیں اپنے ملک میں زندگی کے خطرات لاحق ہوں۔تعجب ہے افغانستان کے لوگ آزادانہ طور پر یہاں آتے ہیں وہ افغانستان میں چند ماہ قیام کے بعد پاکستان واپس آجاتے ہیں اگر انہیں واپسی پر مجبور کیا جائے تو ان کی زندگیوں کو خطرات لاحق ہو جاتے ہیں۔ ہم حکومت سے پر زور مطالبہ کرتے ہیں افغان مہاجرین کو ہر صورت میں وطن واپس بھیجا جائے ۔ہماری حکومت کی سب سے بڑی غلطی انہیں کیمپوں سے نکلنے کی اجازت دے گئی ورنہ ایران میں ہم سے زیادہ افغان پناہ گزیں تھے جنہیں کیمپوں سے نکلنے کی اجازت نہیں تھی۔ ہم گوادر کی بات کر رہے تھے وفاقی حکومت کو بلوچستان کے آئینی حقوق سے پہلو تہی نہیں کرنی چاہیے ہمارا یہ صوبہ پہلے شورش زدہ ہے لہذا وہاں کے رہنے والوں کو ان کے آئینی حقوق سے محروم رکھنا آئین سے انحراف ہے۔

جواب دیں

Back to top button