حضور کی عرضیاں

تجمل حسین ہاشمی
خان کی اڈیالہ جیل سے بھیجی جانے والی عرضی اس وقت میڈیا کے ساتھ سوشل میڈیا پر بھی زیر بحث ہے۔ عرضی سے لگتا ہے کہ اب خان نے بظاہر اپنے جارحانہ لہجے کو بدل کر ایک مصالحتی لہجے کو اختیار کیا ہے۔ جسے بعض مبصرین ایک نئی حکمت عملی قرار دے رہے ہیں۔ اڈیالہ جیل سے خان کا سپہ سالار کے نام پیغام لانے والی شخصیات پارٹی کے رہنما عمر ایوب اور ان کی بہن علیمہ خان ہے۔ انہوں نے 26جولائی کو اپنے بھائی سے ملاقات کے بعد اڈیالہ جیل کے باہر سے میڈیا پر ایک بار پھر عمران خان کا وہی پیغام شیر کیا جو عمر ایوب کر چکے تھے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ عمران خان کا پیغام یہی ہے کہ ’ آرمی چیف ( حکومت ) کی حمایت نہ کریں بلکہ پیچھے ہٹ جائیں‘۔
میرے مطابق یہ کوئی پیغام نہیں تھا اور نہ اس میں کوئی خاص مصلحت پسندی نظر آ رہی ہے۔ جس کو اتنا زیر بحث لایا جا رہا ہے۔ اس پیغام کے بیک دوڑ میں جو چل رہا ہے وہ ابھی تک سامنے نہیں۔ حقیقت میں عرضی وہ ہے جس کی پردہ داری ہے۔ ایک جمہوری حکومت جو انتخابات کے عمل سے وجود میں آئی ہے، خواہ گزشتہ انتخابات پر تمام سیاسی جماعتوں کے خدشات موجود ہیں۔ مقتدر اداروں کے سربراہ کیسے منتخب جمہوری حکومت کی قانونی مدد سے انکار کر سکتے ہیں۔ اڈیالہ جیل سے خان کے اس پیغام کی کوئی اہمیت نہیں۔ آئین پاکستان میں ایسا کہیں نہیں لکھا جس کی خواہش جیل سے کی جا رہی ہے۔ ہونا تو یہ چاہے تھا کہ عمران خان قوم کے سامنے 9مئی کے واقعات کی بھر پور مذمت کرتے۔ واضح اعلان کرتے کہ 9مئی جیسے واقعات کسی صورت قابل قبول نہیں ہیں۔ مقتدر اداروں کے خلاف بیانات ملک دشمنی کے مترادف سمجھیں جائیں گے۔ تمام سیاسی جماعتوں اس بات کا بھی پابند ہونا چاہئے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں اور ان کے سربراہان کے خلاف کسی قسم کا بیانیہ یا غیر قانونی تنقید قبول نہیں کی جائے گی اور ساتھ میں ملکی معاشی صورتحال پر سیاست نہیں کی جائے۔ ماضی کے پرتوں کو بار بار کھول کر نئی نسل کو باغی مت کریں۔ ملکی سطح کے مسائل کو مل کر حل کیا جائے گا۔ ووٹ مانگنے کے طریقہ کار کو بدلیں۔ دنیا معاشی کروٹ لے رہی ہے۔ عوامی جلسوں میں ملکی معیشت پر سیاست نہیں ہونی چاہئے ۔ بہت اہم کردار میڈیا کا ہے، تمام مبصرین اور صحافیوں کو بھی ایسی خبروں اور تجزیوں سے احتیاط برتنی چاہئے جس سے شر یا تفریق جنم لے۔ ایسے نعرے سوشل میڈیا پر وائرل کئے جاتے ہیں جن میں صداقت نہیں۔ عسکری ادارے ہمارے تحفظ کیلئے ہیں اور ہمارے جوانوں نے اپنے دیس کیلئے قربانیاں دی ہیں۔ ان کے خلاف بے بنیاد پروپیگنڈا قوم کو قبول نہیں۔ تمام سیاسی جماعتوں کو ایسے میڈیا سیل کی سپورٹ کو ختم کرنا ہو گا جو تفریق کو ہوا دے رہے ہیں یہ اعلان تمام جماعتوں کی طرف سے نظر آنا چاہئے۔ پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ باقی سیاسی جماعتوں کے بیانیہ بھی پاکیزہ نہیں۔ میڈیا بھی سماجی تنائو میں اضافہ کا باعث بن رہا ہے۔ سینئر صحافی کا انٹرنیشنل میڈیا کے انٹرویو میں کہنا تھا ’ مجھے نہیں لگتا کہ اب خان کے رویے میں تبدیلی سے بھی معاملات ٹھیک ہو سکتے ہیں۔ اب جو پوزیشن لی جا چکی ہے اس میں ایک کی کامیابی دوسرے کی ناکامی ہے‘۔ ان کے مطابق ’ اب جو فریق بھی صلح کرے گا تو وہ دیکھے گا کہ اس سے اس کا کتنا نقصان ہو گا ‘۔ ہمارے ہاں جب مبصرین کے اس طرح کے انٹرویو پبلش ہوں گے تو پھر کیسے ماحول سازگار ہو سکتا ؟ کیسے قوم میں اتفاق پیدا ہو گا؟ ایسے مبصرین سیاسی لیڈروں کو مشورے دے کر ماحول گرماتے ہیں۔ ملکی سلامتی اور معیشت ایک دوسرے سے جوڑے ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے ہر سیاسی جماعت اقتدار کے ساتھ اختیار چاہتی ہے۔ اپنی مرضی چاہتی ہے۔ مقاصد کے حصول میں لیڈر اداروں کو بھی اپنے لئے استعمال کرنے سے گریز نہیں کرتے۔ ان کے مقاصد مال جمع کرنا اور اپنی حکمرانی قائم رکھنا ہے۔ مقتدرہ کی پالیسی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے سینئر صحافی کا کہنا تھا کہ اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی نہ الیکشن کمیشن کی حکمت عملی میں کوئی تبدیلی آئی ہے۔ سینئر صحافی کی رائے میں ’ ہو سکتا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف نے اپنا پنترا بدلا ہو، اپنا دائو بدلا ہو ‘۔
میرے مطابق ملک کو اس صورت حال سے باہر نکلنا ہے۔ حکومت ( مسلم لیگ ن ) جیسی بھی پلاننگ کر لے سیاسی ڈیمیج ہو چکی ہے۔ اتحادیوں نے بڑی چالاکی کے ساتھ ان کے پاس مستقل کیلئے کوئی بیانیہ نہیں رہنے دیا۔ عمران خان کی عرضیوں کو پنترا کہ لیں یا پھر کچھ اور۔ لیکن ان کو عدالتوں سے ریلیف مل رہا ہے۔ ریلیف ملنے کی وجہ لاڈلا نہیں بلکہ رجسٹرڈ کئے گے مقدمات کی کمزور بنیاد ہیں۔ تمام تجزیے، مفادات اپنی جگہ لیکن 9مئی کے واقعات کسی صورت بھی قبول نہیں۔ 9مئی میں شامل افراد کو کڑی سزا ملنی چاہئے۔ آزادی یا شخصی آزادی کا یہ مطلب نہیں کہ جس کا جو جی میں آئے کرتا پھرے۔ اسلام بھی اجتماعیت کی بات کرتا ہے۔ اکائی اپنی مرضی نہیں چلا سکتا۔ آئین اور ریاستی اداروں کا قیام افراد کو پابند بنانا ہے تاکہ معاشرے میں نظم و ضبط اور فرد کی حق تلفی نہ ہو۔