ColumnTajamul Hussain Hashmi

قوم بڑے آپریشن کی منتظر ہے

تجمل حسین ہاشمی
بعض دفعہ ہم چھوٹی چھوٹی باتوں کا خیال نہیں کرتے۔ اپنی تلخ کلامی کو بہادری اور صاف گوئی سمجھ کر پرسکون ہوتے ہیں۔ ہماری لاعلمی یا کم عقلی دوسرے کو زخم دے جاتی ہے۔ بظاہر اپ کو اپنا فعل چھوٹا یا سچا لگتا ہے لیکن آپ کے کہے ہوئے الفاظ دوسرے کو زخمی کر جاتے ہیں ۔ اس کا اندازہ کرنا تھوڑا مشکل ہے ۔ ایسی کیفیت کو محسوس کرنے کیلئے قرآنی احکامات پر عمل ضروری ہے، اس کے بعد تو حقیقت آشکار ہوگی۔ انسان اپنے رویوں سے دوسرے کے سکون کا قاتل بن جاتا ہے۔ ایسا انسان زندہ رہتے ہوئے بھی اپنے اندر کی لاش اٹھائے پھرتا رہتا ہے۔ اس کا دین اس کا قصاص کس طرح ادا ہوگا۔ جس کو اس کی سمجھ آگئی تو بیڑہ پار لگ جائے گا ۔ کئی زخم اجتمائی ملتے ہیں جن میں حکمران کے فیصلے کارفرما ہوتے ہیں۔ جہاں بھی حکومتوں سے عوام نے اپنے زخموں کی دیت مانگی وہاں ریاست خطرے میں آ گئی ہے۔ کئی ممالک کے حالات آپ کے سامنے ہیں ۔ حال ہی میں بنگلا دیش کے حالات دیکھ لیں۔ عوام کیسے حکومت سے اپنی دیت مانگ رہی ہے۔ ہم اسلامی ہیں۔ پاکستان کلمہ کی بنیاد پر بنا ہے۔ ہمارے ہاں لوگوں کو ایک دوسرے کو واش ویل کرنا چھوڑ رہے ہیں۔ دوسرے کو عطا ہوئی آسائشوں سے حسد میں مبتلا ہیں، خوشیوں کو بانٹنے کا عمل رک گیا ہے ۔ اپنی ہی زبان سے اپنے کلمہ گو کو زخم دیئے جا رہے ہیں ۔ یہ خیال نہیں کرتے کہ اس سے فیملی سسٹم اور گلی محلوں میں سماجی تنائو میں اضافہ ہوگا۔ اندازہ کریں کہ پچھلے 76سالوں سے حکومتوں کی طرف سے ہمارے ساتھ کیا کچھ نہیں ہوا۔ تقسیم ہند کے وقت لاکھوں افراد نے وطن کیلئے قربانیاں دیں۔ وطن کی سلامتی کیلئے دن رات محنت سے دنیا کو ثابت کیا کہ زندہ قوم ہیں۔ قوم نے اپنے جسم زخمی کئے۔ وطن پر اپنا مال قربان کیا۔ ابھی بھی ایک جوان بارڈر لائن پر دس جوانوں کے برابر ڈیوٹی دے رہا ہے۔ قیام کے وقت لوگ آزادی کی کامیابی کیلئے قربانیاں دے رہے تھے، ہندوستان کی گلیوں میں شیروں کی طرح گھوم کر آزادی کے نعرے لگا رہے تھے۔ کسی قسم کا کوئی خوف نہیں تھا۔ کسی کی زبان پر تفریق، تقسیم نہیں تھی۔ ذات
پات کا سوال نہیں تھا ۔ کم یا زیادہ قربانی پر سوال نہیں تھا اور آج ہم اپنے ہی محافظوں پر بیانیے بنا رہے ہیں ۔ اپنے ہی محافظوں پر بے بنیاد پروپیگنڈہ کر رہے ہیں۔ ہم نے اپنوں کیلئے اپنے دروازے بند کر لئے ہیں۔ اب وہ آواز سنائی نہیں دے رہی جس میں جذبہ تھا۔ حکومت اپنی آسانیوں کیلئے اپنے لوگوں کو زخمی کر رہی ہے۔ ان زخموں کی دیت کس کو دینی ہے۔ مال داروں نے اپنے دروازے کھولنے کی بجائے بند کر دیئے ہیں۔ آج پورے ملک میں گھٹن ہے ۔ پہلے محسنوں کی قدر تھی اور آج ان سے کنارہ کش ہیں۔ اپنے محسنوں کو دیکھ کر دور بھاگ رہے ہیں۔ جنگ لڑنے والے غازی اور شہید قوم کیلئے مشعل راہ ہیں۔ حکومتی فیصلوں نے ہر گھر میں آگ بھڑکا دی ہے۔ بھوک، افلاس، بیروزگاری اور بجلی کے بلوں کی جنگ ہے ۔ اپنی حکومت اپنوں کی قاتل بن چکی ہے۔ ماضی کے تمام منصوبے ان کے اپنے ہاتھوں سے لگے ہیں۔ منصوبہ سازی کے وقت تیز ٹیکنالوجی اور عوامی ضروریات کا کوئی خیال نہیں رکھا گیا۔ 1960میں لگائے گئے سٹیل ملز جیسے منصوبوں کو ان کے اپنے ہی فیصلوں نے تباہ کیا۔ ووٹ بینک کے چکر اور اپنی ملوں کی پیداوار کو منافع بخش بنانے کیلئے سرکاری منصوبوں کو کھڈے لائن کر دیا گیا۔ آج لوگ مقتدر حلقوں سے اس لئے خفا ہیں کہ انہوں نے ان فیصلوں کو نہیں روکا، ان کا احتساب نہیں کیا جس طرح احتساب ہونا چاہئے تھا۔ اب کے طاقتوروں نے عوام کیلئے اپنے دروازے بند کر دیئے ہیں۔ اب آپریشن عزم استحکام کے حوالے سے قوم کو کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ مسئلہ ان طاقتوروں کو ہے جنہوں نے ملک کے اربوں روپے لوٹ کر سمگل کر دیئے ہیں۔ آج بھی لوٹ ماری میں سب سے آگے ہیں۔ یہ بے خوف ہیں ۔ آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس میں ان مافیا سے متعلق واضح کیا گیا ہے یہ کس طرح ملک کو تباہ کر رہے ہیں۔ اب بھی ایسی عناصر کو حکومتی سپورٹ حاصل ہے، ان کی روک تھام بہت پہلے ہو جانی چاہئے تھی لیکن اب بھی وقت ہے، قوم برے انصاف کی منتظر ہے۔ یہ وقت طاقتوروں کی جانب سے ملک کا ساتھ دینے کا ہے۔ اپنے دروازے کھولنے کا ہے ۔ یہی وقت لوگوں کی مدد کا ہے لیکن یہ کیسے ممکن ہو جب ہم دنیا بھر کے مالیاتی اداروں کے مقروض ہوں۔ ہمارے ریزرو دوسرے کے سہارے کے محتاج ہوں، جب ہمارے وسائل پر دوسرے قابض ہوں ۔ ہماری پالیسی پر غیر ملکی مالیاتی ادارے اثرانداز ہوں۔ ہم خود کشکول کی باتیں کریں۔ دنیا کے آگے خود کو بے بس ثابت کریں۔ آئی ایم ایف ہمارا آخری سہارا ہو۔ زرعی اجناس امپورٹ کریں ۔ جگہ جگہ ہائوسنگ سوسائٹی بنا ڈالیں ۔ سیاسی جماعتیں کی آپس کی جنگ ختم نہ ہو، انتخابات پر کسی کو یقین نہیں ہر بار خدشات رہے ہیں۔ فارم 45سے 47کا رولا ختم نہ ہو۔ سیاسی حلقوں کی کھلے عام مقتدر حلقوں پر تنقید ہو۔ اسٹیبلشمنٹ کے نام پر بیانیے بنائے جائیں۔ جب ملکی سلامتی پر تنقید ہو ۔ آئین پاکستان کو مسلسل پامال کیا جائے تو پھر معاشی آزادی کیسے ممکن ہو جب انڈسٹری کا سہارا سبسڈی ہو۔ ایسے کیسے نظام چلے گا ۔ جب سی این جی پمپس کی بھرمار سے قوم کو گیس سے محروم کیا جائے ۔ ایسے ظلم کئی برسوں سے جاری ہیں ۔ جب دن رات ضروریات اشیا پر ڈاکے ڈالے جائیں گے۔ جب 750روپے فی یونٹ کی خریداری میں حکومتی اداروں کی پشت پناہی سے لوٹ مار ہو۔ ایسی صورتحال میں میرے مطابق دہشتگردی سے زیادہ خطرناک معاشی لوٹ ماری ہے۔ غربت سے جوڑے مسائل کیلئے آپریشن کے ساتھ فوری عدل و انصاف اہم ہے۔ عدالتوں کی تعداد میں اضافہ اور کیسز کی معیاد مقرر کریں تاکہ انصاف ہوتا ہوا مظلوم عوام کو نظر آئے۔

جواب دیں

Back to top button