بانی پی ٹی آئی کا اعتراف اور پاک فوج کا موقف توجہ طلب

تحریر : محمد ناصر شریف
بانی پی ٹی آئی اور سابق وزیر اعظم عمران خان نے جی ایچ کیو کے سامنے احتجاج کی کال دینے کا بالآخر اعتراف کر ہی لیا۔ موصوف بڑے عرصے بعد فرما رہے ہیں کہ گرفتاری سے قبل کارکنان کو جی ایچ کیو کے سامنے پرامن احتجاج کی کال دی تھی، جب ایک پارٹی کے چیئرمین کو گھسیٹ کر گرفتار اور اغوا کیا جائے گا تو اس کا ردعمل آنا تھا، وہی ہوا لیکن پرامن مظاہرے کو بغاوت بنا دیا گیا، ٹیکنوکریٹ سیٹ اپ سے بہتر ہے سیدھا سیدھا مارشل لا لگا دیں۔ عمران خان نے صحافیوں سے گفتگو کے دوران پہلے تو بنوں میں فوج پر فائرنگ کا الزام لگایا اور پھر یوٹرن لے لیا۔
عمران خان کی جانب سے اپنی گرفتاری سے بچنے کیلئے حساس اداروں کو نشانہ بنانا، اداروں اور شہدا کے یادگاروں پر حملے کی کال دینا اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ لیڈر اپنی ذات کے آگے دیکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتا بلکہ جب اس کے خلاف کارروائی ہو تو وہ ملک میں ہر چیز کو برباد کرکے رکھ دینے کی ٹھان لیتا ہے اور ایسا ہی ہورہا ہے اس ملک میں ہر کوئی اپنی ذات سے آگے سوچنے کے لئے تیار نہیں۔ویسے تو سابقہ فوجی قیادت اور پی ٹی آئی میں بہت قربتیں رہی ہیں دونوں نے ایک دوسرے کے لئے بہت کچھ آئوٹ آف ٹرن جاکر کیا ہے اس لئے پی ٹی آئی کو مستقبل کی منصوبہ بندی کرتے ہوئے اپنی غلطی پر معافی مانگنے کے ساتھ لچک کا مظاہرہ بھی کرنا چاہیے ورنہ حالات پی ٹی آئی کیلئے خراب سے خراب تر ہوتے چلے جائیں گے۔
عمران خان کے اعتراف کے بعد ترجمان پاک فوج لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری پریس بریفنگ میں کہا کہ ’’ عزم استحکام’’ فوجی آپریشن نہیں بلکہ ایک ہمہ گیر اور مربوط انسداد دہشتگردی مہم ہے، اس مہم کا مقصد دہشتگردوں اور کرمنلز کے گٹھ جوڑ کو توڑنا ہے، ایک سیاسی مافیا اس کیخلاف کھڑا ہوگیا اور اسے متنازعہ بنا رہا ہے، ایک مضبوط لابی ہے جو چاہتی ہے کہ نیشنل ایکشن پلان کے مقاصد حاصل نہ کئے جا سکیں، ہمارا عدالتی و قانونی نظام 9مئی کے منصوبہ سازوں اور سہولت کاروں کو ڈھیل دے گا اور کیفر کردار تک نہیں پہنچائے گا تو ملک میں انتشار مزید پھیلے گا اور فسطائیت بڑھے گی۔ غیر قانونی اسپیکٹرم کی روک تھام کی ضرورت ہے۔ اس میں غیر قانونی معیشت چھپی ہے جو دہشت گردی کو پھیلا رہی ہے۔ بنوں امن مارچ میں مسلح لوگ شامل ہوئے جنہوں نے جائے وقوعہ پر فائرنگ کی۔ دیوار کو گرا دیا اور راشن ڈپو کو لوٹا، ریاست کیخلاف نعرے بازی، پتھرائو کیا گیا، فوج نے ایس او پیز کے مطابق بالکل درست رسپانس دیا۔ انتشار پسندوں کی جانب سے بنوں واقعے کے بعد ڈیجیٹل دہشتگردی کی گئی، دوسرے ممالک کے بچوں کی تصاویر لگا کر پروپیگنڈا کیا گیا۔ امن و امان کا قیام صوبائی حکومت کی ذمے داری ہے فوج کی نہیں ۔ ڈیجیٹل دہشتگرد اصل دہشتگردوں کو سپورٹ کررہے ہیں۔ اس وقت پاکستان میں 32ہزار مدارس ہیں، 16ہزار رجسٹرڈ مدارس ہیں، باقی 16ہزار کا پتہ ہی نہیں کہ کون چلا رہا ہے اور کون پڑھ رہا ہے۔ کسی کو بھی ریاست کی رٹ کو چیلنج کرنے کی اجازت نہیں دی جائیگی۔ پاک فوج کیخلاف سوشل میڈیا پر منظم پروپیگنڈا ڈیجیٹل دہشتگردی ہے جس کو نہ رو کا گیا تو یہ قومی سلامتی کیلئے تباہ کن ہو گا۔ حقیقی دہشتگرد اور ڈیجیٹل دہشتگرد دونوں ایک ہی کام کرتے ہیں۔ ان دونوں کا ٹارگٹ فوج ہے ۔ بتایا جائے کہ ڈیجیٹل دہشتگردی اور فیک نیوز پھیلانے والوں کو جیل ہوئی ؟ کیا ان کی جائیدادیں ضبط ہوئیں بلکہ انہیں ہیرو بنا کر پیش کیا گیا۔ خارجی دہشتگردوں کا ایک ٹولہ افغانستان اور دوسرا بھارت میں بیٹھا ہوا ہے اور ان کا مقصد پاک فوج کو کمزور کرنا ہے۔ حالیہ کچھ عرصے میں مسلح افواج کیخلاف منظم پروپیگنڈے میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ ترجمان پاک فوج نے مزید کہا کہ دہشتگردی کے ناسور سے نمٹنے کے لئے پاک فوج ، پولیس، انٹیلی جنس ایجنسیز کے ساتھ ملکر یومیہ 112 آپریشنرکر رہی ہے۔ لاکھوں کی تعداد میں غیر قانونی گاڑیاں پاکستان میں ہیں۔ ان نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کو دہشتگردی کیلئے استعمال کیا جاتاہے۔ بے نا می جائیدادیں اور بے نامی اکائونٹس ہیں جن کو اگر بر داشت کیا تو دہشتگرد استعمال کریں گے۔ افغان بارڈر کو غیر قانونی تجارت کیلئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ کروڑوں روپے روزانہ تیل کی اسمگلنگ کیلئے استعمال ہوتے ہیں۔ اربوں روپے کمانے والا مافیا ڈالر باہر لے جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم انتہائی سنجیدہ مسائل کو بھی ہم سیاست کی نذر کردیتے ہیں۔ اس پر بلاوجہ ابہام پیدا کیا گیا۔ اس میں اتفاق رائے ہوگا اور یہ کاوش کی جائے گی جو کوششیں چل رہی ہیں ان کو مؤثر قانون سازی کے ذریعے بااختیار بنایا جائے ، ایک قومی سطح پر بیانیہ بنایا جائے گا۔ پاکستان میں استحکام قائم کرنے کیلئے یہ نیشنل ایکشن پلان کو دوبارہ متحرک کرے گا۔ اس کے علاوہ کچھ نہیں۔ انہوں نے مثال دی کہ نان کسٹم پیڈ گاڑیاں لاکھوں کی تعداد میں پاکستان میں موجود ہیں یا نہیں؟ یہ اس غیرقانونی اسپیکٹرم کا حصہ ہے نا ؟ اس میں اربوں روپے کا بزنس ہو رہا ہے نا؟ انہی نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کے اندر دہشتگرد بھی آپریٹ کرتے ہیں، بے نامی پراپرٹیز، بے نامی اکائونٹس کیا یہ اس غیرقانونی اسپیکٹرم کا حصہ نہیں ؟ اگر آپ اس کو برداشت کریں گے تو اس کے اندر دہشتگرد بھی آپریٹ کریں گے۔ تمباکو، منشیات کی غیر قانونی اسمگلنگ ہورہی ہے ، غیر قانونی اسپیکٹرم کی روک تھام کی ضرورت ہے، ان کی روک تھام کیلئے نظر ثانی شدہ نیشنل ایکشن پلان کی ضرورت ہے ۔ غیر قانونی چیزیں کم ہونگی تو معاشرے کے ہر طبقے سمیت معیشت کی بہتری ہوگی ۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ کسی کو بھی ریاست کی رٹ کو چیلنج کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اس مہم کا مقصد دہشت گردوں اور کرمنلز کے گٹھ جوڑ کو توڑنا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ مدارس کو ریگولیٹ اور رجسٹر کرنے کی بات کی گئی، تقریباً 32ہزار سے زائد مدارس ہیں، پاکستان میں اس وقت 16ہزار رجسٹرڈ ہیں اور 50فیصد غیر رجسٹرڈ ہیں۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ افغانستان کے 6ملکوں کے ساتھ بارڈر لگتے ہیں لیکن باقی ملکوں کے ساتھ تو وہ پاسپورٹ کے ساتھ جاتے ہیں تو پھر ہماری سرحد پر کیوں تذکرے یا شناختی کارڈ دکھا کر اندر چلے جائیں۔ اس کو ایک سافٹ بارڈر رکھا ہے کیونکہ وہ غیرقانونی اسپیکٹرم کو سہولت دیتا ہے۔
2023 میں ایل سیز کو کم کیا کیونکہ ڈالرز کی قلت تھی تو آپ نے دیکھا ہوگا کہ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ ایک دم سے اربوں ڈالر کے لحاظ سے بڑھ گیا، روزانہ کی بنیاد پر کروڑوں روپے تیل کی اسمگلنگ سے بنائے جاتے ہیں، 50سے 60فیصد غیر قانونی سگریٹ بکتے ہیں۔ اربوں روپے کی اس میں مافیا ہے۔ یہاں ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ پاک فوج ہر پاکستانی کے دل میں بستی ہے۔ اس لئے کہ پاک فوج کی بہادری اور قربانیاں وطن عزیز کے دفاع اور سلامتی کی ضامن ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ پاک فوج نے ہر محاذ پر جرأت و شجاعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے دشمن کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملا یا۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی مسلح افواج کا شمار دنیا کی بہترین افواج میں ہوتا ہے۔
پاک فوج نے کبھی بھی اپنے ہم وطنوں کو کسی مشکل حالات میں تنہا نہیں چھوڑا خواہ وہ ملک میں آنے والے تباہ کن زلزلے ہوں، سیلاب ہوں یا کوئی قدرتی آفات یا دہشتگردی کے واقعات، فوج نے ہمیشہ صف اول میں کھڑے ہوکر ان حالات کا مقابلہ کیا اور ہم وطنوں کی جان مال اور عزت کی حفاظت میں پیش پیش رہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ فوج اور عوام میں پیدا کی جانی والی خلش کو دور کرنے کیلئے اقدامات کئے جائیں ، منفی پروپیگنڈے کا ہر سطح پر سدباب کیا جائے ۔ سیاسی قیادت، وکلا برادری سول سوسائٹی اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کریں کیونکہ ہماری فوج کمزور ہوگی تو پھر اس ملک میں کوئی بھی محفوظ نہیں رہے گا۔