Column

بل اس قدر ملے کہ میں بلبلا اٹھا

تحریر : صفدر علی حیدری
پرویز مشرف کو جس مسئلے نے سب سے پہلے اور سب سے زیادہ پریشان کیا وہ تھا بجلی کا شارٹ فال۔ اس کے دور بجلی کا شدید بحران پیدا ہوا۔ لوگ ترستے تھے کہ کاش رات کو دو گھڑی انھیں سونا نصیب ہو جائے مگر ۔۔۔۔۔ اس دور میں جنریٹرز کا دھندہ خوب چمکا۔ لوگ جنریٹرز خریدنے پر مجبور ہوئے اور انھیں چلانے کے لیے کہیں گیس کی مدد لی گئی اور کہیں پٹرول کا سہارا لیا گیا
مگر بات تب بھی نہ بن پائی اور اس کے دور میں بجلی ایک مسئلہ رہی ۔
اس کے بعد پی پی پی کا دور آیا تو اس دور میں پرائیویٹ سیکٹر نے پاور سیکٹر میں سرمایہ کاری کی ۔ بھلا ہو اس عوامی حکومت کا کہ اس نے مہنگے ترین معاہدے کر کے دینا بھر میں اپنا نام کمایا ۔ نام تو ہمارے ایک سابق وزیر اعظم نے بھی خوب کمایا اور آج تک راجہ رینٹل کے نام سے جانے جاتے ہیں ۔ پھر نواز شریف کا دور آیا تو اس میں بھی
وہی ہے چال بے ڈھنگی
جو پہلے تھی سو اب بھی ہے
تب سے اب تک پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہے ۔ بجلی کی دستیابی کا مسئلہ تو خاصی حد تک حل ہو چکا ہے مگر اس کے بدن سے ایک اور مسئلہ جنم لے چکا ہے جو لوڈ شیڈنگ سے کہیں بڑا مسئلہ ہے اور وہ بجلی کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ ۔ مہینے میں کئی بار اعلانیہ و غیر اعلانیہ اضافہ کر دیا جاتا ہے۔
پچھلے ماہ بجلی بلوں میں اس حد تک اضافہ کر دیا گیا کہ قوم کی چیخیں آسمان کی بلندیوں کو چھو گئیں ۔ غریب طبقے کے ساتھ ایسا غیر انسانی سلوک کیا گیا جس کی نظیر نہیں ملتی ۔ انتہائی غریب طبقے کے بل اتنے زیادہ آئے کہ ان کے ہوش اڑ گئے ۔ کشمیری عوام نے اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا اور نقار خانے میں طوطی کی سنی گئی ۔ باقی صوبوں کی عوامل کے لیے یہ ایک مثال تھی مگر ۔۔۔۔۔ نہ ان کی آواز نکلی نہ کسی نے کان دھرے ۔ وزیر اعظم نے تین ماہ کے لیے دو سو سے کم یونٹ والے صارفین کے لیے جو تین سے سات روپے فی یونٹ کمی کا اعلان کیا گیا ہے اسے سن کر بھی بجلی سے ستائے ہوئے چہرے ستے ہوئے رہے اور خوشی کا کوئی تاثر پیدا نہیں ہوا۔
اب بجلی کی بڑھتی ہوتی قیمتوں کے حوالے سے ماہرین کی طرف رجوع کیا گیا تو ان کے مطابق اس کی ایک سے زیادہ وجوہات ہیں۔ مثلاً ایندھن کی بڑھتی ہوئی قیمتیں ، روپے کی گرتی قدر ، کیپٹل پیمنٹس ، گردشی قرضے یعنی سرکلر ڈیٹ ، ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن میں ہونے والے نقصانات ، بجلی چوری ، بلوں کی ریکوریز کم ہونا ، بجلی کی کھپت میں موسم کے لحاظ سے فرق اور دیگر مسائل شامل ہیں ۔
یہ بات قابل غور ہے کہ پاکستان میں 60فیصد بجلی ایندھن سے تیار ہوتی ہے ۔ اب اگر عالمی مارکیٹ میں خام تیل کی قیمتیں بڑھتی ہیں تو اس کا اثر بجلی کی قیمتوں پر پڑتا ہے۔ حکومت نے پانچ جولائی کو ایک سال میں چوتھی بار بجلی کے نرخوں میں اضافے کا نوٹیفکیشن جاری کیا تھا ۔ اعداد و شمار کے مطابق اپریل 2022سے ملک میں فی یونٹ بجلی کی اوسط قیمت میں 18روپے اضافہ ہوچکا ہے۔ حکومتی اعلان سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ریلیف عارضی نوعیت کا ہے اور ملک میں بجلی کا بیس ٹیرف بڑھنے سے ہر طبقہ بالخصوص کم آمدنی والے طبقات زیادہ متاثر ہوں گے ۔
بجلی کی قیمتوں میں حالیہ اضافے کے ساتھ ملک میں بجلی کا اوسط ٹیرف 29روپے 33پیسے جبکہ زیادہ سے زیادہ ٹیرف 76 روپے فی یونٹ تک پہنچ گیا ہے۔ معاشی ماہرین اور خود حکومتی عہدیدار بھی اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ پاکستان میں بجلی کے نرخ خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہیں۔ آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن کے مطابق صنعتی شعبے کو سبسڈی کے بعد اوسط انڈسٹریل ٹیرف 17سینٹ فی کلو واٹ ہے ، جو تقریباً 47روپے 60پیسے بنتا ہے جو خطے کے دیگر ممالک سے اوسطاً دگنا ہے
ایسوسی ایشن کے مطابق بھارت میں بجلی چھ سینٹ فی کلو واٹ یعنی پاکستانی روپوں میں فی یونٹ تقریباً 16روپے 80 پیسے ، بنگلہ دیش میں آٹھ اعشاریہ چھ یعنی پاکستانی روپے میں22روپے 40پیسے فی یونٹ اور ویت نام میں سات اعشاریہ دو سینٹ فی کلو واٹ ریٹ ہے جو پاکستانی روپے میں 20روپے 16فی یونٹ ہے ۔
وفاقی حکومت نے حال ہی میں بجلی کے نرخوں کی ری بیسنگ یعنی رد و بدل کیا ہے۔ جس کے باعث پروٹیکٹڈ صارفین کے لیے فی یونٹ بجلی کی قیمت میں بھی اضافہ ہوا ہے ۔ پروٹیکٹڈ صارفین ان صارفین کو کہا جاتا ہے جن کا ماہانہ بجلی کا خرچ 200یونٹس تک ہوتا ہے ۔ وزیر اعظم کہتے ہیں کہ حکومت کو پروٹیکٹڈ صارفین کے بجلی کے نرخوں میں اضافے کا ادراک ہے۔
بجلی کی قیمتوں میں کس قدر اضافہ کیا گیا ہے ؟
پاکستان میں بجلی کی قیمتوں میں حالیہ اضافے کو ماہرین عام آدمی کے لیے ناقابلِ برداشت قرار دے رہے ہیں ۔ تاہم ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ حکومت بین الاقوامی مالیاتی فنڈ ( آئی ایم ایف) سے قرض پروگرام لینے کے لیے بجلی کے شعبے کے نقصانات کم کرنے پر مجبور ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ بجلی کی قیمتیں بڑھانے کے باجود ملک میں توانائی کے شعبے میں گردشی قرضہ کم ہونے کے بجائے مسلسل بڑھتا جارہا ہے۔
پاکستان توانائی کے حصول کے لیے پٹرولیم اور ایل این جی درآمد کرتا ہے جس پر سالانہ 25سے 27ارب ڈالر کے اخراجات آتے ہیں۔ ہائیڈرو پاور یعنی پن بجلی سے تیار ہونے والی بجلی لگ بھگ 26فیصد ہے۔ اس کے علاوہ 9فیصد کے قریب بجلی ایٹمی بجلی گھروں اور پانچ فی صد کے قریب بجلی قابلِ تجدید ذرائع سے حاصل کی جاتی ہے ۔ماہرِین معاشیات کے بقول بجلی کی قیمتوں میں صرف ایندھن کی قیمت ہی شامل نہیں ہوتی بلکہ اس کے ٹیرف میں کیپیسٹی پیمنٹس کا بھی بہت بڑا ہاتھ ہے۔ کیپیسٹی پیمنٹس سے مراد وہ ادائیگیاں ہیں جو ہر حال میں اُن نجی بجلی کارخانوں کو کرنی ہیں، چاہے ان کی پیدا کردہ بجلی استعمال ہو یا نہ ہو۔ غیر استعمال شدہ بجلی کے پیسے بھی حکومت صارفین سے وصول کرتی ہے۔ بجلی کے بلوں میں اوسط کیپیسٹی چارجز کا حصہ لگ بھگ 70فیصد ہے۔
نیپرا رپورٹ کے مطابق 2023میں تھرمل بجلی پیدا کرنے والے کارخانوں کی استعمال شدہ بجلی کا تناسب محض 34اعشاریہ 68فیصد ہی رہا تھا۔ یعنی 65فیصد سے زائد تھرمل بجلی جو صارفین نے استعمال تو نہیں کی مگر اس کا بل ضرور ادا کیا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ کیپیسٹی پیمنٹس کا اثر تب ہی ختم کیا جا سکتا ہے جب ملک میں بجلی کا استعمال بڑھایا جائے لیکن ملک میں خراب معاشی صورتِ حال کے باعث بجلی کی کھپت میں اضافے کے بجائے کمی دیکھی گئی ہے ۔ سال 2022کے مقابلے میں 2023میں بجلی کی خریداری میں نو اعشاریہ 41فیصد کی بڑی کمی دیکھنے میں آئی تھی۔ ترسیل اور تقسیم کاری کے نظام میں خامیاں بھی بجلی کی قیمتوں میں اضافے کا بڑا سب ہے ۔پاکستان میں بجلی کی سپلائی کے لائن لاسز خطے میں اس وقت سب سے زیادہ بتائے جاتے ہیں جب کہ ماہرین کے مطابق بجلی کی ترسیل کے نظام میں خرابیوں کے باعث سسٹم اپنی استعداد سے کم استعمال ہوتا ہے اور یوں اس کی انڈر یوٹیلائزیشن سے بھی بجلی کی قیمت میں اضافہ ہوتا ہے۔
نیپرا کی لاءسنس یافتہ جنریشن کمپنیوں کی کارکردگی وقت کے ساتھ گرتی چلی گئی ہے۔ جامشورو پاور کمپنی سے پیدا شدہ بجلی کی فی یونٹ قیمت 54روپے 62پیسے سے بھی بلند ہو چکی ہے ۔ اسی طرح مظفر گڑھ میں واقع جنریشن پلانٹس سے حاصل کردہ بجلی کا فی یونٹ نرخ 2023میں 50روپے سے تجاوز کر چکا تھا۔
وزارت توانائی کے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت پاکستان میں بجلی کے شعبے میں گردشی قرضے دو ہزار 800ارب تک جا پہنچے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق ملک میں گردشی قرضوں سے بجلی کے بلوں پر پڑنے والا بوجھ 70فیصد تک چلا گیا ہے جبکہ صرف 30فیصد بجلی پیدا کرنے کی لاگت آتی ہے ۔ وزیر توانائی نے دعویٰ کیا ہے کہ حکومت آئندہ پانچ برس میں بجلی کے شعبے کو مکمل طور پر بہتر بنانے کی کوشش کر رہی ہے ۔ ان کے بقول دس میں سے آٹھ ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کے نئے بورڈ تشکیل دئیے ہیں اور اگلے مرحلے میں حکومت آئندہ دو سے تین سال میں ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کی نجکاری کے قریب ہو گی۔ ملک میں صرف بجلی چوری 600ارب روپے تک جا پہنچی ہے اور اس نقصان کا خمیازہ انہی صارفین کو ادا کرنا ہوتا ہے جو باقاعدگی سے بل جمع کراتے ہیں۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ دو سال قبل حکومت نے ملک کی تمام پاور ڈسٹری بیوشن کمپنیوں میں نئے بورڈ ممبران کا تقرر کیا تھا لیکن حکومت نے ان کا احتساب کئے بغیر ان کی جگہ نئے ممبران تعینات کر دئیے ہیں ۔ قومی سطح پر مہنگی بجلی کے حوالے سے کوئی قدم نہیں اٹھایا جا رہا۔ اب ضرورت اس امر کی ہے نجی حوالے سے کوششیں کی جائیں۔ اس سلسلہ میں شمسی توانائی کا استعمال ایک بہترین آپشن ہے۔ پی ڈی ایم اور موجودہ حکومت کے دور میں صرف شمسی پینل وہ واحد چیز ہے جس کی قیمت کم ہوئی ہے۔ اب ایک متوسط گھرانا یقیناَ شمسی توانائی کا استعمال کر کے مہنگی بجلی سے چھٹکارا پا سکتا ہے۔ جہاں تک غریب طبقے کی بات کی تو دو سو یونٹ تک بجلی کی قیمت کو مناسب حد تک کم کر کے ان کی مشکلات کو کم کیا جا سکتا ہے۔ تبھی بل دیکھ کر ان کی بلبلاہٹ ختم کی جا سکتی ہے۔
آج قوم کی جو حالت ہے اس کا کیا خوب نقشہ کھینچا گیا ہے،
جو چوٹ بھی لگی وہ پہلے سے بڑھ کے تھی
ہر ضرب کرب ناک پر میں تلملا اٹھا
پانی کا، سوئی گیس کا، بجلی کا ، فون کا
بل اس قدر ملے کہ میں بلبلا اٹھا

جواب دیں

Back to top button