ColumnImtiaz Aasi

حج پالیسی کا جلد اعلان کرنا چاہیے

 

امتیاز عاصی
سعودی حکومت کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے وہ حج انتظامات بروقت کرکے اپنے لئے آسانیاں پید ا کرتی ہے جب کہ ہمارا ملک عین آخری وقت حج درخواستیں لے کر اللہ تعالیٰ کے مہمانوں اور منتظمین کے لئے مشکلات کا باعث بنتا ہے۔یہ بات ہماری سمجھ سے بالاتر ہے وزارت مذہبی امور حج ختم ہونے کے فوری بعد حج درخواستیں لینے کا آغاز کیوں نہیں کرتی تاکہ حج مشن اور حج گروپ آرگنائزر عازمین حج کے لئے سعودی عرب میں رہائش ، ٹرانسپورٹ اور مشاعر مقدمہ میں خیموں کے بروقت انتظامات کر سکیں۔ حالیہ حج کے دوران پرائیویٹ گروپس لے جانے والوں کو جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اس کی ذمہ دار وزارت مذہبی امور اور سعودی عرب میں حج مشن ہے۔2025کے حج کو ایک سال پڑا ہے سعودی عرب نے آئندہ حج کے انتظامات کے لئے شیڈول کا اعلان کر دیا ہے جس کا مقصد تمام ملکوں کی لئے آسانی پیدا کرنا ہے تاکہ وہ اپنے اپنے ممالک کے عازمین حج کے لئے سعودی عرب میں بروقت انتظامات کر سکیں۔ سعودی حکومت 20شعبان19 فروری سے حج ویزے جاری کرنا شروع کر دے گی اور 18اپریل سے حج ویزے بند ہو جائیں گے جس کے بعد یکم ذولقعدہ 29اپریل سے عازمین حج کی سعودی عرب روانگی کا سلسلہ شروع ہو جائے گا۔ پروگرام کے مطابق وزارت حج سعودی کمپنیوں سے درخواستیں لینے کا کام 18جون سے شروع کرے گی 4ستمبر سے سعودی وزارت حج کی کمپنیوں سے بات چیت کا آغاز ہو جائے گا۔13جنوری سے جدہ میں پہلے کی طرح نمائش کا انتظام کیا جائے گا جس میں تمام ملکوں کے نمائندوں اور پاکستان سے حج گروپس لے جانے والوں کو شرکت کی دعوت دی جائے گی۔13شعبان 14فروری سے عازمین حج کے لئے رہائش ، ٹرانسپورٹ، اور منی عرفات میں خیموں کے انتظامات کے لئے معاہدوں کا عمل شروع ہو جائے گا۔ سعودی حکومت کی طرف سے حج پالیسی کے اعلان کا اہم مقصد یہ ہے تمام ملک اپنے عازمین حج سے متعلق انتظامات بروقت مکمل کرلیں تاکہ انہیں سعودی عرب پہنچنے کے بعد کسی قسم کی مشکل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ گزشتہ حج کے دوران پرائیویٹ گروپس لے جانے والوں پر کلیسٹر بنانے کی قدغن سے بھی مشکلات پیدا ہوئی ہیں اگر وزارت مذہبی امور اس معاملے کو التوا میں رکھ لیتی تو کون سی قیامت آجاتی۔ ہمیں یاد ہے سعودی حکومت کئی سال تک عازمین حج کو پرائیویٹ گروپس میں بھیجنے پر زور دیتی رہی حکومت نے 2004میں نجی گروپس میں عازمین حج کو بھیجنے کا سلسلہ شروع کیا۔ امسال حج کے دوران مشاہدہ کیا گیا ہے وزارت مذہبی امور نے ریگولر اسکیم کے عازمین حج سے بہت پہلے درخواستیں وصول کیں لیکن ٹور آپرٹیروں کو بہت تاخیر سے بکنگ کی اجازت دی اگر انہیں پہلے بکنگ کی اجازت دے دی جاتی تو وزارت مذہبی امور کو کیا نقصان تھا۔ بھارت نے سعودی حکومت کے مطالبے کے باوجود اپنے عازمین حج کے لئے کلیسٹر نہیں بنایا اس کے برعکس وزارت مذہبی امور ٹور آپرٹیروں پر ڈنڈا لے کر پڑی رہی بس کلسیٹر بنائیں ورنہ پتہ نہیں کیا ہو جائے گا۔ یہ بات درست ہے ہمیں میزبان ملک کی پالیسی پر عمل کرنا پڑتا ہے لیکن دوسرے اسلامی ملک بھی ہیں وہ سعودی حکومت کی ہدایات پر اتنی جلد عمل نہیں کرتے جیتنا ہمارا ملک جلد ی کرتا ہے۔ حج انتظامات میں بہتری اسی صورت میں آسکتی ہے جب عازمین حج سے درخواستیں بروقت وصول کی جائیں نہ کہ کہیں ماہ تک انتظار کرنے کے بعد یہ کام کیا جائے۔ وزارت مذہبی امور حج پالیسی کا اعلان کسی وقت بھی کر سکتی۔ ماضی تجربات کو مد نظر رکھا جائے تو ڈالر کا ایڈوانس تخمینہ لگا کر درخواستیں وصول کی جا سکتی ہیں۔ ایک دوسرا طریقہ یہ ہو سکتا ہے صرف حج درخواستیں وصول کی جائیں اور قرعہ اندازی میں کامیاب لوگوں سے حج واجبات وصول کئے جائیں۔ تعجب ہے وزارت مذہبی امور نے امسال پرائیویٹ گروپس لے جانے والوں کو واجبات اپنے طور پر وصول کرنے کی آزادی دے دی اگر انہیں جلد بکنگ کی اجازت
دینے سے حکومت پاکستان کو کیا نقصان پہنچے گا؟ عجیب تماشا ہے ٹور آپرٹیروں پر اسپانسر کی پابندی لگا دی گئی اللہ کے بندوں کوئی ضروری نہیں ہر عازم حج کو کوئی رشتہ دار یا عزیز ملک سے باہر ہو لہذا آئندہ حج درخواستیں لیتے وقت پرائیویٹ گروپس لے جانے والوں پر اسپانسر کی تعداد کی پابندی نہیں لگانی چاہیے۔ امسال وزارت مذہبی امور نے پرائیویٹ گروپس کی تنظیم ہوپ کو عین اس وقت اسپانسر کی شرط ختم کرنے کا لکھا جب عازمین حج کی روانگی کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا۔ ہماری معلومات کے مطابق بہت سے حج گروپ آرگنائزروں کے ریفنڈ کا معاملہ ابھی تک التوا میں پڑا ہے۔ یہ حج مشن کو ٹرانسپورٹ اور منیٰ میں خیموں کے لئے کرایوں کی رقوم بھیجنے کی شرط ختم کی جائے بلکہ پہلے کی طرح انہیں براہ راست سعودی کمپنیوں کو پیسے بھیجنے کی اجازت ہونی چاہیے۔ وزارت مذہبی امور کو جو کام کرنے والا ہوتا ہے وہ تو کرتے ہیں جیسا کہ پہلے پرائیویٹ اسکیم میں جانے والوں کے لئے پیکیج مذہبی امور کے حکام بناتے تھے لیکن امسال انہیں حج واجبات لینے کی آزادی دے دی گئی۔ چلیں اچھی بات ہے جو ٹور آپرٹیر عازمین حج کو زیادہ سے زیادہ سہولتیں فراہم کر سکتا ہے اسے واجبات لینے کی آزادی ہونی چاہیے۔ حقیقت تو یہ ہے سعودی عرب میں حج مشن کی بالکل ضرورت نہیں ہے یہ تو جنرل ضیاء الحق نے چودھری شوکت کو ممنون کرنے کی خاطر قائم کیا تھا۔ ڈائریکٹر جنرل، ڈائریکٹر اور ڈپٹی ڈائریکٹر کے ساتھ پاکستان سے جانے والا عملہ اور مقامی افراد کو بھرتی کرنے پر سالانہ اربوں روپے خرچ ہو رہے ہیں ۔ایک طرف حکومت معاشی حالات کا رونا روتی ہے دوسری طرف بیرون ملک حج مشن جس کا عملہ سال بھر فارغ رہتا ہے صرف حج کے دو ماہ کام ہوتا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف اور وزیر مذہبی امور کو اس معاملے کو سنجیدگی سے دیکھنا چاہیے۔ حکومت نے نجی گروپس میں عازمین حج کو لے جانے والوں کو اجازت نامے جاری کئے ہیں انہیں اعتماد میں لینا وزارت مذہبی امور کی ذمہ داری ہے۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

Back to top button