میں حر ہوں اور ابھی لشکر یزید میں ہوں

صفدر علی حیدری
غارِ حرا کے ایک تنگ و تاریک گوشے سے ابھر، چمکنے اور ہر سو پھیل جانے والی الہامی روشنی کا سفرِ ہدایت ایک تسلسل سے جاری ہے۔ ( ہاں مگر چراغِ مصطفوی سے اشرارِ بولہبی ٹکراتے ضرور رہتے ہیں آج بھی یہ فتنہ امریکہ اور اسکے حواریوں کے روپ میں عالمِ اسلام کے در پے ہے )۔ زمان و مکان کی قید سے آزاد، اس نور کی ضیا پاشیوں نے تب سے اب تک ایک عالم کو اپنے حلقہء نور میں محصورو مسحور کر رکھا ہے۔ یہی وہ نو ر ہے جو لوحِ تاریخِ انسانی کے قلم کی فقط روشنائی ہی نہیں نورِ بصیرت بھی ہے۔ وہی تاریخ جس کی حیثیت انسانیت کے ضمیر کی سی ہے۔ ضمیر انسانی کی طرح اس منصف نے بھی کبھی رشوت قبول کی ہے اور نہ کہیں عدل و انصاف کا خون ہونے دیا ہے۔ لغوی اعتبار سے منث کہی جانے والے اس مجاہد نے اپنی جراتِ رندانہ سے افضل ترین جہاد کا فریضہ سر انجا م دیتے ہوئے، ہر عہد کے ایک ایک جابر شخص کے چہرے پر پڑی مکر وفریب کی نقاب الٹ کر جواں مردوں تک کو پچھاڑ ڈالا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ مورخ کا قلم خرید کر اپنی اپنی جیبوں میں لئے پھرنے والے بادشاہانِ وقت تاریخ کو کبھی اپنی باندی اور کنیز بنانے میں کامیاب نہیں ہو پائے اور ہو بھی کیسے پائیں گے کہ اسے ہر عہد میں ’’ ناٹ فار سیل‘‘ رہنا ہے ( ہر چیز ِ بازاری ہوتی ہے نہ بکائو، ہاں خریدار کی نظریں ہر چیز کو ایک جیسی نظروں سے دیکھتی ضرور ہیں )۔
واقعات ہمیشہ تاریخ کی راہ تکتے ہیں لیکن یہ نور ایک ایسا معجزہ کہ تاریخ کو ہم نے سدا اس کی تلاش میں سرگرداں پایا ہے۔ تاریخ آج بھی اپنا اثبات اسی نورِ محمدی سے پاتی ہوئی ماضی میں اپنا سفر جاری رکھتی ہے۔ ایک ایسا سفر جس میں شمع ِرسالت کے پروانے بھی اس کے پیچھے پیچھے محوِ سفر رہتے ہیں۔ اپنے حال اور حالات سے دامن بچاتے ہوئے میں نے بھی چشمِ تصور سے تاریخ کو اپنے اثبات کے لئے پھر سے آمادہ سفر دیکھا تو اس کے پیچھے ہو لیا۔ میں نے غار ِ حرا سے پھوٹتی روشنی رفتہ رفتہ آگے بڑھتی دیکھی۔ جہاں نور کے پروانے طوافِ نور کو آگے بڑھے، وہیں ظلمت بھی آگے آئی کہ وہ تو سدا سے ہی نور کے درپے آزار رہی ہے۔ نورِ محمدی چمکا اور خوب چمکا۔۔۔ اتنا کہ شمس و قمر اس کے آگے پانی بھرتے دکھائی دیئے ۔ یہ شمع جلتی اور ظلمت کے اندھیروں کا سینہ جلاتی رہی۔ نورِ خدا کو بھی کبھی کوئی بجھا پایا ہے ؟ سو پھونکوں سے یہ چراغ بجھا نہیں اور بھڑکا۔۔۔ اور سدا کفر و شرک کی حرکتوں پہ خنداں زن رہا۔ اور ایسا کیوں نہ ہوتا کہ خدا کی روشن کردہ شمع کبھی کسی نے بجھتے نہیں دیکھی؟ ۔۔۔ روشنی کا سفر کبھی نہیں تھمتا کہ ازل سے اس کے مقدر میں ہر اس جگہ پہنچنا لکھ دیا گیا ہے جہاں ظلمت نے اپنے پنجے گاڑھ رکھے ہوں۔ یہ وہ کنول کا پھول ہے جو کیچڑ پہ بھی کھلے تو ایک عالم کو معطر کئے بنا نہیں رہتا ( علم کا منتہا جاننا ہے تو عرفان کا پہنچنا اور یہ نور تو عرفانی ہی نہیں آفاقی بھی ہے ) سائنس روشنی کو توانائی کی ایک قسم قرار دیتی ہے کہ جسے فنا نہیں کیا جا سکتا۔ مخرج مضبوط تو رخ تک موڑنا مشکل ہو جاتا ہے۔ جبھی تو سورج کے راستی میں کوئی دیوار کبھی کھڑی نہیں کی جا سکی ۔ اور یہ تو الہامی روشنی تھی ( اور ہے) سو طاغوت کے اندھیرے خود نیستی میں بدلتے گئے اور یہ سفر جاری رہا۔ تمام تر رکاوٹیں گرہن کی طرح آئیں اور خود کو گرہن سے نہ بچا پائیں۔ نور کے پائے استقلال میں ہلکی سی بھی جنبش نہ آئی کہ یہ تو شک کی علامت ہوا کرتی ہے اور مقام ِحق الیقین پر تو پلٹ کر دیکھنا تک روا نہیں ہوتا۔
( آگہی کی منزل سے لوٹ جائیں ہم کیسے ؟ اس جگہ نہیں جائز دیکھنا پلٹ کر بھی ) ۔۔۔۔۔
اور پھر یہ تاریخی جملے زبانِ اطہر سے یوں ادا ہوئے کہ تاریخ کا سنگھار بن گئے، ’ اگر میرے دائیں ہاتھ پر سورج اور بائیں ہاتھ پر چاند بھی رکھ دیا جائے تب بھی تائید و تبلیغِ حق سے باز نہ آئوں گا‘۔ جب دھونس، دھمکی، لالچ، حتی کہ معاشی مقاطعہ تک ناکام و نامراد ٹھہرا تو اس پر وطن کی سرزمین تنگ کر دی گئی جسے بڑے فخر سے صادق و امین کہہ کر مخاطب کیا کرتے تھے ( کیا قیامت تھی کہ جس کے لئے پورے کرہ ارضی کو قابلِ سجدہ بنا دیا گیا تھا اسی کے ایک مختصر سے حصہ پر رہنا تک ممنوع قرار دے دیا گیا تھا) اپنا وطن اس حالت میں چھوڑا کہ روح میں غم کی فضا طاری تھی اور آپ ان کے درمیان سے نور کے ایک ہالے کی صورت یوں رخصت ہوئے کہ بے نور آنکھیں انہیں جاتا دیکھ ہی نہ پائیں۔ آنکھ میں حیا نہ ہو تو بصارت باقی رہتی ہے نہ بصیرت۔ سچ ہے آنکھوں پر کپڑا ڈال دیا جائے تو سورج جیسی روشن ترین حقیقت بھی نظروں سے اوجھل ہو جاتی ہے۔ مدینہ میں انصار نے دل و نگاہ فرشِ راہ کئے اور مہاجرین کو سر آنکھوں پر بٹھایا تو وطن سے جدائی کا درد کچھ کم ہوا اور کسی قدر اطمینان بھی جسے دیکھ کر نور کے ازلی دشمن انگاروں پر لوٹنے لگے۔
پھر یہ دشمنی، تعصب اور خبثِ باطن ایک کے بعد ایک جنگ کی صورت میں تاریخ کے اجلے دامن کو داغ دار اور خون آلود کرتا چلا گیا۔ ساتھ ہی ساتھ یہ معجزہ بھی ہوا کہ طاغوت کے عزائم حرف ِ غلط کی طرح نابود ہوتے چلے گئے۔ اسی دوران تاریخ نے ایک اور منظر بھی اپنی یادداشت میں یوں محفوظ کیا کہ آج بھی جس کی یاد مومنوں کے قلب کو متغیر اور آنکھوں کو پرنم کر دیا کرتی ہے۔ ایک نورِ مجسم نے ایک نوزائیدہ نور کو ہاتھوں پہ پہلی بار لیا تو نور کی آنکھوں سے نمکین پانی رواں تھا۔ خاتونِ جنت متعجب ہیں ’’ بابا! خوشی کے اس موقع پر آپ کی آنکھ میں آنسو؟‘‘۔۔۔ فرمایا’’ بیٹی، کربلا کے میدان میں اس کی شہادت رلا رہی ہے‘‘۔ یہ دراصل اس خواب کی تفسیر تھی جس میں آپ کو دکھا دیا گیا تھا کہ منبرِ نبوی پر بندر ناچ رہے ہیں۔۔ اور پھر جب بیرونی دشمن ناکا م و نامراد ٹھہرے تو دشمنانِ اسلام ’’ ابن ابی ‘‘ کے سیاسی وارثین کے ذریعے اسلام کو گھر کے اندر سے نقصان پہنچانے کے درپے ہوئے۔ یہ ایک کاری وار تھا اور اوچھا بھی۔ پھر ناقابل ِ فہم اتنا کہ اسے محض نورانی گھرانا ہی ایک فرد سمجھ پایا۔
ہاں وہی نورانی وجود کہ جسے گرتا دیکھ کر نورِ مجسم سے منبر چھوٹ جایا کرتا تھا، کندھے پر سوار ہوتا تو نماز ’ حالتِ قیام‘ میں آجاتی جو مہرِ نبوت پہ سوار ہوتا تو رسالت مآبؐ فخر سے کہہ اٹھتے ’ سوار ی نہیں سوار کی شان پر ذرا نظر تو کرو‘، ہاں وہی حسینؓ کہ جس کی خوشبو اپنے ناناؐ کو جنت کی یاد بھی دلاتی تھی اور تسلی بھی، وہی جو باغِ رسالت کا پھول ہی نہیں تھا جنت کا سردار بھی ہے۔۔ اور جب بندر کو ساتھ ساتھ لئے پھرنے والا منبرِ رسالت پر قابض ہوا تو خاندانِ نور کے سربراہ نی اپنی تمام تر’ کرنوں‘ کو سمیٹا اور اس سرزمین کی جانب بڑھا کہ جس کا نام ہی حالات کی سنگینی آشکار کر دیا کرتا ہے۔ روکنے والوں کا خلوص اپنی جگہ اور اس کا الٰہی مشن اپنی جگہ۔ سمجھانے والے جان ہی نہ پائے کہ اسلام کو اس سے بڑا خطرہ آج تک پیش نہیں آیا۔ منافقت ہی تو دراصل فتنہ اکبر ہے جو طاغوت کا سب سے بڑا ہتھیار ہوا کرتا ہے۔ امام جانتے تھے کہ رعایا بادشاہوں کے دین پر ہوتی ہے سو آپ نے میدانِ عمل میں اترنے میں لمحہ بھر بھی تاخیر نہیں کی ۔
اگر جسم فنا کے لئے ہوتا ہے تو راہِ میں فنا ہونے سے بڑھ کر اور کیا سعادت ہوگی۔ آپ نے اپنے اس قول کو حرف بہ حرف سچ ثابت کیا۔ یقیناًدل مقتل میں ہو تو پھر سر کی پروا کرنے والا سردار کہلانے کے قابل نہیں رہتا اور وہ تو صرف سردار نہ تھا ’ شاہ ‘ تھا، یعنی عالم کا بادشاہ۔ دین و دنیا کا سربراہ ۔ عرض کر چکا کہ جہاں ظلمت ہوگی وہاں نور کی ضرورت اتنی ہی شدید ہوگی اور سنتِ الٰہی ہے کہ وہ مخلوق کو بے سہارا نہیں چھوڑتا۔
سو طاغوت کے مقابلے میں نور کو اترنا ہی تھا سو وہ اترا اور اس شان سے اترا کہ جان تو گئی شان سلامت رہی اور حیات ِابدی کا بھید دنیا پر پوری طرح روشن ہوگیا۔ شہ رگ نے ظلمت کے خنجر کا سر قلم کر دیا اور یوں طاغوت کو سر چھپانے کی جگہ ڈھونڈے نہ ملی۔ بیعت کا سوال اس شدت سے رد ہواکہ تاریخ کسی ایک آدمی کا نام بھی بیان نہ کر پائی جس نے پھر کبھی کسی سے بیعت کا محض نام لینے کی بھی جرات کی ہو۔ ملو کیت سرنگوں بھی ہوئی اور بے نقاب بھی۔ آج جب میں اپنے اردگرد ایک بھی حسین نہیں پاتا اور ’’ جگہ جگہ ہے بپا۔۔ کربلا کربلا ‘‘ کی کیفیت دیکھتا ہوں تو پھر سے اسے پکارنے کو دل مچلتا ہے جس کی صدا ’اھل من ناصر‘ انسانی ضمیروں کو ہر لحظہ جھنجھوڑتی رہتی ہے ۔ لیکن میں مخمصے میں پڑ جاتا ہوں کہ کروں تو کیا کروں ۔ نہیں پکارتا تو شامی ٹھہرتا ہوں اور پکارتا ہوں تو کوفی بن جانے کا خطرہ زبان پہ خاموشی کی مہر لگا دیتا ہے۔ میں جانتا ہوں کہ میرا حسین اس کربلا میں ابھی نہیں پہنچا اور یہ بھی مانتا ہوں کہ اسے آنا ضرور ہے کہ جہاں ظلمت ہو وہاں نور کو اترنا ہی ہوتا ہے چاہے لوگوں کی تلواریں ساتھ نہ ہوں صرف دل ساتھ ہوں ۔ خدا لگتی کہوں گا کہ میں یہ دعویٰ کر ہی نہیں پاتا
میں حر ہوں اور ابھی لشکرِ یزید میں ہوں