ColumnRana Ijaz Hussain

شہادتِ امام حسینؓ

 

رانا اعجاز حسین چوہان
خاتم النیین محمد اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ حسینؓ مجھ سے اور میں حسینؓ سے ہوں، جو شخص حضرت حسینؓ سے محبت کرے اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ محبت فرمائے گا‘‘۔ حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ اہل بیت میں سے آپؐ کو سب سے زیادہ محبوب کون ہے ؟، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہ صدیقہؓ سے کہا کرتے تھے میرے بیٹوں کو میرے پاس لے آئو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو سینے سے لگا لیتے۔ حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حسنؓ کو کندھے پر اٹھایا ہوا تھا کہ ایک شخص نے کہا، کیا ہی اچھی سواری ہے، جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ’’ سوار کتنا اچھا ہے‘‘۔ مگر جب آنے والے حالات کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو علم ہوا تو آپ کی آنکھوں سے آنسو برس پڑے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے پاس جبرائیل آئے اور مجھے بتایا کہ میری امت میرے اس بیٹے کو قتل کر دے گی، جبرائیلٌ اس جگہ کی سرخ مٹی بھی میرے پاس لائے جہاں اسے قتل کیا جائے گا۔
اور پھر جب اسلامی خلافت کے بعد بادشاہت کا دور آیا تو حضرت امیر معاویہ کے فرزند نے اپنے عظیم والد گرامی کے مشن سے باغی ہوکر اسلامی حکومت کو قیصر وکسریٰ کی طرز پر ملوکیت سے بدلنا چاہا اور اس پر امام حسین ؓ سے بیعت چاہی، یہی وہ موڑ ہے جو تاریخ اسلامی میں واقعہ کربلا کا سبب بنا۔ اسلامی نظام شریعت کے روشن چہرے کو یزید شہنشاہی کے زعم میں مسخ کرنا چاہتا تھا۔ جس دین کی اکملیت فخر موجدات صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی آمد کے ساتھ ہو گئی تھی، اسی دین کے اصول حرام و حلال میں یزید اپنے نفس کے فیصلے نافذ کرنا چاہتا تھا۔ اس کے سامنے دو نمونے تھے، اسلامی نظام حکومت کا نمونہ اور کسریٰ کے استبداد کا نمونہ۔ اس نے اسلامی نظام حکومت کا نمونہ نہیں اپنایا بلکہ اس نے کسریٰ کی آمریت کو نمونہ عمل بنایا۔ اسی کی تصدیق کیلئے اس نے نواسہ رسول حضرت حسینؓ کو مجبور کرنا چاہا، وہ چاہتا تھا کہ شراب و شباب کی اجازت دیدی جائے، زنا و سود کی اجازت دیدی جائے ، اسلامی تعزیرات میں رد و ترمیم کر دی جائے، شریعت کو طبیعت کے مطابق ڈھال لیا جائے اور ان سب کے باوجود امام حسینؓ بیعت یزید کرکے یزیدی قوانین کو تسلیم کر لیں۔ معاملہ چونکہ اسلامی قوانین کی حفاظت کا تھا، یزید شریعت اسلامی میں تحریف چاہتا تھا، حضرت حسینؓ کا بیعت کر لینا مثال بن جاتا، یزیدی فتنے پر مہر تصدیق ثبت کرنے کا ذریعہ بن جاتا، اسلام کا وہ روشن چہرہ باقی نہ رہتا جس کیلئے خاتم الانبیاء محمد صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تھے۔ حضرت حسینؓ نے مستقبل کیلئے ایک مثال قائم کر دی کہ یزید کی بیعت دراصل باطل کی توثیق ہے اس لئے آپ نے بیعت یزید سے صاف انکار کرکے دنیا کو صدق و وفا کا وہ عظیم درس دیدیا کہ ہر باطل کے مقابل حضرت حسینؓ حق کی علامت بن چکے ہیں۔
باطل چاہے اسلامی کلمے کے ساتھ آئے یا صیہونیت کی شکل میں، ایک مسلمان کیلئے سچے اسلامی احکام ہی کافی ہیں، انہیں کی پیروی میں اس کیلئے نجات ہے۔ اس دنیائے فانی میں اپنے مکر و فریب اور جبروتشدد سے حاصل کی ہوئی قوت کے بل بوتے پر کسی کا بظاہر کامیاب نظر آنا اور اقتدار حاصل کر لینا، اصل کامیابی نہیں۔ بلکہ حقیقی اور دائمی کامیابی یہ ہے کہ انسان کو تخت ملے یا تختہ وہ دنیاوی جاہ و حشمت کے لئے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا دامن ہرگز نہ چھوڑے۔ حضرت حسینؓ کی عظیم شہادت ہمیں یہ درس دیتی ہے کہ باطل کو ترک کرکے حق پر ڈٹا جائے۔ ہمیشہ دین حق کا علم بلند کیا جائے، چاہے اس کے لئے بڑی سے بڑی قربانی کیوں نہ دینی پڑے۔ اپنی اور اپنے عزیزوں کی جان راہ خدا میں نچھاور کرکے حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بتا دیا کہ جب بھی اسلام کے مقابل یزیدیت سر ابھارے میری شہادت سے درس لے کر استقلال کی تاریخ رقم کر لینا، باطل کے آگے سرنگوں نہ ہونا۔ جان دی دینا مگر یزیدیت کی اطاعت قبول مت کرنا۔ تاریخ انسانی میں ایسے خونیں سانحہ کی مثال نہیں ملتی، جان دینا آسان نہیں، عزیزوں کو قربان کرنا بڑا مشکل کام ہے ۔ یہ سب صرف اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور دین حق کی سربلندی کیلئے امام حسینؓ نے قبول کیا۔ اور امت محمدیہ کو بتا دیا کہ خود داری یہ نہیں کہ اسلام سے جدا راہ قبول کر لی جائے ، خود داری تو یہ ہے کہ راہ حق پر چلا جائے چاہے اس کیلئے اپنے لہو سے ہی چمن کی آبیاری کرنی پڑے۔ حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے لہو سے ایک درخشاں تاریخ لکھ دی ہے جس کی سرخی آج بھی ہویدا ہے۔
مٹی میں مل گئے ارادے یزید کے
لہرا رہا ہے آج بھی پرچم حسین ؓ کا

جواب دیں

Back to top button