امام حسین رضی اللّٰہ عنہ کے سر مبارک کی کرامت

سی ایم رضوان
تاریخ عالم اور تاریخ اسلام عجائبات، معجزات اور محیر العقول واقعات و حالات سے بھری پڑی ہے۔ ایسے تمام حقائق و واقعات سے صرفِ ایک ہی امر نمایاں اور ثابت ہے کہ اللّٰہ خالق کائنات نے انسانوں کی ہدایت و رہنمائی اور ان کی عبرت و دانائی کے لئے جابجا اور زمانہ بہ زمانہ اپنی قدرت کاملہ سے مختلف واقعات کا بندوبست کیا۔ ایسے ہی واقعات میں ایک اصحاب کہف کا واقعہ ہے۔ اصحاب کہف کون تھے۔ اس میں علماء کا اختلاف ہے۔ بعض کا خیال ہے کہ دین مسیحی پر تھے لیکن علامہ ابن کثیر نے مختلف قرائن سے اس بات کو ترجیح دی ہے کہ اصحاب کہف کا قصہ مسیح ( علیہ السلام) سے پہلے کا ہے مگر صحیح اور راجح بات یہ ہے کہ یہ واقعہ پہلی صدی عیسوی کا ہے۔ اسی طرح اصحاب کہف کے غار کا مقام بھی تحقیق کے ساتھ دریافت ہو چکا ہے۔ یہ غار خلیج عقبہ سے شمال کی جانب بڑھتے ہوئے پہاڑوں کے دو متوازی سلسلے ملتے ہیں۔ ان میں سے ایک پہاڑ کی میں اصحاب کہف کا غار موجود ہے جبکہ اسلامی اور عیسائی مورخین اس بات پر متفق ہیں کہ یہ واقعہ قیصر ’’ ڈیسس یا دقیانوس ‘‘ کے دور میں پیش آیا جس نے 229ء تا سن 251ء تک روم پر فرمانروائی کی تھی۔ قیصر دقیانوس ایک بت پرست اور ظالم بادشاہ تھا جبکہ اصحاب کہف جو کہ حق پر تھے اور اس کے ظلم و ستم سے محفوظ رہنے کے لئے غار میں جا کر سو گئے تھے ان کا کتا بھی ان کی حفاظت پر مامور رہا جب یہ بیدار ہوئے تو دور بدل چکا تھا حتی کہ سکہ رائج الوقت بھی تبدیل ہو چکا تھا۔ یہ واقعہ اگر قرآن پاک کی سورۃ کہف میں یہ واقعہ بیان نہ کیا جاتا تو شاید محققین اور لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہو جاتا یا ناقابل یقین ہو جاتا مگر قرآن پاک نے اس پر مہر تصدیق ثبت کرتے ہوئے اصحاب کہف کی صداقت اور ان کے کتے کی اہمیت کو بیان کر کے کمال حیرانگی کا بندوبست کر دیا ہے۔ پھر یہ حیرانگی اور بھی بڑھ جاتی ہے جب شہید کربلا امام حسینؓ کے نیزے پر بلند بریدہ سر سے کلام جاری ہو جاتا ہے کہ اصحاب کہف کے عجوبے سے ان کے سر مبارک کا بریدہ ہونا اور اسے نگر نگر پھرایا جانا عجیب تر ہے۔
محرم الحرام کے دنوں میں بالخصوص اور دیگر ایام میں بالعموم امام حسینؓ کے بریدہ سر سے تلاوتِ قرآن جاری ہونے کی روایت بیان کی جاتی ہے اس امر کی حقیقت یہ ہے کہ سرِ امام حسین علیہ السلام کا نیزے پر تلاوت کرنا روایات سے ثابت ہے جبکہ یہ روایات اہل سنت کی معتبر کتابوں میں نقل کی گئی ہیں۔ جیسا کہ حوالہ جات کے ساتھ دو روایات درج ذیل ہیں:
منھال بن عمرو سے روایت ہے کہ اس نے کہا: خدا کی قسم میں نے حسین بن علی کے سر کو نیزے پر دیکھا ہے اور میں اس وقت دمشق میں تھا۔ وہ سر سورہ کہف کی تلاوت کر رہا تھا حتیٰ کہ باری تعالیٰ کے اس فرمان پر پہنچا: ( أَمْ حَسِبْتَ أَنَّ أَصْحَابَ الْکَہْفِ وَالرَّقِیمِ کَانُوا مِنْ آیَاتِنَا عَجَبًا) وہ کہتا ہے کہ اس آیت کے فوری بعد سر نے واضح اور بلیغ زبان میں کہا کہ اصحاب کہف سے زیادہ عجیب میرا قتل ہونا اور میرے سر کو نیزے پر اٹھایا جانا ہے۔
( ابن عساکر، تاریخ مدین ودمشق، 60: 370، بیروت: دار الفکر۔ ابن منظور المصری مختصر تاریخ دمشق، 3: 362، بیروت: دار الفکر۔ صلاح الدین الصفدی، الوافی بالوفیات، 15: 205، بیروت: دار حیاء التراث۔ جلال الدین السیوطی، الخصائص الکبری، 1: 216، بیروت: دار الکتب العلمی۔ جلال الدین السیوطی، شرح الصدور بشرح حال الموتی والقبور، 1:210، لبنان دار المعرف ۔ الصالحی الشامی، سبل الہدی والرشاد 11: 76، بیروت، لبنان: دار الکتب العلمی۔ عبد الرئوف المناوی، فیض القدیر شرح الجامع الصغیر، 1: 205، مصر: المکتب التجاری، الکبری)
ایک اور روایت جس میں سلمہ بن کھیل نے بیان کیا:
میں نے حسین ابن علی رضی اللہ عنہما کے سر کو نیزے پر دیکھا ہے وہ یہ آیت پڑھ رہا تھا ( فَسَیَکْفِیکَہُمُ اللَّہُ وَہُوَ السَّمِیعُ الْعَلِیمُ)۔ ( ابن عساکر، تاریخ مدین ودمشق، 22: 117)
سر بریدہ امام حسینؓ سے قرآن مجید کی تلاوت جاری ہونا محال نہیں ہے۔ مولیٰنا محمد نعیم الدّین مُراد آبادی ؒ یہ حِکایات نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
در حقیقت بات یِہی ہے کیونکہ اَصحابِ کَہف پر کافِروں نے ظلم کیا تھا اور حضرتِ امامِ عالی مقامؓ کو ان کے نانا جانؐ کی اُمّت نے مہمان بنا کر بلایا، پھر بیوفائی سے پانی تک بند کر دیا! اٰل و اَصحاب علیہم الرضوان کو حضرتِ امامِؓ کے سامنے شہید کیا۔ پھر خود حضرتِ امامِ عالی مقامؓ کو شہید کیا، اہلبیتِ کِرام علیہم الرضوان کو اَسیر بنایا، سرِ مبارَک کو شہر شہر پھرایا۔ اَصحابِ کہف سالہا سال کی طویل نیند کے بعد بولے یہ ضَرور عجیب ہے مگر سرِ انور کا تنِ مبارک سے جدا ہونے کے بعد کلام فرمانا عجیب تر ہے۔
یاد رہے کہ ملک روم میں دقیانوس نامی ایک بادشاہ تھا جو مُشرک، بُت پرست ہونے کے ساتھ انتہائی ظالم تھا۔ رعایا کو بزور طاقت بت پرستی پر مجبور کرتا جو بت کو سجدہ کرنے سے گریزاں نظر آتا اس کو کہتا یا سجدہ کرو یا قتل ہونے کے لئے تیار ہو جائو پھر ان سے ایسا ہی معاملہ کرتا جتنے حصے پر اس ظالم کی حکومت تھی اس کرہ ارض پر یہی آفت برپا تھی۔ روم کے شہروں میں ایک شہر افسوس تھا جس کو عربی میں طرطوس کہتے ہیں۔ اس شہر میں چند امیر کبیر نوجوان، عالیشان گھروں میں رہنے والے تھے اور توحید پر قائم تھے۔ دقیانوس کو ان کے توحید پرست ہونے اور بتوں سے متنفر ہونے کا علم ہوا تو اپنے سپاہی بھیج کر ان نوجوانوں کو پکڑوا لیا، ان سے باز پرس کی گئی، ان سے پوچھا تم میرے بتوں پر نذرانے کیوں بھینٹ نہیں کرتے۔ سجدے کیوں نہیں کرتے؟ اگر تم عقیدہ توحید سے باز نہ آئے تو تمہارے قتل کا حکم دوں گا۔ دقیانوس کو ایک لڑکے نے جوان میں بڑا تھا جس کا نام سکینا تھا، جواب دیا کہ ہم توحید پرست ہیں اور ہمارا معبود وہ ہے جس کی عظمت اور جلال پورے زمین و آسمان پر ہے اور جو ساری کائنات کا خالق و مالک ہے۔ ہم اس ذات عالی کے سوا کسی کو ہرگز نہیں پوجیں گے۔ آگے تو جو کرنا چاہتا ہے کر لے ہم نے اپنا عقیدہ بیان کر دیا۔ دوسرے ساتھیوں نے بھی اس جوان سے اتفاق کیا اور اپنے عقیدے پر ڈٹے رہے۔ چونکہ یہ لڑکے امیر گھرانوں کے تھے۔ انہوں نے سونے کے قیمتی زیور بھی پہن رکھے تھے۔ دقیانوس ان لڑکوں کے جواب سے غضبناک ہو گیا اور ان کے کپڑے اور زیور اتروا لیا پھر کہا تم نوعمر لڑکے ہو۔ تم کو اب بھی مہلت دیتا ہوں۔ ابھی تم کو چھوڑ کر عقل سے کام لینے کا موقع دیتا ہوں اگر تم باز نہ آئے تو تمہارے لئے قتل کا حکم ہو گا۔ دقیانوس سلطنت کے کسی دوسرے شہر گیا۔ جب دقیانوس اس طرح لڑکوں سے دور ہو گیا تو انہوں نے باہم مشورہ کیا کہ اپنے اپنے گھر سے معقول رقم لی جائے۔ کچھ خیرات کردی جائے اور باقی اپنے اخراجات کے لئے محفوظ کرلی جائے۔ اس کے بعد شہر کے باہر جو پہاڑ ہے، اس کے غار میں چھپیں اور وہاں چھپ کر معبود حقیقی کے حضور سر بسجود ہو جائیں۔ اس طرح عبادت بھی میسر آئے گی اور ظالم سے بھی محفوظ رہیں گے۔ سب لڑکوں نے اس تجویز سے اتفاق کیا اور اپنے والد سے معقول رقم لے کر کچھ خیرات کی اور باقی رقم کے ساتھ مجوزہ غار کی طرف روانہ ہوگئے، راستے میں ایک چرواہا اور اس کا کتا بھی پیچھے پیچھے چل پڑے۔
لڑکوں نے اس کتے کو بھگانے کی بڑی کوشش کی مگر ایسا نہ ہوا بلکہ اس کتے کو قوت گویائی عطا ہوئی اور اس نے اس طرح بیان کیا کہ مجھ سے ہرگز نہ ڈرو۔ یہاں میں تمہاری حفاظت کروں گا۔
جب یہ نوجوان پہاڑ کے قریب ہوئے تو چرواہے نے کہا مَیں یہاں کے ایک غار کو جانتا ہوں۔ اسی میں پناہ لینا مناسب رہے گا۔ نوجوانوں نے اس سے اتفاق کیا اور غار میں داخل ہو کر حمد و ثنا میں مشغول ہو گئے۔ ان میں سے ایک کا نام تملیخا تھا۔ اس کے پاس سب نے اپنی رقوم جمع کروا دیں۔ وہ رات کو چھپ کر باہر جاتا اور کھانے پینے کی چیزیں خرید لاتا۔ اس طرح باہر کی خیر خبر بھی ملتی رہی اور شب و روز بھی گزرتے رہے۔ جب دقیانوس اس شہر طرطوس میں واپس آیا تو اس نے ان سات لڑکوں کے بارے میں معلومات حاصل کیں۔ لڑکوں کے نہ ملنے پر اس نے تفتیش کا حکم دیا۔ اس ساری کارروائی کا تملیخا کو علم ہوگیا اور یہ بھی پتہ چلا کہ ان لڑکوں کے اہل خانہ پر ظلم کیا جا رہا ہے اور لڑکوں کے بارے میں پِوچھ گچھ کی جا رہی ہے۔ اس تکلیف دہ صورت حال کی وجہ سے تملیخا چھپتا چھپاتا روتا ہوا ساتھیوں کے پاس واپس پہنچا اور اپنے خلاف ہونے والی ساری کارروائی کا ذکر کیا۔ لڑکے یہ سن کر گھبرا گئے اور بارگاہ رب العزت میں سجدہ ریز ہو کر عافیت طلب کرنے لگے۔ وہ آنسوئوں کے ساتھ ایک دوسرے سے مخاطب ہوئے۔ رحمت خداوندی نے ان کو اپنی رحمت کے پردے میں ایسے ڈھانپا کہ ان پر نیند مسلط کر دی۔ وہ نوجوان نیند کی آغوش میں چلے گئے اور کتا غار کے منہ پر اپنے پائوں پسار کر پڑ گیا۔ ان اصحاب کہف کا واقعہ قرآن مجید میں ہے جس کا حوالہ دیتے ہوئے امام حسین علیہ السلام کے سر مبارک نے اللّٰہ تعالیٰ کے حکم سے کرامت کے تحت فرمایا کہ ان کی فضیلت و زینت اصحاب کہف سے بڑھ کر ہے۔