ColumnRoshan Lal

عورتوں کی جہالت؟

تحریر : روشن لعل
وطن عزیز میں، 95فیصد تک خواتین کو اس وقت جاہل قرار دینے جیسے فتوے جاری کیے جارہے ہیں جب وہ زندگی کے تقریباً ہر شعبے میں اپنا لوہا منوا چکی ہیں۔ یہ بات طے ہے کہ تاریخ کے جس کوڑے دان میں پرنٹنگ پریس اور لائوڈ سپیکر کو حرام قرار دیئے جانے والے فتوے پڑے ہوئے ہیں ، تقریباً تمام عورتوں کوجاہل کہنے والی باتوں کا مقدر بھی تاریخ کا وہی کوڑے دان ہے۔ جن فتووں کا ذکر کیا گیا ہے ایسے فتوے عموماً کسی دلیل کی بنیاد پر نہیں بلکہ تاویل کے طور پر پیش کیے جاتے ہیں۔ گو کہ ایسے فتووں کی عمر طویل نہیں ہوتی لیکن جس سماج میں انہیں جاری کیا گیا ہوتا ہے وہاں اپنی مختصر زندگی میں بھی یہ اس قدر منفی اثرات مرتب کرتے ہیں جو صدیوں تک زائل نہیں ہو پاتے ۔اب عورتوں کو جاہل قرار دیئے جانے والے فتوے کو ہی دیکھ لیں ، یہ فتویٰ اس وقت جاری کیا جارہا ہے جب سائنسی تحقیق سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ مختلف انسانوں کا آئی کیو لیول مختلف ہو سکتا ہے لیکن ایسا ہر گزنہیں ہے کہ مجموعی طور پر عورتوں کا آئی کیو مردوں سے کم ہو۔ جاہل کا متضاد لفظ عالم ہے ۔ عالم ہونے کے لیے عقلمند اور دانا ہونا ضروری ہے ۔ اگر کسی کو جاہل کہہ دیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس میں عقل اور دانائی سرے سے ناپید ہے ۔اگر کوئی یہ کہے کہ 95فیصد عورتیں جاہل ہیں تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ عورتوں کی اتنی بڑی تعداد کا دانائی اور عقل سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔
کچھ عرصہ قبل، یونیورسٹی آف کیلیفورنیا سان ڈیاگو کے محققین نے یہ جاننے کے لیے تحقیق کی کہ کیا عورتیں اور مرد حکمت اور دانائی کے معاملے میں ایک دوسرے سے مختلف ہیں یا ان کی ذہنی صحت کا معیار ایک جیسا ہے۔ اس کام کے لیے انہوں نے تحقیق کے جدید تقاضوں کے عین مطابق حکمت و دانائی جانچنے کے دو مختلف پیمانوں کی مدد سے اپنا کام آگے بڑھایا۔ ان میں سے ایک پیمانہ سان ڈیاگو وزڈم اسکیل (SD-WISE)اور دوسرا 3۔D-WSتھا۔ اپنی تحقیق کے دوران محققین نے صرف یہ جانچ نہیں کی کہ عورتوں اور مردوں میں عقل و دانائی کس حد تک ہے بلکہ یہ بھی اخذ کیا کہ ڈپریشن ، تنہائی، فلاح و بہود، لچک اور امید کے معاملے میں وہ ایک دوسرے سے کس قدر مختلف ہیں۔ یونیورسٹی آف کیلیفورنیا سان ڈیاگو میں ہونے والی یہ تحقیق ،اوپن ایکسس اکیڈمک جریدے فرنٹیئرز ان سائیکالوجی کے آن لائن ایڈیشن میں شائع چکی ہے۔
اس تحقیق کے دوران ایسے 659رضا کاروں کے رویوں کی جانچ کی گئی جن کی عمریں27سی 103سال کے درمیان تھیں۔ محققین نے پہلے پیمانے SD۔WISEکے تحت کی گئی جانچ کے دوران کسی کی دانائی جانچنے کی لیے پہلے سے طے شدہ بنیادی اجزا: سماجی رویے، ہمدردی کا رجحان، ، جذباتیت، ذات کی انعکاس، غیر یقینی صورتحال میں رویہ ، نقطہ نظر کا تنوع، فیصلہ کن ہونے کی صلاحیت اور سماجی مشاورت کو مزید 24حصوں میں تقسیم کرنے کے بعد ان کے مطابق لوگوں کے رویوں کا مطالعہ کیا۔ ماہرین نے علمیت، اثر پذیری اور منعکس ہونے کو دانائی کی تین جہتیں قرار دیا ہے۔ یونیورسٹی آف کیلیفورنیا میں مختلف انسانی صنفوں میں دوسرے پیمانے 3۔D-WSکے تحت جو جانچ کی گئی اس میں دانائی کی مذکورہ تین جہتوں کو مزید 39آئٹمز میں تقسیم کیا گیا۔
دانائی جانچنے کے دو مختلف پیمانوں کے ذریعے جو تحقیق ہوئی اس کے نتیجے میں یہ بات سامنے آئی کہ ہمدردی اور ذات کے عکس سے متعلق جتنے بھی نکات تھے ان میں عورتوں کا سکور مردوں سے زیادہ رہا جبکہ مردوں نے علمی تعلق داری اور جذباتی ضابطوں سے متعلق نکات میں زیادہ اسکوربنایا ۔اس تحقیق کے نتائج میں واضح طور پر یہ کہا گیاکہ 3۔D۔WS پیمانے کے تحت جو جانچ کی گئی اس میں عورتوں کا سکور مردوں کے مقابلے میں زیادہ تھا، جبکہ SD۔WISEکے تحت کی گئی جانچ میں دونوں صنفوں کے سکور میں کوئی فرق نہیں تھا۔ محققین نے مختلف انسانی صنفوں میں دانائی کا فرق جانچنے کے لیے جو تحتقیق کی اس کے نتائج سے یہ بات صاف ظاہر ہوتی ہے کہ چاہے معمولی ہی سہی لیکن مجموعی طور عورتوں کا سکور مردوں سے بہتر رہا۔
کیلیفورنیا یونیورسٹی میں عورتوں اور مردوں میں دانائی کی تفریق جانچنے کے لیے جو تحقیقی ہوئی اس کے نتائج کو حتمی نہیں سمجھا جاسکتا ۔ ایسا ممکن ہے کہ کسی دوسری یونیورسٹی میں اسی موضوع پر ہونے والی تحقیق میں یہ نتائج سامنے آئیں کہ معمولی فرق کے ساتھ دانائی میں مردوں کا سکور زیادہ ہی ۔ دانائی جانچنے کی لیے کی گئی تحقیق میں چاہے کچھ پوائنٹ سے مرد آگے ہوں یا عورتیں ، ایسی کسی بھی تحقیق کے نتیجے کی بنیاد پر عورتوں اور مردوں میں سے کسی کو بھی مجموعی طور پر جاہل قرار نہیں دیا جاسکتا۔
جہاں انسانوں میں دانائی جانچنے کے لیے ترقی یافتہ دنیا کی معروف ترین یونیورسٹیوں میں سائنسی بنیادوں پر کام جاری ہے وہاں پاکستان میں لوگ تعصبات پر مبنی اپنی ذاتی سوچ کے تحت بے دھڑک عورتوں کو جاہل قرار دے رہے ہیں ۔ پاکستان میں اگر عورتیں وزیر اعظم و وزیر اعلیٰ بن سکتی ہیں، سٹیٹ بنک کے گورنر کے عہدے پر فائز ہوسکتی ، چیف جسٹس ہائیکورٹ کے عہدے تک پہنچ سکتی ہیں یا پھر یونیورسٹیوں کی وائس چانسلر تعینات کی جاسکتی ہیں تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہماری خواتین میں کیا کچھ بننے اور کیا کچھ کرنے کی استعداد ہے ۔ افسوس اس بات کا ہے کہ جہاں عورتیں اس قدر دانا اور باصلاحیت ہیں وہاں ایک ٹی وی چینل کی سہولت کاری سے مستفید ہو کر ایک خود ساختہ مذہبی سکالر بلاجھجھک 95 فیصد عورتوں کو جاہل کہہ رہا ہے اور اپنی اس فتویٰ نما بات کی کہیں سے سند لیے بغیر اس پر معذرت کرنے کے لیے بھی تیار نہیں ہے۔
عصر حاضر میں تحقیق کا جو معیار طے ہوچکا ہے اس کے تحت انسانی رویوں اور صفات کے متعلق کوئی رائے قائم کرنے کا مروجہ طریقہ وہی ہے جو کیلیفورنیا یونیورسٹی سان ڈیاگو کے محققین نے یہ جاننے کے لیے اختیار کیا کہ عورتیں اور مرد عقل، حکمت اور دانائی کے معاملے میں ایک دوسرے سے مختلف ہیں یا ان کی ذہنی صحت کا معیار ایک جیسا ہے۔ کیلیفورنیا یونیورسٹی کی تحقیق کو معتبر سمجھنے کے بعد اوپن ایکسس اکیڈمک جریدے فرنٹیئرز ان سائیکالوجی نے اسے اپنے آن لائن ایڈیشن میں شائع کیا ۔ جو بندہ کسی سائنسی تحقیق کی بنیاد پر نہیں بلکہ اپنی ذاتی رائے کی وجہ سے 95 فیصد عورتوں کو جاہل قرار دے رہا ہے ، اسے اگر اپنی بات کے درست اور معتبر ہونے کا زعم ہے تو اس خود ساختہ رائے کو دنیا کے سامنے مکالمے لیے پیش کرنا چاہیے اور پھر دیکھنا چاہیے کہ علمی ماہرین اس رائے کی اوقات کے متعلق کیا کہتے ہیں ۔ جو لوگ ریٹنگ کے چکر میں الجھے ہوئے ٹی وی چینلوں کی سہولت کاری کے ذریعے اپنے طور پر عالم بن بیٹھے ہیں وہ اپنی رائے کو علمیت کی طے شدہ کسوٹی پر پرکھنے کے لیے کبھی تیار نہیں ہوتے۔

جواب دیں

Back to top button