سکون! بعد از مرگ

تحریر : عبد الحنان راجہ
ساون لاہور ہی کیا ہر شہر میں رنگ بدلتا ہے کہ اس میں موسم کا اعتبار نہیں رہتا، شاید ہمارے سیاسی رہنمائوں کی طرح. رنگ بدلنا موسم نے سیاست دانوں سے سیکھا یا سیاست دانوں نے موسم سے، یہ عقدہ بہرحال حل طلب اور قارئین ہی اسے اپنے طور پر حل کر سکتے ہیں!!!۔ یہ درست ہے کہ سیاسی رہنما بیان بدلنے، پینترا بدلنے اور رنگ بدلنے میں ذرا ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے کہ اس ضمن میں انہوں نے میکاولی کی نصیحت کو پلے باندھ رکھا ہے کہ’’ اگر صحیح معنوں میں حکمران بننا ہے تو اخلاقیات کے چکر میں نہ پڑنا ‘‘، سو برصغیر کی سیاست میں اطالوی مفکر کا قول خوب نبھایا اور آزمایا جاتا ہے۔ مہنگائی اور عوامی مشکلات سے بے نیاز یہ اپنی مگن میں۔ سفید پوش کا بھرم ختم ہو کر رہ گیا۔ یہ تو بھلا ہو شوکت خانم ہسپتال والوں کا کہ وہ ریلیف دے دیتے ہیں وگرنہ ہر ماہ لاہور آنا جانا ناممکن۔ ٹیکسز یقیناً کاروبار حکومت چلانے کے لیے اہم مگر ٹیکسز یہاں ساون کی بارش کی طرح گرج چمک کے ساتھ برستے ہیں بنیادی اشیائے ضروریہ پر بھی اور بجلی کے بلوں پر بھی۔ حکومت کی اتنی معاشی سفاکی ! ڈر ہے کہ اگر بھوک و افلاس کی مارے عوام سفاکی پر اتر آئے تو کیا بنے گا۔ اب تو 70فیصد سے زائد آبادی کو ’ جان کے لالے‘ تو ہوئے پرانے بل ادائیگی کے لالے پڑے ہوتے ہیں۔ ایسا ملک کہ جہاں کی 60فیصد سے زائد آبادی کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں، معیار زندگی گزشتہ دس سالوں میں 10فیصد تک مزید گر چکا۔ دو وقت کی روٹی خواب بنتی جارہی ہے، ترقی، انصاف اور روزگار کے تمام دروازے بند، آئے روز روپے کی قدر ایسے گرتی ہے جیسے دنیا میں ہمارے حکمرانوں و سیاست دانوں کی ساکھ۔ خود کشی، راہزنی اور ڈکیتیوں کی شرح میں ہوشربا اضافہ، ہو بھی کیوں نہ کہ اپر مڈل اور مڈل کلاس تک کی ماہانہ آمدن کا 50 فی صد سے زائد یوٹیلیٹی بلز کی نذر ہو جاتا ہے، مگر اسی دیس کے کچھ باسی ایسے بھی ہیں کہ جو ان سب سے بے نیاز کہ مہنگائی اور لوڈشیڈنگ ان کا کچھ بگاڑ سکی اور نہ بگاڑ سکتی ہے !۔ ماہانہ تنخواہ اور مراعات کے ساتھ یہ ہم بد نصیبوں کو ایک ملین بلکہ اس سے بھی زیادہ میں پڑتے ہیں۔ چند روز قبل وفاقی وزیر قانون نے نظام انصاف والوں کی ماہانہ آمدنی کا انکشاف کر کے مظلوم قوم کے زخموں پر نمک چھڑکا، مگر حیرت کہ پھر بھی 130واں نمبر، ہزاروں مقدمات زیر التوا۔ اب تو ایک جسٹس صاحب کی جعلی ڈگری کا کٹا بھی کھل گیا ہے مگر یہاں سب ممکن ہے۔ تیسری دنیا کے کرپٹ ممالک میں اشرافیہ کو پالنا عوام کے ذمہ ہی ہوتا ہے۔ خسارہ بجلی چوری کا ہو یا آئی پی پیز کے مہنگے معاہدات کا، سول و عسکری بیوروکریٹس کے ماہانہ مفت یونٹ ہوں یا ان کی گاڑیوں کے اخراجات، ادائیگی بذمہ عوام، معزز اراکین اسمبلی کو علاج معالجہ کی اعلیٰ سہولیات کی فراہمی، فضائی ٹکٹس، اور دیگر مراعات۔ پھر وفاق اور صوبوں میں وزرا اور مشرا کی فوج ظفر موج، ان سے اوپر وزرائے اعلیٰ، گورنرز اور پھر وزیر اعظم و صدر، خدمت گاروں کا جمعہ بازار عوام کے لیے سجا ہے۔ پھر مختلف اداروں کے سربراہان کے ماہانہ لاکھوں، ان کے پروٹوکول پر اٹھنے والے اخراجات۔ ٹیکسوں پر پلنے اور عیاشیاں کرنے والوں کی فہرست ابھی ختم نہیں ہوئی، ٹیکس ابھی اور بھی درکار ہے کہ اعلیٰ عہدوں سے ریٹائرڈ ملازمین بھی تو ابھی باقی ہیں اور زندہ بھی۔ ایک ایک بیوروکریٹ اور جج بعد از ریٹائرمنٹ ماہانہ لاکھوں میں۔ ابھی اور بھی ہیں اور ہڈیوں میں گودا بھی ابھی باقی، کہ سربراہان مملکت بھی تاحیات ہمارے ذمہ۔ ماہانہ لاکھوں روپے پنشن، سٹاف اور دیگر مراعات اس کے علاوہ۔ تادم مرگ ان کے احسانات کا بدلہ ہم چکا نہیں سکتے سو یہ ہماری حقیر کوشش ان کے مقبول ہو جائے تو بڑی بات، کہ ہم انہیں سابق امریکی صدر بل کلنٹن، جرمنی چانسلر اینجیلا مرکل، برطانوی بورس جانسن و دیگر کی طرح اقتدار سے جانے کے بعد حصول رزق کے لیے در بدر تو ہونے دے نہیں سکتے کہ امریکہ و مغربی ممالک کے عوام تو ہوئے احسان فراموش اور نادان، مگر ہم کیوں ان کی طرح ہو کر اپنی ان ہیروں کو ضائع کریں بلکہ ہم پر تو ان کے اہل و عیال کی چاکری بھی لازم۔ کہ وہی سرکار ہیں تو پھر سرکاری وسائل بھی انہی کے لیے اور ان کے بچوں کے لیے۔ یہ سب ایسے ہی چلتا رہا اور چلتا رہے گا ہر دور میں کچھ پلتے رہے اور پلتے رہیں گے ہم پرامن، پرسکون معاشرے، بنیادی اشیائے ضروریہ، تعلیم، صحت اور انصاف کے لیے ترستے ہیں اور ترستے رہیں گے ۔ کسی نے کہا تھا کہ سکون بعد از مرگ۔ شاید اسی امید پر خدمت گزاری جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس نظام کے پروردہ غلامی کا طوق اپنے گلے سے اتار نہیں سکتے۔ یہ نظام کے لیے نہیں بلکہ پسند کے ظالموں کے لیے لڑتے ہیں، سو ابلیس کے عطا کردہ جمہوری نظام کو تہہ و بالا کرنا ان کی سرشت میں نہیں کیونکہ
کون کر سکتا ہے اس کی آتش سوزاں کو سرد
جس کے ہنگاموں میں ہو ابلیس کا سوز دروں
جس کی شاخیں ہوں ہماری آبیاری سے بلند
کون کر سکتا ہے اس نخل کہن کو سرنگوں
ہم نے خود شاہی کو پہنایا ہے جمہوری لباس
جب ذرا آدم ہوا ہے خود شناس و خود نگر
مجلس ملت ہو یا پرویز کا دربار ہو
ہے وہ سلطاں غیر کی کھیتی پہ ہو جس کی نظر
تو نے کیا دیکھا نہیں مغرب کا جمہوری نظام
چہرہ روشن اندروں چنگیز سے تاریک تر