Ali HassanColumn

سرکاری خزانہ یا لٹ دا مال

علی حسن
صوبہ خیبر پختونخوا کے گورنر فیصل کنڈی نے ذاتی گھر کو سرکاری گھر قرار دے کر خطیر رقم سرکاری خزانہ سے بجلی کے بل کی صورت میں جمع کرا دی۔ یہ بل ان کے ذاتی استعمال کے نتیجے میں آیا لیکن موقع ملتے ہی انہوں نے سرکاری خزانہ پر ہاتھ صاف کر دیا۔ اس سے قبل وزیر اعظم شہباز شریف نے بھی اپنے پانچ گھروں کو سٹیٹ آفس ڈیکلئیر کر کے اس کے تزئین و آرائش سرکاری خزانے سے کرائی تھی۔ نواز شریف نے جاتی عمرہ کو سرکاری رہائش گاہ ڈکلئیر کر کے جاتی عمرہ کو سرکاری خرچے پر بنوایا تھا۔ یہ معاملات نئے نہیں ہیں۔ پاکستان میں حکمرانوں نے ایسا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا جس کی وجہ سے ان کی جیب محفوظ رہی اور ان کے ایک لحاظ سے ذاتی اخراجات حکومت کو برداشت کرنے پڑے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں جب ایران کا شہنشاہ پاکستان کے دورے پر آئے ۔ وہ لاڑکانہ بھی آئے تھے۔ لاڑکانہ میں بھٹو کی ذاتی رہائش گاہ المرتضیٰ کی آرائش اور زیبائش کرائی گئی تھی۔ اسی دوران المرتضیٰ کے برابر میں قائم پولس تھانہ کو المرتضیٰ میں شامل کر دیا گیا تھا۔ المرتضیٰ میں وہ حصہ جہاں اب مہمان قیام کرتے ہیں، وہ تھانہ تھا۔ تھانہ کا نام مٹ گیا اور وہ زمین المرتضی کی ہو گئی۔ ان کے ہی دور اقتدار میں کراچی میں ان کی ذاتی رہائش گاہ 70کلفٹن کو سرکاری رہائش گاہ قرار دے کر اس کی آرائش اور زیبائش پر بھاری رقم اور اس کی حفاظت کے لئے خصوصی انتظامات کئے گئے تھے ۔
مرحومہ بے نظیر بھٹو کے دور اقتدار میں کراچی میں بلاول ہائو س اور لاڑکانہ کے نوڈیرو میں واقع بھٹو کی پہلی بیوہ عیرین بیگم کے مکان کو سرکاری رہائش گاہ قرار دے کر اس کی مرمت اور زیبائش کرائی گئے۔ آصف علی زرداری کے پہلے دورے صدارت میں نوڈیرو کے مکان کی چار دیواری تعمیر کرائی گئی۔ جو چار دیواری کنکریٹ کی نو انچ چوڑی دیوار تعمیر کرائی گئی۔ کراچی اور لاہور کے بلاول ہائوس بھی محفوظ مکانات قرار پائے۔ ویسے آرائش اور زیبائش اپنی جگہ لیکن ان گھروں میں استعمال ہونے والی بجلی اور گیس وغیرہ کے اخراجات بھی حکومت برداشت کرتی ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے پانچ مکانات کو اپنے حوالے سے جوڑا ہے اور ان کے بھی تمام اخراجات حکومت برداشت کرے گی۔ اگر وزیر اعظم کبھی کبھار ایک آدھ روز کے قیام کے لئے آتے ہیں تو ان مکانات کر خرچہ حکومت کیوں برداشت کر ے۔ ماضٰ میں بھی ایسا ہی ہوتا آیا ہے۔ اس سلسلے میں تو نواز شریف کے محل جاتی امراء کی تکمیل میں بھی سرکاری ذرائع استعمال ہوئے ہیں۔ کئی سو ایکڑ پر تعمیر شدہ یہ محل بس اپنی ذاتی خواہش پوری کرنے کے لئے کرائی گئی ہے۔ ایک ایسا ملک جس کی معیشت مسلسل زمین بوس ہو رہی ہو، جہاں کروڑوں عوام مہنگائی کی اذیت سے بلبلا رہے ہوں، جہاں وسائل سے محروم لوگوں کو دوسرے وقت کی روٹی کا یقین ہی نہ ہو، وہاں پاکستان کے یہ نو دولتئے سیاست دان ہاتھ صاف کرنے کو کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے ہیں۔ اس ملک پر حکمرانی کا جن جن لوگوں کو موقع ملا ہے انہیں تو اس ملک اور اس کے عوام کا خیال اپنے بچوں کی طرح رکھنا چاہئے۔ لیکن ان سے یہ توقع نہیں رکھی جا سکتی ہے۔ توشہ خانہ سے تحائف نہایت ارزاں قیمت پر خریدنا بھی ان ہی حکمرانوں کو مشغلہ ہے۔ کسی نے بھی کبھی یہ مظاہرہ نہیں کیا کہ عوام کے لئے بھی کچھ کیا جائے۔ وہ اس عمل کو ضروری ہی نہیں سمجھتے ہیں۔ انہیں ریاست کی طرف سے ملنے والی تمام مراعات، سہولتیں، فوائد بزات خود چاہئے۔ منتخب ایوانوں میں رکنیت رکھنے والے ہر تھوڑے عرصے کے بعد اپنی تنخواہوں اور مراعات میں خود ہی اضافہ کر لیتے ہیں۔ انتہاء تو یہ ہے کہ ان ایوانوں میں سرکاری خرچ پر قائم کینٹیوں میں جس قیمت پر اراکین کو اشیاء خور و نوش فراہم کی جاتی ہیں، ان کا مقابلہ کہیں اور سے نہیں کیا جا سکتا ہے۔ ادارہ شماریات کی دستاویز کے مطابق ملک میں گزشتہ 1سال میں صحت کی سہولتیں 19.83 فیصد مہنگی ہو گئیں، مئی کے مقابلے جون میں صحت کی سہولتیں1.41فیصد مہنگی ہوئیں۔ گزشتہ 1سال میں تعلیمی سہولتیں 15.86فیصد مہنگی ہو گئیں، مئی کے مقابلے میں جون میں تعلیمی سہولتیں 0.29فیصد مہنگی ہوئیں۔ گزشتہ 1برس کے دوران ملبوسات 17.80فیصد مہنگے ہوئے، مئی کے مقابلے میں جون میں ملبوسات کی قیمتیں 0.92فیصد بڑھ گئیں۔ مالی سال 24۔2023ء میں ٹرانسپورٹ کے کرائے 10.38فیصد بڑھے ہیں، تاہم مئی کے مقابلے میں جون میں ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں 2.17فیصد کی کمی ہوئی ہے۔ دستاویز کے مطابق مالی سال 24۔2023ء میں ریسٹورنٹ اور ہوٹل 11.88فیصد مہنگے ہوئے ہیں۔ انہیں کسی نگران کی ضرورت نہیں ہے جو انہیں یہ بتائے آپ لوگ غیر ضروری اخراجات کر رہے ہیں۔ اگر بیرونی قرضے دینے والے ادارے یا ممالک کسی مرحلے پر حکومت سے یہ سوال کر لے کہ ان اخراجات کا کیا جواز ہے۔ حال ہی میں صوبہ سندھ میں وزراء کے لئے نئی بھاری قیمتوں والی گاڑیوں کی لاٹ خریدی گئی ہے۔ نواز شریف کے ایک دورے حکومت میں بے روز گاری کو ختم کرنے کے لئے پیلی ٹیکسی ضرورت مندوں کو آسان قسطوں پر دی گئی تھی تو وہ گاڑی لاڑکانہ میں المرتضیٰ کے کباڑ خانے میں پڑی ہوئی دیکھی گئی تھی۔ با اثر افراد نے تو مرسیڈیز جیسی قیمتی گاڑی بھی حاصل کی تھیں۔ حکومت نے مرسیڈیز کس مقصد اور نیت سے منگائی تھی۔ اربوں روپے ان گاڑیوں پر خرچ کر دئے گئے۔ ان کی بجائے سرمایہ داروں کے گروپ بناکر بسیں چلانا چاہئے تھیں۔ اس طرح اکثر شہروں کو درپیش ٹرانسپورٹ کا مسئلہ حل ہو سکتا تھا۔ عجیب بات ہے کہ پاکستان میں جسے بھی 1970ء کے بعد سے حکمرانی کا موقع مل رہا ہے وہ یہ احساس کرنے کے لئے تیار ہی نہیں ہیں کہ اس ملک کی خوشحالی اور سلامتی میں ہی سب کا مستقبل ہے۔

جواب دیں

Back to top button