بیوروکریسی میں تقرریوں کی نئی مثال

امتیاز عاصی
بیوروکریسی کی اہمیت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا امور مملکت چلانے میں بیوروکریسی کا ہمیشہ اہم رول رہا ہے نہ اس کے تعاون بغیر ریاست کے امور احسن طریقہ سے چلائے جا سکتے ہیں۔ ملک میں سول سروس رہ گئی ہے جس میں کم از کم میرٹ کی بنیاد پر تقرریاں ہوتی ہیں۔ ملک کے معرض وجود میں آنے کے بعد بیوروکریسی کی کھیپ میں مسعود کھدر پوش ایسے بیورو کریٹس شامل تھے جنہیں آج بھی شاندار الفاظ میں یاد کیا جاتا ہے۔ ایوبی دور میں قدرت اللہ شہاب جیسے بیوروکریٹ مضبوط اعصاب کے مالک تھے کوئی انہیں سفارش کرنے کا سوچ نہیں سکتا تھا۔ ایوب خان کے دور سے ذوالفقار علی بھٹو کے دور کی بیوروکریسی بڑی مضبوط تھی جب کہ ان کے مقابلے میں سیاست دان بہت کمزور ہوا کرتے تھے جس سے امور مملکت میں سیاسی مداخلت کے شاذ و ناظر امکانات ہوتے تھے۔ جنرل ضیاء الحق کا دور ایک ایسا دور تھا جب بیوروکریسی میں سیاسی مداخلت کا آغاز شروع ہوا جو ابھی تک جاری ہے۔ بیوروکریٹس کی تقرریاں سیاسی بنیادوں پر ہونے کا ایک ایسا دور شروع ہوا جو ختم ہونے کا نام نہیں لیتا۔ ایک اردو معاصر کی خبر کے مطابق پنجاب کی وزیراعلی مریم نواز نے سیاسی تقرریوں سے انکار کر دیا ہے۔ شریف خاندان کا ناقد ہونے کے باوجود میں مریم نواز کی ستائش کئے بغیر نہیں رہ سکا ہوں کوئی تو ہو جو سیاسی اثر و رسوخ سے نکل کر ٹرانسفر پوسٹنگ کو یقینی بنائے۔ دراصل امور مملکت میں خرابی کا آغاز تبھی ہوتا ہے جب سیاست دانوں کے من پسند بیوروکریٹس کو ان کی مرضی کی پوسٹنگ پر بھیجا جائے۔ پاکستان کی تاریخ میں عمران خان کا دور ایک ایسا دور تھا جب صوبے میں آئی جی، کمشنر اور ڈپٹی کمشنر ہر روز تبدیل کئے جاتے تھے۔ گو پنجاب میں عثمان بزدار وزیراعلیٰ تھے لیکن تمام تقرریاں عمران خان کی منظور ی سے ہوتی تھیں۔ مسلم لیگ نون کے قائد نواز شریف اور وزیراعظم شہباز شریف صوبے میں وزیراعلیٰ رہ چکے ہیں ہم نہیں کہہ سکتے انہوں نے سیاسی بنیادوں پر بیوروکریسی میں تقرریاں نہیں کیں ہوں گی بلکہ یہ مسلمہ حقیقت ہے انہی کے دور میں سیاست دانوں کی سفارش پر بیوروکریسی میں تقرریوں کا آغاز ہوا۔نواز شریف کی وزارت عظمیٰ کے دور میں سیاسی بنیادوں پر تقرریوں اور ترقیوں کی بے شمار مثالیں دی جا سکتی ہیں۔ایک موقع پر نواز شریف نے بیوروکریسی میں سیاسی بنیادوں پر ترقیوں کی حد کر دی تو اسلام آباد ہائی کورٹ کو مداخلت کرنا پڑی۔ ایسے افسران جن کا کوئی سیاسی بیک گرائونڈ نہیں تھا وہ بہترین سروس ریکارڈ کے حامل ہونے کے باوجود ترقی سے محروم کر دیئے گے جنہیں بعد ازاں عدالتی احکامات پر ترقی دی گئی۔ نواز دور کا ایک اور واقعہ ہے گریڈ بائیس میں ترقی کے لئے ہائی پاور بورڈ کا اجلاس بلایاگیا جس کی صدارت وزیراعظم نواز شریف کر رہے تھے۔ میرے مہربان دوست ڈاکٹر ظفر اقبال قادر کا نام آیا تو نواز شریف پوچھنے لگے اے کدا بندہ اے۔ جب کسی طرف سے کوئی جواب نہیں آیا تو ظفر قادر گریڈ بائیس سے محروم کر دیئے گئے۔ ڈاکٹر ظفر قادر بہترین سروس کے حامل تھے۔ قارئین کو پڑھ کر حیرانی ہوگی ویسے تو پاکستان آرمی سے سول سروس میں شامل ہونے والوں کو سی ایس ایس کا امتحان پاس نہیں کرنا پڑتا ظفر قادر پاکستان آرمی کی ملازمت سے استعفیٰ دے کر سول سروس کا امتحان پاس کرنے کے بعد ڈی ایم جی گروپ میں شامل ہوئے تھے۔ بیس برس سے زیادہ بلوچستان میں اہم عہدوں پر فائز رہے۔ فواد حسن فواد ان کے ماتحت بلوچستان میں کام کر چکے تھے جنہیں انہوں نے اچھی رپورٹس دیں بدقسمتی سے ہائی پاور بورڈ کے اجلاس میں فواد حسن کو اتنی توفیق نہیں ہوئی وہ کہہ دیتے ظفر قادر ایک اچھے اور قابل افسر ہیں۔ بلوچستان کے سیاست دان اور عوام ظفر اقبال قادر کی دل و جان سے عزت کرتے ہیں۔ بلوچستان میں ملازمت کے دوران انہوں نے تعلیمی فائونڈیشن کی بنیاد رکھی اور بلوچستان کی غریب طالبات کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کے لئے 1989 میں جب وہ ڈپٹی کمشنر کولہو تھے انہوں نے طالبات کا پہلا اسکول کھولا۔ آج بلوچستان میں تعلیمی فائونڈیشن کے قریبا آٹھ سکول اور سندھ میں دو طالبات کے سکول کام کر رہے ہیں۔ سول سروس میں بلوچستان سے شمولیت کرنے والی طالبات کی اکثریت کا تعلق تعلیمی فائونڈیشن کے سکولوں سے ہوتا ہے۔ ڈاکٹر ظفر اقبال قادر اور سابق وفاقی سیکرٹری ابو احمد عاکف کے ساتھ رحمان بابا کانفرنس میں ژوب جانے کا اتفاق ہوا تو تعلیمی فائونڈیشن کا اسکول دیکھ کر میری حیرت کی انتہا نہ رہی۔ بالکل ویسے ہی جیسے اسلام آباد میں وفاق کے تعلیمی ادارے ہیں۔ کئی عشروں تک ایمانداری سے فرائض سرانجام دینے والے کسی افسر کو اگلے گریڈ میں ترقی سے اس وجہ سے محروم کر دیا جائے وہ کس کا بند ہ ہے۔ حق تعالیٰ کی لاٹھی بے آواز ہے نواز شریف وزارت عظمیٰ کے شوق میں وطن لوٹے تھے انہیں وزارت عظمیٰ نصیب نہیں ہو سکی۔ قانون قدرت ہے اللہ سبحانہ تعالیٰ انسانوں کو ان کے کئے کی سزا ضرور دیتا ہے۔ نہ جانے نواز شریف نے کتنے راست باز افسران کی حق تلفی کی ہوگی۔ ہمیں اس بات کی خوشی ہے نواز شریف کی بیٹی نے اپنے والد اور چچا کی تقلید نہیں کی بلکہ پوسٹنگ ٹرانسفر کے معاملے میں سیاسی مداخلت قبول کرنے سے انکار کر کے ایک اچھی مثال قائم کی ہے۔ وزیراعلیٰ مریم نواز اگر اسی اصول پر کاربند رہیں تو انشااللہ وہ ایک کامیاب وزیراعلیٰ کے طور پر جانے لگیں گی۔ حقیقت میں وہی قومیں ترقی کی عروج پر پہنچتی ہیں جو اپنے اصولوں پر کاربند رہتی ہیں۔ پاکستان کی سول سروس میں گزشتہ چار عشروں سے جو کھلواڑ ہو رہا ہے اسے روکنے کی بہت ضرورت ہے۔ وزیراعلیٰ کو صوبے میں وفاق سے آئے ہوئے اور صوبائی سروس کے وہ افسران جو عرصہ دراز سے پوسٹنگ کے منتظر ہیں انہیں انٹرویو کرکے اور ان کا سروس ریکارڈ دیکھ کر فوری طور پر پوسٹنگ دینی چاہیے۔ وفاق سے صوبے میں برسوں سے براجمان اعلیٰ افسران کو وفاقی حکومت کو واپس کرنی میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے بلکہ نوجوان سول سرونٹس کو آگے آنے کا موقع فراہم کرنا چاہیے تاکہ وہ مستقبل قریب میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر سکیں بعض اضلاع میں صوبائی اور قومی اسمبلی کے ارکان کے بیٹے ڈپٹی کمشنر لگے ہوئے ہیں اگر وہ میرٹ پر ہیں تو انہیں اپنے عہدوں پر برقرار رہنا چاہیے ورنہ جس کا حق بنتا ہے اسی کو عہدہ ملنا چاہیے۔