فروغِ تعلیم کیلئے خصوصی ٹاسک فورس تشکیل

گزشتہ مہینے وزیراعظم شہباز شریف نے ملک بھر میں تعلیمی ایمرجنسی نافذ کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ تعلیم کے بغیر کوئی قوم ترقی نہیں کرسکتی، ہم لازمی 2کروڑ 60لاکھ بچوں کو اسکول میں داخل کرائیں گے، میں پاکستان میں تعلیمی ایمرجنسی کا اعلان کرتا ہوں۔ اس فیصلے کو ہر سطح پر سراہا گیا تھا اور اس کی ضرورت بھی خاصے عرصے سے کافی شدّت سے محسوس کی جارہی تھی۔ دیکھا جائے تو وہی قومیں ترقی کی بلندیوں پر پہنچتی ہیں، جو تعلیم کو اہمیت دیتی اور اس میدان میں ذرا بھی کوتاہی کا مظاہرہ نہیں کرتیں۔ دُنیا کی معلوم تاریخ اُٹھا کر دیکھ لیں۔ علم کی ہی بدولت اقوام نے ترقی پائی اور دُنیا بھر میں قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھی گئیں۔ علم کے سمندر میں غوطہ زن رہنے والی قوموں کی تحقیق و جستجو کی بدولت عالم انسانیت کی ناصرف فلاح و بہبود ہوئی بلکہ ان کو بے پناہ فوائد پہنچے اور آج تک یہ اس سے مستفید ہورہی ہے۔ علم کو اہمیت دینے والے ناصرف ترقی یافتہ اور خوش حال ہیں بلکہ اُن کے عوام کی زندگیاں بھی بہتر اور سہل دِکھائی دیتی ہیں اور وہ آئے روز علم کی بدولت اپنے حیرت انگیز کارناموں سے دُنیا کو انگشت بدنداں ہونے پر مجبور کرتے رہتے ہیں۔ اس کے برعکس جن قوموں نے تعلیم کو اہمیت نہ دی، اس کی قدر نہ کی، وہ روز بروز پستیوں کا شکار رہیں اور آج بھی اُن کی حالتِ زار کچھ زیادہ اچھی نہیں ہے۔ وہ ہر طرح سے محرومی اور پس ماندگی کی زیست گزارنے پر مجبور ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان بھی اُن ملکوں میں شامل ہے، جہاں ماضی میں تعلیم کو کسی طور درخوراعتناء نہ سمجھا گیا اور اس کے حوالے سے مسلسل غیر ذمے داریاں دِکھائی گئیں۔ تعلیم کی بہتری اور فروغ کے لیے سنجیدہ کوششوں کا فقدان رہا۔ انہی کوتاہیوں اور لاپروائیوں کا شاخسانہ ہے کہ آج ملک و قوم بے پناہ مسائل اور مشکلات میں گِھرے نظر آتے ہیں۔ تمام شعبوں میں زوال کی صورت حال ہے۔ معیشت کی موجودہ حالت کسی سے پوشیدہ نہیں اور وہ انتہائی کٹھن آزمائش سے دوچار ہے۔ عوام کی زندگیاں ہولناک مشکلات کی لپیٹ میں ہیں۔ پاکستانی روپیہ پستیوں کا شکار ہے۔ مہنگائی کے نشتر قوم پر بُری طرح برس رہے ہیں۔ رواں سال فروری میں عام انتخابات کے نتیجے میں موجودہ اتحادی حکومت کا قیام عمل میں آیا۔ وزارتِ عظمیٰ کی ذمے داری شہباز شریف کو سونپی گئی۔ اُنہوں نے اقتدار سنبھالنے کے بعد معیشت کی گاڑی کو پٹری پر واپس لانے کے لیے سنجیدہ اقدامات کا آغاز کیا اور کسی حد تک اُن کی کوششیں بارآور ثابت بھی ہوئیں۔ پاکستانی روپیے نے استحکام اور مضبوطی اختیار کرنی شروع کی۔ مہنگائی کا زور ٹوٹتا محسوس ہوا۔ اس کے ساتھ ہی شہباز حکومت نے مختلف شعبوں میں اصلاحات کی بھی داغ بیل ڈالی۔ آئی ٹی کے شعبے میں پاکستان کو مہارتوں کی بلندیوں پر پہنچانے کے لیے اقدامات کا آغاز کیا گیا۔ وزیراعظم تعلیم کے شعبے میں ہنگامی اصلاحات کے متمنی دِکھائی دیے اور اس حوالے سے انہوں نے تعلیمی ایمرجنسی کا اعلان کرکے بڑا قدم بھی اُٹھایا تھا۔ وزیراعظم شہباز شریف تعلیم کے میدان میں کامیابی کے جھنڈے گاڑنے کے مشن پر گامزن ہیں اور اس حوالے سے آئے روز اُن کی جانب سے پیش رفتیں جاری ہیں۔ اس ضمن میں گزشتہ روز اُنہوں نے خصوصی ٹاسک فورس تشکیل دی ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق تعلیمی شعبے کے فروغ اور تعلیمی ایمرجنسی کے لیے وزیراعظم شہباز شریف نی خصوصی ٹاسک فورس تشکیل دے دی۔ ٹاسک فورس کے سربراہ وزیراعظم خود ہوں گے، وفاقی وزرائے تعلیم و انفارمیشن ٹیکنالوجی ٹاسک فورس میں شامل ہوں گے۔ وفاقی سیکریٹری تعلیم ٹاسک فورس کے کنوینر ہوں گے، صوبائی وزرائے تعلیم اور سیکریٹریز تعلیم بھی ٹاسک فورس کا حصّہ ہوں گی۔ عالمی بینک کے کنٹری ہیڈ ٹاسک فورس کے کنوینر ہوں گے، یونیسیف، یونیسکو، ڈبلیو ایف پی، جائیکا، اے ڈی بی کے کنٹری ہیڈ ٹاسک فورس میں شامل ہوں گے، نجی تعلیمی اداروں اور یونیورسٹیوں کے نمائندے بھی ٹاسک فورس کا حصّہ ہوں گے۔ تعلیمی شعبے کے فروغ اور تعلیمی ایمرجنسی کے لیے وزیراعظم شہباز شریف کی کوششیں ہر لحاظ سے قابل تحسین ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ 2کروڑ 60لاکھ بچے اسکولوں سے باہر ہیں، کیا ہی اچھا ہو کہ یہ تمام بچے زیور تعلیم سے آراستہ ہوں۔ ان بچوں کو ہر صورت اسکولوں میں داخل کروایا جائے۔ اس کے لیے وفاق اور تمام صوبائی حکومتوں کو اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ ملک سے چائلڈ لیبر کا مکمل خاتمہ کیا جائے اور تمام ایسے بچوں کو اسکول بھیجنے پر والدین کو راضی کیا جائے۔ اس حوالے سے آگہی کا دائرہ وسیع کرنے کی ضرورت ہے۔ میڈیا پر علم کی شمع کو روشن رکھنے میں اپنا کردار ادا کرے۔ پاکستان میں شرح خواندگی 100فیصد پر لانے کے ضمن میں یہ کوششیں خاصی سودمند ثابت ہوں گی۔ ناگزیر ہے کہ تعلیمی شعبے میں پائی جانے والی تمام تر خرابیوں کو تلاش کیا جائے اور انہیں ٹھیک کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ اگر تعلیم کے شعبے میں پائی جانے والی خرابیوں کو دُور کرلیا گیا اور اس میدان میں تحقیق و جستجو کے دریچے وا کیے گئے، علم و عرفان کے سمندر کی گہرائیوں تک پہنچا گیا تو ملک عزیز ان شاء اللہ جلد ہی ترقی یافتہ ملکوں میں جگہ بنانے میں کامیاب ہوجائے گا۔ بس اس حوالے سے نیک نیتی پر مبنی اقدامات وقت کا تقاضا اور ضرورت ہیں۔ ایمان داری، شفافیت، ملک و قوم کی بھلائی کے لیے کیے گئے فیصلے یقیناً مثبت نتائج کے حامل ثابت ہوں گے۔
ایل پی جی کی مہنگے داموں فروخت
ملک میں سرکاری مقرر کردہ قیمتوں پر اشیاء کی فروخت کم کم ہی دیکھنے میں آتی ہے۔ وطن عزیز پچھلے کئی سال سے بدترین بحران کا سامنا کررہا ہے۔ پچھلے برسوں میں موسم سرما میں ملک میں گیس کی شدید قلت دیکھنے میں آتی تھی، اب تو سرما ہو یا گرما، گیس ملک کے طول و عرض کے مختلف علاقوں میں عنقا ہوتی ہے۔ ایسے میں ایل پی جی کو بطور متبادل استعمال کیا جاتا ہے۔ بہت سی مسافر گاڑیوں میں بھی غیر قانونی طور پر ایل پی جی استعمال ہوتی ہے۔ یہ گاڑیاں چلتے پھرتے بم کی سی شکل اختیار کرجاتے ہیں اور اس حوالے سے ہر کچھ عرصے بعد افسوس ناک حادثات کی اطلاعات سامنے آتی ہیں۔ ریڑھی پر تلی، اُبلی اشیاء فروخت کرنے والے بھی اس کو استعمال کرتے ہیں۔ ہر بار ہی ایل پی جی کی قیمتیں سرکاری سطح پر مقرر کی جاتی ہیں، لیکن ان کی ان نرخوں پر فروخت ڈھونڈے سے بھی دِکھائی نہیں دیتی۔ ملک بھر میں یہ مہنگے داموں دستیاب ہوتی ہے، جس پر صارفین سراپا احتجاج رہتے ہیں، لیکن ان کی کوئی شنوائی نہیں ہوتی۔ اب بھی حالات مختلف نہیں ہیں اور ملک میں ایل پی جی مقررہ نرخوں سے زائد پر فروخت ہونے کی اطلاعات ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق ایل پی جی مارکیٹنگ کمپنیاں اور پلانٹ مافیا بے لگام ہوگئے، ایل پی جی قیمت میں 50 روپے فی کلو بلاجواز اضافہ کردیا۔ چیئرمین ایل پی جی ڈسٹری بیوٹرز ایسوسی ایشن عرفان کھوکھر کے مطابق ایل پی جی مارکیٹنگ کمپنیوں اور پلانٹ مافیا نے سرکاری قیمت کے بجائے اپنی من مانی قیمت پر ایل پی جی فروخت کرنا شروع کردی ہے اور قیمت میں بلاجواز 50روپے فی کلوگرام کا اضافہ کردیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایل پی جی مارکیٹنگ کمپنیوں کی بلیک مارکیٹنگ دھڑلے سے جاری ہے اور ملک بھر میں سرکاری قیمت پر کسی بھی جگہ ایل پی جی دستیاب نہیں ہے۔ اوگرا نے 234روپے 60پیسے قیمت مقرر کی تھی جب کہ مارکیٹ میں گیس 280روپے سے 285 روپے فی کلو پر فروخت ہورہی ہے۔ ایل پی جی کی قیمت میں اضافے کے بعد گھریلو سلنڈر 600 روپے اور کمرشل سلنڈر 2250 روپے تک مہنگا ہوگیا ہے۔ گھریلو سلنڈر کی سرکاری قیمت 2770 کی جگہ 3370 وصول کی جارہی ہے۔ 50 روپے فی کلو ایل پی جی مہنگی فروخت کرنا کسی طور مناسب نہیں گردانا جاسکتا۔ یہ عوام کی جیب پر بڑی نقب ہے۔ اس صورت حال کے تدارک کے لیے متعلقہ انتظامیہ کو متحرک ہونا چاہیے اور ملک بھر میں مقرر کردہ حکومتی نرخوں پر اس گیس کی فروخت یقینی بنانی چاہیے۔ گراں فروشوں کے خلاف کارروائیاں عمل میں آنی چاہئیں اور ان پر بھرپور جرمانے عائد کیے جانے چاہئیں، تاکہ آئندہ وہ ایسی مذموم کوشش سے باز رہیں۔