CM RizwanColumn

سانحہ سوات، ایک اور جل گیا

سی ایم رضوان
گزشتہ روز جمعرات کو کے پی کے کے ضلع سوات کے علاقے مدین میں سکائی ویز نامی ایک ہوٹل میں مقیم سلیمان نامی ایک پنجابی شہری پر الزام لگتا ہے کہ اس نے اس ہوٹل کے ایک کمرے میں توہین مذہب یا توہین قرآن جیسا جرم کیا ہے۔ پولیس کو اطلاع دی جاتی ہے جب پولیس اسے تحویل میں لینے کے لئے مذکورہ ہوٹل پہنچتی ہے تو وہاں ایک مشتعل جتھہ پہلے سے موجود ہوتا ہے۔ بہرحال پولیس اسے تھانے لے جانے میں کامیاب ہو جاتی ہے مگر جتھہ تھانے کا گھیرا کر لیتا ہے اور ملزم کو کہیں اور لے جانے کے راستے میں بڑی رکاوٹ بن جاتا ہے۔ اسی اثناء میں تھانے کے قریب ہی رہائش پذیر پی ٹی آئی کا ایک ایم بی اے شرافت معاملات میں دخیل ہوتا ہے اور تھانہ والوں کو کہتا ہے کہ وہ اس ملزم کو کہیں اور منتقل نہ کریں۔ اسی اثناء میں مشتعل لوگ ایک دوسرے کو فون کالز کر کے کہتے ہیں کہ تھانہ کے قریب آ جا ایک لعنتی ہتھے چڑھ گیا ہے۔ یوں ایک جان لیوا جتھہ اکٹھا ہو جاتا ہے اور توہین قرآن کے الزام میں تھانہ میں واقع ایس ایچ او کے کوارٹر میں بند سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے سیاح سلیمان کو زبردستی تھانہ سے نکال کر باہر سڑک پر لے آتا ہے۔ اس پر تشدد کرتا ہے اور پھر اسے پٹرول چھڑک کر آگ لگا کر قتل کر دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد اگرچہ امن قائم ہو جاتا ہے لیکن علاقے میں بدستور خوف موجود رہتا ہے۔ اسی بناء پر پولیس کی بھاری نفری دو روز تک تعینات رہتی ہے۔ ساتھ ہی مدین میں توڑ پھوڑ اور تشدد کے دیگر واقعات شروع ہو جائے ہیں جن میں اب تک 11افراد زخمی ہوئے۔ زخمیوں میں بیشتر کی عمریں 13سے 24سال کے درمیان بتائی گئیں جبکہ چند ایک کی عمریں 34اور 35سال بیان کی گئی ہیں۔ تاہم مقامی سطح پر واردات کے دوسرے روز یعنی جمعے کو کسی ناخوشگوار واقعہ سے بچنے کے لئے پولیس نے حفاظتی انتظامات کر دیئے اور مختلف مقامات پر پولیس نفری تعینات کی گئی۔ اس واقعے سے متعلق متضاد اطلاعات موصول ہو رہی ہیں کہ یہ واقعہ کیسے پیش آیا اور اگر توہین ہوئی تو کیسے کی گئی؟ حملہ اور جتھوں میں کون سے عناصر ملوث تھے۔ یہ سب مکمل تحقیقات اور تفتیش کے بعد ہی معلوم ہو سکتا ہے۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق مذکورہ شخص اس ہوٹل میں 18جون کو آیا تھا اور جمعرات کی شام مقامی تھانے کو اطلاع موصول ہوئی کہ ہوٹل میں مقیم ایک شخص قرآنی اوراق جلانے کا مرتکب ہوا ہے جو اب رکشہ میں سامان لے کر کہیں جا رہا ہے جس پر ایس ایچ او موقع پر پہنچے تو اس وقت تک بڑی تعداد میں لوگ مبینہ ملزم کا تعاقب کرتے ہوئے ان کے پیچھے پہنچ چکے تھے۔ پولیس نے مشتعل ہجوم سے مبینہ ملزم کو بچانے کی بھی کوشش کی تاکہ ملزم کے ساتھ قانون کے مطابق کارروائی کی جائے لیکن ہجوم میں شامل لوگ مطالبہ کر رہے تھے کہ یہ شخص ان کے حوالے کیا جائے۔ پولیس حکام کے مطابق پولیس کے پیچھے پیچھے مشتعل ہجوم بھی تھانے آن پہنچا۔ تاہم ملزم کی جان بچانے کے لئے تھانے کے گیٹ بند کر دیئے گئے اور اسے قریب ہی واقع ایس ایچ او کے کوارٹر میں منتقل کر دیا لیکن ہجوم وہاں بھی پہنچ گیا۔ حکام کا کہنا ہے کہ اس دوران جتھوں کی جانب سے علاقے کی مساجد میں اعلانات کیے گئے جس پر بڑی تعداد میں لوگ تھانے کے باہر پہنچ گئے اور سیاح کو ان کے حوالے کرنے کا مطالبہ کرنے لگے۔ بعض اطلاعات یہ بھی ہیں کہ مساجد میں اعلانات نہیں ہوتے البتہ فون کالز کے ذریعے لوگوں کو اکٹھا کیا گیا۔ تاہم پولیس حکام کا کہنا ہے کہ ہجوم میں شامل افراد نے پہلے تھانے پر پتھرائو کیا اور پھر دیواریں پھلانگ کر اندر داخل ہو گئے اور تھانے کی عمارت اور گاڑیوں کو نقصان پہنچایا۔ اس دوران پولیس اہلکاروں کو بھی معمولی چوٹیں آئیں۔
سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ویڈیوز میں ہجوم کو تھانے پر دھاوا بولتے اور املاک کو نذرِ آتش کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ صوبائی حکومت کے ترجمان بیرسٹر محمد علی سیف نے بتایا کہ مذکورہ شخص کو پولیس نے اپنی حراست میں لیا تھا مگر مشتعل ہجوم تھانے پر حملہ کر کے اسے تشدد کرتے ہوئے تھانے سے باہر لے آیا اور قتل کر دیا۔ اس واقعے کی سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ویڈیوز میں لوگوں کو ایک جلتی ہوئی لاش کے اردگرد جمع ہو کر مذہبی نعرے بازی کرتے بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ تاہم سوات کی تحصیل بحرین کے علاقے مدین میں تنازعات کے حل کے لئے تھانے کی سطح پر قائم کمیٹی ڈی آر سی کے نائب چیرمین اقبال حسین کا کہنا تھا کہ مبینہ طور پر توہین کا واقعہ ہوٹل میں پیش آیا۔ ان کا دعویٰ ہے کہ اس موقع پر چند عینی شاہدین جو کہ ہوٹل میں مقیم دیگر لوگ ہی بتائے جاتے ہیں بھی موجود تھے۔ اگرچہ ہوٹل کے عملے نے پولیس کو اطلاع دی تھی تاہم پولیس کے آنے تک بات پھیل چکی تھی۔ اس موقع پر بہت کوشش کی گئی کہ کسی طرح ہنگامہ آرائی کنٹرول کر لی جائے مگر ایسا ممکن نہ ہو سکا کیونکہ لوگ تعداد میں بہت زیادہ اور مشتعل تھے۔ یوں صورتحال لمحوں میں بگڑ گئی۔ مدین کے تاجر رہنما میاں الطاف حسین گزشتہ روز مدین کے بازار میں اپنی دکان پر موجود تھے۔ ان کی دوکان ہوٹل کے قریب ہی واقع ہے۔ ان کے مطابق بازار میں ساڑھے چھ بجے شور ہوا کہ کسی سیاح نے قران پاک کی توہین کی ہے جس کے بعد ہجوم اکٹھا ہو گیا۔ بعد ازاں مشتعل لوگوں نے تھانے پر ہلہ بول دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ پولیس نے ممکنہ حد تک مزاحمت کی تھی۔ مگر لوگ بہت زیادہ اور مسلح بھی تھے۔ لوگوں نے اس شخص کو تھانے سے باہر نکالا اور قتل کر دیا۔ ہوٹل جہاں پر ہلاک ہونے والے شخص نے رہائش رکھی تھی کے قریب ہی واقع دوسرے ہوٹل انتظامیہ کے شخص نے بتایا کہ واقعہ جو بھی ہوا ہوٹل میں پیش آیا تھا۔ ہوٹل انتظامیہ نے بروقت پولیس کو اطلاع دی تھی۔
جان بچانے کی خاطر وہ شخص موقع سے فرار ہونے کی کوشش کر رہا تھا جس وجہ سے بات پھیل گئی تھی۔ پولیس حکام کے مطابق پولیس نے ممکنہ حد تک مزاحمت کی تھی۔ پولیس کی نفری بہت کم تھی جبکہ لوگ بہت زیادہ تھے۔ واضح رہے کہ مدین میں اس وقت بڑی تعداد میں ہوٹل موجود ہیں اور تمام ہوٹل سیاحوں سے بھرے ہوئے ہیں۔ اطلاعات ہیں کہ مقامی لوگوں نے روڈ کھول کر کشیدگی کے بعد خوف کا شکار سیاح جن کی اکثریت علاقہ چھوڑنا چاہتی تھی کو واپسی میں مدد فراہم کی۔ واضح رہے کہ توہین مذہب کے الزام میں مارے جانے والے اس 36سالہ شخص کے آبائی علاقے کی نگرانی بھی جاری ہے نقص امن کے خطرات کی بناء پر پنجاب پولیس کے ترجمان کے مطابق مقتول کے گھر کے باہر پولیس کی نفری تعینات کر دی گئی ہے۔ مذکورہ شخص کے اہلخانہ کا کہنا ہے کہ وہ روزگار کے لئے کچھ عرصہ قبل بیرونِ ملک ملائشیا میں بھی مقیم رہ چکا تھا اور طلاق یافتہ تھا۔ اہلخانہ کی جانب سے اس سے لاتعلقی کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔ اس کی والدہ نے ایک ویڈیو بیان میں کہا ہے کہ ان کے بیٹے کا ڈیڑھ سال سے اپنے گھر والوں سے کوئی تعلق نہیں۔ اس کی والدہ نے ویڈیو پیغام میں کہا کہ ان کے شوہر 30سال قبل وفات پا گئے تھے۔ بیرون ملک سے واپسی پر اس کی شادی کروائی تاہم یہ ہم سے لڑائی جھگڑا کرتا رہا جس کے بعد اس کے حصے کی جائیداد اسے دے دی اور قطع تعلق کر لیا۔ مذکورہ شخص کی والدہ اور بھائی نے جائیداد کے تنازع پر 2022 میں اس کے خلاف تشدد کا مقدمہ بھی درج کروایا تھا۔ خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور نے سیاح کی ہلاکت کا نوٹس لے کر آئی جی سے واقعے کی رپورٹ طلب کر لی ہے۔ وزیراعلیٰ ہاس سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق علی امین گنڈاپور نے آئی جی پولیس کو صورتحال کو کنٹرول کرنے کے لئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات اٹھانے کی ہدایت کی ہے۔ وزیر اعلیٰ نے شہریوں سے پرامن رہنے کی اپیل بھی کی ہے۔ خیال رہے کہ مدین سوات کے مشہور سیاحتی مقامات میں سے ایک ہے اور آج کل اس علاقے میں عید کی تعطیلات کی وجہ سے سیاحوں کی بڑی تعداد موجود ہے۔
یہ بھی ذہن میں رہے کہ اس وقت ایک مرتبہ پھر پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبے پر کام شروع کرنے کے لئے مذاکرات اور اہم وفود کا تبادلہ ہو رہا ہے اور دوسری طرف کے پی کے میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا ہے جس میں ایک ہجوم نے ایک زندہ شخص کو آگ لگا دی ہے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں پر بداعتمادی کر کے دہشت گردی کا ارتکاب کیا ہے۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق اسے صوبائی عصبیت کا شاخسانہ بھی قرار دیا جا سکتا ہے یا مذہبی منافرت کا انجام یا پھر یہ سیاسی جماعتوں کی باہمی چپقلش کی ایک بدترین مثال بھی ہو سکتی ہے مگر یہ طے ہے کہ وقت کی نزاکت کے پیش نظر یہ واقعہ اپنی نوعیت کے بداثرات چھوڑے گا۔

جواب دیں

Back to top button