Columnمحمد مبشر انوار

سرجری

 

محمد مبشر انوار
آفاقی اصول ہے کہ ہر کام کے لئے ایک مخصوص شخص ہی موزوں ہوتا ہے جبکہ اس عہدہ کے لئے امیدواران ایک سے زیادہ بھی ہو سکتے ہیں تاہم قرعہ فال کسی ایک شخصیت کے نام نکلتا ہے اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس مخصوص شعبہ میں ملک و قوم کو بے شمار کامیابیاں نصیب ہوتی ہیں، ترقی یافتہ اقوام اس آفاقی اصول کو ذہن نشین کر چکی ہیں اور اس پر کسی قسم کا سمجھوتہ کرنے کے لئے تیار دکھائی نہیں دیتی اور دن دگنی رات چوگنی ترقی کی منازل طے کر رہی ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان میں ایسا کوئی اصول دیکھنے کو نہیں ملتا بلکہ یہاں ہر شاخ پر الو بیٹھنے والی مثال زیادہ صادق آتی ہے کہ ہر شعبہ ہائے زندگی میں ہمیں اقربا پروری کی مثالیں دیکھنے کو ملتی ہیں خواہ نوازے گئے شخص میں اہلیت ہو یا نہ ہو، ابجد سے واقف ہو یا نہ ہو بس ذاتی وفاداری اولین شرط ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ پاکستان ہر شعبہ ہائے زندگی میں مسلسل اور تیز رفتار تنزلی کا شکار دکھائی دے رہا ہے، موجودہ حکومت ہی کی مثال کو سامنے رکھ لیں تو واضح دکھائی دے رہا ہے کہ اس حکومت کے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں اور خالی ہاتھ یہ تو کیا کوئی بھی حکومت ملک و قوم کی بہتری کے لئے کچھ بھی نہیں کر سکتی۔ حالیہ بجٹ اس کی بہترین مثال ہے کہ جس میں ذرائع آمدن ، اخراجات سے تقریبا نصف سے بھی کم ہیں لیکن اس کے باوجود ترقیاتی منصوبوں کے لئے ایک خطیر رقم مختص کی جا چکی ہے، جسے عرف عام میں سیاسی رشوت کہا جاتا ہے۔ عوام کی ہڈیوں سے گودا نچوڑنے کی تیاری کی جارہی ہے اور تقریبا 2500ارب کے نئے ٹیکس لگانے کا عندیہ دیا گیا ہے جبکہ ترقیاتی منصوبوں کے لئے 1500ارب کی خطیر رقم رکھی گئی ہے، جسے سیاسی رشوت کے علاوہ کوئی اور مناسب نام نہیں دیا جا سکتا۔ بہرکیف اس عمل سے واضح دکھائی دیتا ہے کہ حکمرانی کے منصب پر فائز افراد، اس منصب کے لئے کتنے اہل ہیں کہ ملکی بجٹ بنانے کے لئے انہیں عالمی بنک اور آئی ایم ایف سے قرض لینا پڑتا ہے، قومی وسائل محدود کئے جا چکے ہیں لیکن اس کے باوجود ضد ہے کہ ترقیاتی منصوبوں کے لئے اخراجات بجٹ میں رکھے جائیں گے۔ سوال صرف اتنا ہے کہ کیا حکمران اپنے ذاتی کاروبار میں، کم ذرائع آمدن کے باوجود ایسے اخراجات کا بجٹ، اپنی کاروباری سلطنت میں بنا سکتے ہیں؟ اس کا جواب قطعی نفی ہے کہ اپنے ذاتی کاروبار میں یہ لوگ کسی کو بلاوجہ چائے کا ایک کپ پلانے کے روادار نہیں لیکن قومی وسائل کی لوٹ مار کے لئے نہ ان کا دماغ کام کرتا ہے اور نہ ہی ان کا دل ایسے قومی وسائل کے زیاں پر دھڑکنا بند ہوتا ہے، حلوائی کی دکان سمجھتے ہوئے نانا جی کی فاتحہ ہی ان کا مقصد اولین ٹھہرا ہے۔ دوسری طرف عمران خان کا دور حکومت دیکھیں تو واضح فرق نظر آتا ہے گو کہ کرنٹ اکائونٹ خسارے میں کمی کی وجوہات میں سے ایک عالمی تجارت کو محدود کرنا تھا ،جو واقعتا پاکستان کی ضرورت ہے کہ پاکستان کا بیشتر زرمبادلہ ایسی خرافات کی نذر ہوتا ہے، جو اشرافیہ کے چونچلے ہیں جبکہ غریب عوام کا اس سے براہ راست کچھ لینا دینا ہی نہیں۔ علاوہ ازیں! کورونا کے ہنگام میں ایک طرف چین تو دوسری طرف کئی ایک بڑے ممالک، جن کی برآمدات عالمی منڈی کا بنیادی جزو تھی،معطل ہو چکی تھی جبکہ عمران خان کی سمارٹ لاک ڈائون پالیسی کے باعث، برآمدات کے آرڈرز پاکستانی صنعت کو ملنا شروع ہو گئے تھے، جس سے پاکستانی معیشت پر درآمدات کا بوجھ کم ہونے اور برآمدات بڑھنے سے، کرنٹ اکاءونٹ خسارہ کم ہوا تھا اور پاکستانی صنعتی پہیہ متحرک ہوا تھا۔
بہرکیف ارادہ کرکٹ میں موجودہ شکستوں پر لکھنے کا تھا مگر بدقسمتی سے کچھ بھی لکھنے کا ارادہ کریں، جڑ سیاسی عدم استحکام سے ہوتی ہوئی براہ راست نااہل شخصیات کی تعیناتی پر جا رکتی ہے کہ کسی بھی شعبہ ہائے زندگی میں مناصب پر بیٹھے عہدے دار نااہل ہی دکھائی دیتے ہیں یا انہیں دباؤ میں رکھ کر، ان کو نااہل کر دیا جاتا ہے۔ پاکستان کی موجودہ کرکٹ ٹیم کسی بھی لحاظ سے کم نہیں لیکن افسوس کہ ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ ٹورنامنٹ کے پہلے دو میچ انتہائی حیران کن طور پر ہار گئی، بالخصوص امریکہ کی نوآموز ٹیم کے سامنے جس طرح ٹیم بکھری ہوئی نظر آئی، اس نے شائقین کرکٹ کو افسردہ کر دیا۔ شائقین کرکٹ میچ دیکھ چکے ہیں کہ کس طرح 159رنز کا دفاع پاکستانی ٹیم کرنے سے قاصر رہی حتی کہ سپر اوور کی کارکردگی سے جو تنقید ٹیم پر ہوئی، وہ بھی سب جانتے ہیں لیکن میرا سوال صرف اتنا ہے کہ کیا واقعی پاکستانی ٹیم کی یہ کاکردگی حقیقی ہے؟ بظاہر میدان میں کارکردگی ہی کسی بھی ٹیم کی مضبوطی کو ظاہر کرتی ہے، کتابوں میں درج ریکارڈ و اعداد و شمار کسی بھی کھلاڑی کے بہترین ہونے کی گواہی دیتے ہیں، اسے دنیائے کرکٹ میں ممتاز کرتے ہیں اور بعینہ پوری ٹیم کی فتوحات ہی اسے دنیائے کرکٹ کی ممتاز ٹیم بناتے ہیں لیکن کیا میدان میں دکھائی گئی کارکردگی، سو فیصد صلاحیتوں کا اظہار تسلیم کی جا سکتی ہے؟ سو فیصد صلاحیتوں کے اظہار میں کمی کا ذمہ دار کون ہے؟ بظاہر تو کھلاڑی خود اس کا ذمہ دار ہے لیکن پس پردہ حقائق کو کسی بھی صورت نظر انداز کیا جا سکتا ہے؟ ٹیم مینجمنٹ کا کام تو ٹیم میں روح پھونکنا ہے، ان کو متحد کرنا ہے، ان کے دماغوں میں ملکی وقار کو راسخ کرنا ہے، سو فیصد صلاحییتں بروئے کار لا کر ملک کے لئے فتوحات سمیٹنا ہے، ملکی پرچم کو اقوام عالم میں بلند و باوقار کرنا ہے، کیا ٹیم مینجمنٹ یہ تمام فرائض کماحقہ ادا کر رہی ہے؟ چند برس قبل تک یہی پاکستانی ٹیم تھی جو دنیائے کرکٹ میں پہلی پوزیشن پر براجمان تھی، اور پہلی مرتبہ اتنے طویل عرصہ تک، اس پوزیشن پر براجمان رہی لیکن پھر کیا ہوا کہ یکدم یہ ٹیم تنزلی کی طرف گامزن ہوئی اور بری طرح مقابلوں میں شکست کھانے لگی؟
پس پردہ کیا حقائق ہیں، بیشتر شائقین اس سے واقف ہیں لیکن مجبوری یہ ہے کہ شائقین فیصلے کرنے کی پوزیشن میں نہیں، وہ نہ تو ٹیم سلیکشن کا حصہ ہیں اور نہ ہی ٹیم بنانے میں ان کا ہاتھ ہے۔ کرکٹ بورڈ کے ارباب اختیار جس طرح فیصلہ سازی کرتے ہیں، جس طرح ٹیم کو چلاتے ہیں، اس سے کون واقف نہیں لیکن نزلہ گرتا ہے تو کپتان پر، جیسے گذشتہ ورلڈ کپ کے بعد بابر اعظم کو کپتانی سے ہٹایا گیا، ٹیم اس طرح بنائی جا سکتی ہے؟ بابراعظم کو بلا شک و شبہ پاکستان کا بہترین کھلاڑی قرار دیا جاتا ہے لیکن اس کے ساتھ اب یہ مفروضہ نتھی کر دیا گیا ہے کہ بابر بے شک بڑا کھلاڑی ہے لیکن اس میں کپتانی کی صلاحیت نہیں ہے اور بیشتر مواقع پر وہ ملکی مفاد کی بجائے اقربا پروری کو ترجیح دیتا ہے۔ حالانکہ یہی بابر اعظم تھا اور یہی کھلاڑی تھے، جن کی ساتھ بابر اعظم نے پاکستانی ٹیم کو کئی ایک فتوحات دلوائی ہیں حتی کہ بھارت کو ایک طویل عرصہ کے بعد ٹی ٹونٹی میں دس وکٹوں سے کامیابی دلوانے والا بھی یہی بابر اعظم تھا۔ بہرحال اس مفروضہ کو اس لئے بھی تسلیم کرنے کو دل نہیں مانتا کہ پاکستانی ٹیم ، جب بھی ایک ٹیم بنتی دکھائی دی ہے، اس کے تاروپود بکھیرنے میں مینجمنٹ نے ہمیشہ بنیادی کردار ادا کیا ہے، نجانے پس پردہ ٹیم مینجمنٹ کس خوف کا شکار رہتی ہے کہ ٹیم کا شیرازہ بکھیر کر اپنی افادیت ثابت کرنے میں کسی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کرتی۔ بابر اعظم کی کپتانی میں ٹیم واقعتا متحد ہو کر کھیلتی دکھائی دیتی تھی اور ان کا مقصد ٹیم کی کامیابی دکھائی دیتا تھا، ہر کھلاڑی اپنا سو فصد میدان میں ظاہر کرتا دکھائی دیتا تھا لیکن ٹیم کی اکھاڑ پچھاڑ نے اب ٹیم کی وہ مقصدیت چھین لی ہے۔ وہ کھلاڑی جنہیں بابر اعظم کو کپتانی سے سبکدوش کرنے پر کپتان بنایا گیا تھا، ان کے دماغ سے کپتانی نہیں نکل رہی اور واضح دکھائی دے رہا ہے کہ وہ میدان میں اپنی بھرپور صلاحیتوں کا اظہار کرنے میں تامل کا شکار ہیں۔ مینجمنٹ کی ان حرکتوں کی وجہ سے ایک طرف ٹیم کا مورال گرا ہے تو دوسری طرف کھلاڑیوں کی انفرادی کاکردگی بھی شدید متاثر ہوئی ہے کہ شاہین شاہ آفریدی جو کپتان بننے سے قبل تک، اپنے پہلے اوور میں ہی پاکستان کے لئے وکٹ حاصل کرنے کے لئے مشہور ہو چکا تھا، بڑے بڑے کھلاڑی اس سے خائف دکھائی دیتے تھے، آج ایک عام سا بائولر دکھائی دیتا ہے۔ اسی طرح محمد عامر ایک انتہائی باصلاحیت کھلاڑی پاکستانی ٹیم کو ملا، جس نے اپنی حماقت کی وجہ سے اپنا کرکٹ کیریئر تباہ کر لیا اس کے باوجود اسے دوبارہ ؍ سہ بارہ موقع ملا لیکن اس کی کارکردگی بھی سوالیہ نشان ہے؟ یہاں وزیراعلی سندھ مراد علی شاہ کی ایک ویڈیو وائرل ہے جس میں وہ امریکہ سے شکست کی وجہ پر روشنی ڈالتے دکھائی دے رہے ہیں، اگر واقعتا ایسا ہی ہے تو افسوس تو امریکہ پر بھی ہے جو نجانے کیسے اس طرح کی کامیابی پر اترا رہا ہے؟ دو ناکامیوں پر چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ محسن نقوی کا ارشاد ہے کہ ٹیم کی سرجری کرنی پڑے گی، بصد احترام ، کہ جو صورتحال پاکستان میں ہو چکی ہے ارباب اختیار سے اختلاف رائے کرنے کی جرآت کرنے سے قبل احترام اور جان کی امان طلب کرنا ضروری ہو چکا ہے، سرجری ٹیم کی نہیں بلکہ مینجمنٹ اور نیتوں کی ہونی چاہئے، بلکہ اگر ممکن ہوتو پاکستان میں ہر شعبہ ہائے زندگی میں بیٹھے فیصلہ سازوں کی نیتوں کی سرجری ہونی چاہئے ۔

جواب دیں

Back to top button