Column

حج قرب الٰہی اور امت مسلمہ کے اتحاد کی علامت

 

ایم فاروق قمر
حج اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں سے ایک ہے اور ہر صاحب استطاعت بالغ مسلمان پر زندگی میں ایک مرتبہ فرض ہے، یہ عبادت ہر سال ذی الحجہ کی 8سے 12تاریخ کو مکہ مکرمہ میں ادا کی جاتی ہے، ذی الحجہ کی 8تاریخ سے حج کے ارکان شروع ہوجاتے ہیں۔
حج کے فرائض:
حج کے چار فرائض ہیں، حج کے فرائض میں سے اگر کوئی فرض چھوٹ جائے تو حج ادا نہیں ہوگا لیکن اگر واجبات میں سے کچھ چھوٹ جائے تو حج ادا ہوجائے گا مگر اس کی جزا لازم ہوگی۔
قران پاک میں ارشاد پاک ہے: ’’ اللہ کے لیے لوگوں کے ذمے بیت اللہ کا حج کرنا ہے اور ان پر جو کہ اس پر جانے کی طاقت رکھتے ہوں‘‘۔ ( سورۃ آل عمران)
حج ہر صاحب استطاعت پر فرض ہے۔ اصطلاح شریعت میں اپنے گھر سے نکل کر’’ حج بیت اللہ کی نیت‘‘ سے احرام باندھ کر ایام حج مقررہ تاریخ و اوقات میں چند مخصوص ارکان چند مبارک افعال اور چند مقدس مناسک کی انجام دہی کا ’’ حج ‘‘ ہے۔ ان میں ’’ طواف خانہ کعبہ‘‘ اور ’’ وقوف عرفات‘‘ کو کلیدی حیثیت حاصل ہے.
میرے کریم آقاؐ نے فرمایا : ’’ حج اور عمرہ کرنے والے اللہ کے مہمان ہوتے ہیں اگر وہ دعا مانگیں تو اللہ تعالیٰ قبول فرماتے ہیں اور اگر وہ استغفار کریں تو اللہ پاک ان کی مغفرت فرماتے ہیں‘‘۔ ( نسائی ابن ماجہ)
حج نہ صرف قرب الٰہی کا ذریعہ ہے بلکہ اللہ پاک کا حکم بھی ہے جو اس کی استطاعت رکھتا ہے وہ میرے گھر کی زیارت کرے۔
یہ اللہ کے گھر کی زیارت کا شوق اور عشق الٰہی ہے کہ دنیا بھر کے مسلمان اللہ کے گھر کی زیارت کے لیے امڈ آتے ہیں۔ حج نہ صرف قرب خداوندی کا ذریعہ ہے بلکہ نبی کریم کی شفاعت کا باعث بھی ہے۔
میرے کریم آقاؐ نے فرمایا : ’’ جس نے میری قبر کی زیارت کی اس پر میری شفاعت واجب ہے‘‘۔
حج کرنے والا انسان حج اس طرح کرے اور گناہوں سے سچی توبہ کرے تو وہ تو وہ گناہوں سے ایسے پاک ہو جاتا ہے
جیسے وہ آج ہی اپنی ماں کے پیٹ سے جنا ہے۔
اسلام کے نظام عبادت میں حج بنیادی اہمیت اور انفرادیت کا حامل ہے۔ یہ اسلام کا ایک عظیم رکن ہی نہیں، بلکہ اخلاقی، معاشرتی، اقتصادی، سیاسی قومی ملّی زندگی کے ہر رخ اور ہر پہلو پر حاوی اور مسلمانوں کی عالم گیر بین الاقوامی حیثیت کا سب سے بلند مینار ہے۔ یہ عالم اسلام کی یگانگت، اتحاد اور مساوات کا ایک بہترین مظہر بھی ہے۔ حج اسلام کا بنیادی رکن ، فرض عبادت اور دینِ اسلام کی جملہ اہم عبادات کا مجموعہ ہے، جس کے لئے مسلمان بیت اللہ پہنچ کر مخصوص اعمال اور عبادات بجا لاتے ہیں۔ اسلام ایک مکمل دین ہے، جس میں عبادات، معاملات ، حقوق و فرائض ، اقتصاد و معیشت اور تعلیم و معاشرت کا بھرپور سلسلہ اپنی تمام تر تابناکیوں سمیت میسر ہے۔ اسلام میں عبادت کا تصور بہت وسعت لئے ہوئے ہے۔ اس میں حقوق اللہ اور حقوق العباد کی تقسیم ہے۔ انفرادی اور اجتماعی عبادت بھی ہے۔ اسلام کے نظام عبادات ( حقوق اللہ ) اور نظم ِ معاملات ( حقوق العباد ) میں بنیادی نکات ہی سلامتی ، خیر خواہی ، محبت و اخوت اور امن و سکون کا فروغ ہے، تاکہ انسان حقیقت میں اس فانی دُنیا میں اللہ کا نائب بن کر زندگی بسر کر سکے۔ اسلام نے مسلمانوں کو ایثار، اخوت، اتحاد و اتفاق اور خیر خواہی کو اپنے نظام میں ایک روشن مقام دیا ہے ۔
رسولؐ اللہ نے فرمایا: ’’ جس نے اللہ کے لئے محبت کی اور اللہ کے لئے ( اس کے نافرمانوں سے) دُشمنی کی اُس نے اپنے ایمان کو مکمل کر لیا‘‘۔
اسلام کی زریں تعلیمات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے۔ اس کی عزت اور اس کے جان و مال کا تحفظ اس کا دینی فریضہ ہے۔ اس کے دُکھ درد میں شریک ہونا اس کے لئے ایمان کا بنیادی تقاضا ہے۔ مسلمانوں نے ان تعلیمات پر عمل پیرا ہوکر عالم انسانیت کو ایک بہترین اسلامی معاشرے سے آشنا کیا۔ ہمیں آج بھی ان تعلیمات پر پہلے سے کہیں زیادہ عمل کی ضرورت ہے۔ اسلام میں انسانی تعلیم و تربیت کی اسی کیفیت کا، فریضہ حج بھرپور عکاسی کرتا دکھائی دیتا ہے۔ اسلام ہی وہ واحد دین ہے جس نے اپنے پیروکاروں پر ایسی عبادات لازم کی ہیں جو انہیں اہتمام کے ساتھ یہ یاد دلاتی رہتی ہیں کہ
اپنی ملت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمیؐ
اسلامی عبادات میں حج ایک ایسا فریضہ ہے جو مسلمانوں کو ضربِ کلیمی سکھاتا ہے۔ ذرا اس نقشے کو تھوڑی دیر کیلئے نگاہ تصور کے سامنے لے آئیے۔ ہر ملک، ہر علاقے اور ہر خطہ زمین کے لوگ اللہ کے گھر پہنچ رہے ہیں۔ کوئی گورا ہے، کوئی کالا، کسی کی زبان انگریزی ہے، کسی کی عربی ، کوئی چینی بولتا ہے تو دوسرا اردو، پشتو ، بنگالی وغیرہ ، اپنے علاقوں میں یہ جو بھی لباس پہنتے ہوں، مگر اب سب کے سب بے سلی چادروں میں ملبوس ہیں۔ اپنے علاقوں میں یہ جو بھی زبان بولتے ہوں، مگر یہاں ان کی زبانوں پرلبیک اللّٰھم لبیک کے ترانے ہیں۔ وطن کے اعتبار سے یہ جہاں کے بھی باشندے ہوں، مگر ان سب کا مرکز ان کا نقطہ اجتماع، ان کا قبلہ ایک اور صرف ایک ہے اور وہ اللہ کا گھر ہے۔ یوں مسلمانوں کو ہر سال حج میں یہ سبق یاد دلایا جاتا ہے کہ رنگ و نسل، زبان اور وطن سے قومیں تشکیل نہیں پاتیں۔ اصل تعلق اللہ کے دین کا تعلق ہے تمہیں ان امتیازاتِ باطلہ کے چکر میں ہر گز مبتلا نہیں ہونا چاہئے اور بقول اقبالؒ:
بتانِ رنگ و بو کو توڑ کر توملت میں گم ہو جا
نہ تورانی رہے باقی، نہ ایرانی، نہ افغانی
حج کی عبادت دنیا بھر کے مسلمانوں کو سال کے سال یہ مواقع بھی بہم پہنچاتی ہے کہ وہ ہر علاقے اور ہر خطہ زمین سے کھنچ کر اور ایک مقام پر جمع ہو کر اپنے مسائل اور مشکلات کا جائزہ لیں اور انہیں دور کرنے کے طریقے سوچیں۔ جس کا خاطرخواہ فائدہ بد قسمتی سے ہم ابھی تک نہیں اٹھا سکے کہ جو حقیقت میں حج کے عالمی اجتماع کی روح ہے، ہمیں ملت اسلامیہ کی برتری کے لئے حج کو وسیلہ بنانے کی فکر کرنی چاہئے۔

جواب دیں

Back to top button