Editorial

عوامی امنگوں کا ترجمان بجٹ

ماضی کو کھنگالا جائے تو ہر سال نیا آنے والا بجٹ عوام کے لیے مہنگائی کا باعث ثابت ہوتا رہا ہے۔ پچھلے 6سال تو اس حوالے سے خاصے ڈرائونے اور ہولناک ثابت ہوئے ہیں، جسے حکمرانوں کی جانب سے عوام دوست قرار دیا جاتا تھا، وہ ہر نیا بجٹ مہنگائی کو دعوت دیتا اور غریبوں کی مشکلات بڑھاتا نظر آتا تھا۔ بجٹ کے آنے کے بعد غریبوں کے لیے ہر بار روح اور جسم کا رشتہ اُستوار رکھنا ازحد مشکل ہوتا چلا گیا۔ ہر شے کے دام آسمان پر جاپہنچے۔ بنیادی ضروریات کی قیمتیں تاریخ کی بلند ترین سطح کو چھوتی رہیں، مہنگائی کے نشتر اس بے دردی کے ساتھ برستے دِکھائی دیے کہ ماضی میں جس کی نظیر ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتی۔ جس حساب سے گرانی بڑھی، اُس تناسب سے آمدن میں اضافے کا فقدان رہا۔ اس بار بھی جیسے جیسے بجٹ کے دن نزدیک آرہے تھے، غریبوں کی تشویش بڑھتی چلی جارہی تھی، خوش کُن امر یہ تھا کہ پچھلے دو ماہ میں مہنگائی کا زور خاصی حد تک ٹوٹا تھا۔ ملکی معیشت بہتر رُخ اختیار کررہی تھی۔ عوام کی حقیقی اشک شوئی کے بندوبست دِکھائی دے رہے تھے۔ کچھ حلقوں کی جانب سے بارہا کہا جارہا تھا کہ بجٹ کے آنے کے بعد گرانی میں ہولناک حد تک اضافہ ہوگا اور غریبوں کو جو تھوڑا بہت پچھلے مہینوں ریلیف ملا ہے، وہ بھی تلپٹ ہوجائے گا، غرض جتنے منہ اُتنی باتیں کی جاتی رہیں۔ بجٹ آیا تو اُس نے تمام افواہوں کو سپرد خاک کردیا اور اسے حقیقی معنوں میں عوام دوست بجٹ گردانا جائے تو ہرگز غلط نہ ہوگا۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں 25 فیصد کا اضافہ کیا گیا ہے۔ کم از کم تنخواہ 32 سے بڑھا کر 36 ہزار کردی گئی ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے آئندہ مالی سال کے لیے 18ہزار 877ارب روپے کا بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کردیا، بعدازاں تقریر کا آغاز کیا، نواز شریف، شہباز شریف، بلاول بھٹو، خالد مقبول صدیقی سمیت تمام اتحادی جماعتوں کے قائدین کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ بجٹ میں ترقی کو خاص ہدف رکھا گیا ہے، گزشتہ برسوں کے مقابلے میں اب اقتصادی ترقی تیزی سے ہورہی ہے۔ وزیر خزانہ نے بتایا کہ بجٹ میں ٹیکس وصولی کا ہدف 13ہزار ارب روپے رکھا گیا ہے جس میں ترقیاتی بجٹ 1500ارب ہے، شرح نمو کا ہدف3.6 رکھا گیا ہے، 9775ارب روپے سود کی ادائیگی میں جائیں گے۔ بجٹ میں دفاعی بجٹ میں269.471ارب روپے اضافے کی تجویز دی گئی ہے، دفاع و دفاعی خدمات کیلئے2128.781ارب روپے مختص کرنے کی تجویز دی گئی ہے جبکہ پچھلے سال کا نظرثانی شدہ دفاعی بجٹ 1859.31ارب روپے تھا۔ سول انتظامیہ کے لیے 847ارب، پنشن کے لیے 1014ارب اور بجلی و گیس کی سبسڈی کی مد میں 1013ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ایف بی آر سے حاصل شدہ محصولات کا تخمینہ 12ہزار ارب روپے اور حکومت کی خالص آمدن کا تخمینہ 9ہزار ارب روپے لگایا گیا ہے۔ وزیر خزانہ نے بتایا کہ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 25فیصد تک اضافے اور ریٹائرڈ ملازمین کی تنخواہوں میں 15فیصد اضافے کی تجویز ہے۔ ایک سے 16گریڈ کے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 25فیصد اضافے جبکہ گریڈ 17سے 22تک کے افسران کی تنخواہوں میں 22فیصد اضافے کی تجویز ہے، اسی طرح ریٹائرڈ سرکاری ملازمین کی پنشن میں 15فیصد اضافے کی تجویز ہے۔ وزیر خزانہ نے بتایا کہ کم از کم ماہانہ اجرت 32ہزار روپے مقرر تھی جس اب بڑھا کر 36ہزار کرنے کی تجویز ہے۔ انہوں نے بتایا کہ تنخواہ دار طبقے پر انکم ٹیکس کی حد 6لاکھ روپے کی سطح پر برقرار جب کہ تنخواہ دار طبقے پر کوئی اضافی ٹیکس نافذ نہیں کیا ہے۔ بجٹ میں فائلرز، نان فائلرز اور تاخیر سے ریٹرن جمع کرانے کے لیے الگ الگ سلیب متعارف کرانے کی تجویز ہے۔ وزیر خزانہ نے بتایا کہ نان فائلرز پر ٹیکس بڑھانے کا مقصد ریونیو اکٹھا کرنا ہے، ہولڈنگ کی مدت سے قطع نظر پندرہ فیصد کی شرح سے ٹیکس وصول کرنے کی تجویز ہے۔ نان فائلرز کے ٹیکس ریٹ مختلف سلیبس کے تحت 45فیصد تک کرنے کی تجویز ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس قدم سے معیشت کو ڈاکومنٹ کرنے میں مدد ملے گی۔ بی آئی ایس پی کے تحت مالی خود مختاری پروگرام متعارف کرایا جائے گا، حکومت گریجویشن ایڈ اسکلز پروگرام کا آغاز کرنے جارہی ہے، تعلیمی وظائف پروگرام میں مزید دس لاکھ بچوں کا اندراج، تعداد 10.4ملین ہوجائے گی، نشوونما پروگرام، اگلے مالی سال میں پانچ لاکھ خاندانوں کو اس میں شامل کیا جائے گا، کسان پیکیج کے لیے پانچ ارب کی تجویز، کسانوں کو قرض دیا جائے گا۔ جامشورو کول پاور پلانٹ کیلئے 21ارب روپے مختص، این ٹی ڈی سی کے سسٹم کی بہتری کے لیے 11ارب روپے کی تجویز دی گئی ہے۔ کراچی میں آٹھ ارب روپے کی لاگت سے آئی ٹی پارک بنایا جائے گا جس کے لیے بجٹ میں رقم مختص کردی گئی۔ ٹیکنالوجی پارک اسلام آباد کے لیے گیارہ ارب روپے رکھے گئے ہیں، ڈیجیٹل انفرا اسٹرکچر کی بہتری کے لیے 20ارب روپے کی تجویز ہے۔ وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ بجٹ میں سولر پینل کی تیاری میں استعمال ہونے والی مشینری، پلانٹ اور اس سی منسلک آلات اور سولر پینلز و انورٹرز اور بیٹریوں کی تیاری میں استعمال ہونے والے خام مال کی درآمد پر ڈیوٹی و ٹیکسوں میں رعایت دینے جارہے ہیں، اس اقدام سے سولر کی ملک کی مقامی ضرورت بھی پوری ہوسکے گی اور برآمد بھی کیا جاسکے گا۔ وزیر خزانہ نے بتایا کہ فاٹا اور پاٹا میں دی گئی ٹیکسوں کی چھوٹ بتدریج ختم کی جارہی ہے، تاہم فاٹا و پاٹا کے رہائشیوں کیلئے انکم ٹیکس چھوٹ میں ایک سال کی توسیع کی جارہی ہے، سیلز ٹیکس و فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کے ڈیفالٹرز پر عائد 12فیصد سالانہ ڈیفالٹ سرچارج کو بڑھا کر کائبور پلس 3فیصد کرنے کی تجویز ہے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ صحافیوں اور میڈیا ورکرز کیلئے صحت کی انشورنش کی بحالی کی خوش خبری سناتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ پہلے مرحلے میں ملک بھر کے 5ہزار صحافیوں اور میڈیا ورکرز کی ہیلتھ انشورنس ہوگی اور دوسرے مرحلے میں 10ہزار صحافیوں اور میڈیا ورکرز کو صحت کا یہ بنیادی حق فراہم کریں گے۔ لگژری الیکٹرک گاڑیوں کی درآمد پر دی جانے والی رعایت ختم کردی گئی ہے۔ وزیر خزانہ نے بتایا کہ کفایت شعاری کے تحت اخراجات میں کمی کے لیے پی بی ایس ایک سے 16تک تمام خالی اسامیوں کو ختم کرنے کی تجویز زیر غور ہے جس سے 45ارب روپے سالانہ کی بچت ہونے کا امکان ہے جبکہ وفاقی کابینہ کے حجم کو کم کرنے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے۔ مجموعی طور پر بجٹ عوام دوست ہے اور اس کے دوررس اثرات مرتب ہوں گے۔ اس بار بجٹ ان شاء اللہ مہنگائی کا پیش خیمہ ہرگز ثابت نہ ہوگا، بلکہ گرانی میں کمی آئے گی، اس بجٹ میں غریبوں کی اشک شوئی کے حوالے سے خوش خبریاں پنہاں ہیں۔ ملک و قوم بہتری کی جانب چل پڑے ہیں۔ آئندہ چند سال میں صورت حال مزید بہتر رُخ اختیار کرے گی۔
پنجاب: جعلی ادویہ کیخلاف بڑا قدم
وطن عزیز میں ایسے قبیح عناصر کی چنداں کمی نہیں، جن کا مطمع نظر محض دولت کمانا ہوتا ہے، اُن کی بلا سے اُن کے باعث شہریوں کی زندگیاں دائو پر لگتی ہیں تو لگتی رہیں، اُن کو اس سے ذرا بھی فرق نہیں پڑتا۔ ایسا ہی ایک مکروہ دھندا جعلی، غیر معیاری، ناقص اور زائد المیعاد ادویہ کی فروخت کا بھی ہے جو ملک کے طول و عرض میں عرصۂ دراز سے جاری ہے۔ اس کے باعث ہر سال لوگوں کی بڑی تعداد اپنی زندگیوں سے محروم ہوجاتی ہے۔ مذموم عناصر اپنا گھنائونا کاروبار جاری رکھتے ہیں۔ انہیں کوئی روکنی ٹوکنے والا نہیں ہوتا۔ ان کی وجہ سے آئے روز میڈیا کے ذریعے اطلاعات سامنے آتی ہیں کہ کبھی جعلی اور غیر معیاری انجکشن نے کسی انسان کی جان لے لی، جعلی دوا نے کسی کو عمر بھر کی معذوری سے دوچار کردیا، کسی کو کوما میں پہنچانے کا باعث بن گئی۔ یہ اطلاعات درد مند دل رکھنے والوں کو اشک بار کردیتی ہیں، لیکن اس دھندے میں ملوث پتھر دلوں میں انسانی زندگی کی کوئی وقعت نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملک بھر میں میڈیکل اسٹوروں پر جعلی، غیر معیاری، زائد المیعاد اور ناقص ادویہ کی فروخت جاری رہتی اور انسانی زندگیوں کے ساتھ بڑے پیمانے پر گھنائونا کھلواڑ جاری رہتا ہے۔ کبھی کبھار دِکھاوے کے لیے کارروائیاں کرلی جاتی ہیں، اُس کے بعد راوی چَین ہی چَین لکھتا ہے۔ مذموم عناصر انسانی صحتوں سے کھیلتے رہتے ہیں اور انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا۔ اس مذموم سلسلے کو روکنے کی ضرورت شدّت سے محسوس ہوتی ہے۔ اس تناظر میں پنجاب میں بڑا فیصلہ کیا گیا ہے۔وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے پنجاب کو جعلی، غیر معیاری اور ناقص ادویہ سے پاک کرنے کے پروگرام کی منظوری دے دی ہے۔ مریم نواز کی زیر صدارت کئی گھنٹے طویل اجلاس منعقد ہوا، جس میں اسپتالوں میں ڈاکٹروں، طبی عملے، نرسوں کی حاضری کو یقینی بنانے کے لیے بائیو میٹرک نصب کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ وزیراعلیٰ پنجاب نے ادویہ فروخت کرنے والی دُکانوں، ڈرگ اسٹورز کی جدید ٹیکنالوجی اور جیو ٹیگنگ کے ذریعے نگرانی کے اقدامات پر سخت عمل درآمد کی ہدایت کی۔ مریم نواز نے کہا کہ اسپتالوں میں صفائی ستھرائی یقینی بنائی جائے، کوتاہی برداشت نہیں ہوگی۔ اجلاس میں جعلی، غیر معیاری اور ناقص ادویہ بیچنے والوں کو جرمانے، قید اور کاروبار سربمہر کرنے کی سزائیں دینے کا فیصلہ کیا گیا۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ دوائی جعلی نکلی تو محکمہ صحت کا متعلقہ افسر اور علاج ٹھیک نہ ہوا تو اسپتال کی ایڈمنسٹریشن ذمے دار ہوگی۔ ملک کے آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے کو جعلی، غیر معیاری اور ناقص ادویہ سے پاک کرنے کے پروگرام کی منظوری احسن قدم ہے، اس کی جتنی بھی توصیف کی جائے، کم ہے۔ پنجاب کی تقلید کرتے ہوئے دوسرے صوبوں میں بھی اسی قسم کے پروگرام کی ضرورت شدّت سے محسوس ہوتی ہے۔ ناگزیر ہے کہ ملک سے جعلی، غیر معیاری اور ناقص ادویہ کا مکمل صفایا کیا جائے اور عوام کی صحتوں کو ہر صورت تحفظ فراہم کیا جائے۔ اس کے لیے راست اقدامات وقت کی اہم ضرورت محسوس ہوتے ہیں۔

جواب دیں

Back to top button