ہم مردہ قوم ہیں

امتیاز احمدشاد
اللہ تعالیٰ نے ہم پاکستانیوں کو بہت ساری خوبیوں سے نوازا ہے۔ ہماری سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ ہم میں کوئی خرابی نہیں، اگر ہے بھی تو ہم انہیں کبھی تسلیم نہیں کرتے اس لئے انہیں دور کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ہم اپنی غلطیوں کا کبھی اعتراف نہیں کرتے لہٰذا انہیں بار بار دہراتے رہتے ہیں۔ بونگیاں مارنے میں ہمارا کوئی ثانی نہیں۔ ہم میں کچھ اچھا کرنے کی صلاحیت ہو یا نہ ہو لیکن تنقید برائے تنقید میں ہمارا کوئی ثانی نہیں۔ ہم نے اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ رکھی ہے لیکن دور کی کوڑی لانے میں ہمارا کوئی جواب نہیں۔ ہمیں اس بات کا اندازہ ہی نہیں کہ ہم کسی اندھے کنویں کے گرد مسلسل ایک ہی دائرے میں گھومتے جارہے ہیں لیکن تصور یہ کرتے ہیں کہ ہم ہی قافلے کے سالار ہیں۔ ہم نے اپنے کان بھی بند کر رکھے ہیں، ایسے میں اگر ہمیں کوئی آواز سنائی بھی دے رہی ہے تو وہ ہمارے ہی گلے میں بندھی گھنٹی کی ہے۔ ہم اس گھمنڈ میں گرفتار ہیں کہ اللہ کا ہم پر خاص کرم ہے۔ ہم نے اس خیال کو اپنے ایمان کا حصہ بنا رکھا ہے کہ ہم اللہ کے خاص بندے ہیں جن سے وہ دنیا کی امامت کا کام لینے والا ہے۔ یہی سوچ کر ہم نے از خود دنیا جہان کے سرخاب کے پر اپنے بدن پر سجا لئے ہیں اور اپنے لئے ایسے شاندار القاب کا انتخاب کر رکھا ہے جن کے مفہوم سے بھی ہم نا آشنا ہیں!
دنیا میں تقریباَ 197خود مختار ممالک ہیں جن میں اسلامی ملکوں کی تعداد 57ہے۔ ان اسلامی ملکوں میں پاکستان ہی کو یہ فخر حاصل ہے کہ وہ ایک اسلامی جمہوریہ ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ عرب ممالک کی اکثریت اسلامی کے بجائے عرب ریاستیں یا جمہوریائیں کہلوانا زیادہ پسند کرتی ہے۔ ان 57اسلامی ملکوں میں بھی صرف پاکستان ہی کو ’’ مملکت خداداد‘‘ یعنی خدا کی عطا کردہ مملکت ہونے کا شرف حاصل ہے۔ لیکن یہ بات سمجھ سے بالاتر کہ بنگالیوں کو کیا سوجھی کہ انہوں نے بہت سارے خون خرابے کے بعد اس مملکت خداداد سے علیحدگی اختیار کرکے اپنے آپ کو خدا کی رحمتوں سے محروم کر دیا؟ ہم بڑے فخر سے پاکستان کو ’ اسلام کا قلعہ‘ کہتے ہیں۔ اگرچہ یہ واضح نہیں کہ ایک ایسے ملک کو اسلام کے قلعے کا خطاب کس نے، کیوں اور کب دیا؟ جہاں ہر مخالف فرقے نے دوسرے پر فتویٰ صادر کر رکھا ہے۔ جہاں ایک دوسرے کو جہنمی قرار دینے کی خاطر بڑی باقاعدگی سے فتووں کا جمعہ بازار لگتا ہے۔ جہاں اسلام کے نام پر بڑی بے دردی سے مخالفین کی گردنیں کاٹی جاتی ہیں۔ جہاں عبادت گاہیں محفوظ نہیں۔ جہاں قبروں سے مردوں کی ہڈیاں نکال کر بیچی جاتی ہیں۔ جہاں کتے، بلیوں سمیت تمام مردار اور مردہ جانوروں کا گوشت بڑی بے شرمی سے فروخت ہوتا ہے۔ جہاں مردار جانوروں کے دانتوں سے انسانی دانت بنوائے جاتے ہیں اور ان کی چربی سے گھی بنا کر فروخت کیا جاتا ہے۔ جہاں کھاد، کیمیکل اور بال صفا پائوڈر کی آمیزش سے بچّوں کا دودھ تیار ہوتا ہے اور جہاں مقدس تہواروں پر اشیاء ضروریہ کی قیمتوں کو ثواب سمجھ کر بڑھایا جاتا ہے۔ ہم ایک ایسے ملک کو اسلام کا قلعہ کہہ کر کیا ثابت کرنا چاہ رہے ہیں جس کا شمار دنیا کے چالیس کرپٹ ترین ملکوں میں سب سے نمایاں ہوتا ہے؟ جہاں جعلی ڈگری سے لے کر جعلی مینڈیٹ تک کا سفر طے کرنے والے بدعنوان سیاستدان اسمبلیوں میں پہنچ کر ملک اور عوام کے لئے قانون سازی کرتے ہیں۔ جہاں مفتیان کرام اسلامی بینکاری اور مضاربہ کے نام پر فتوے فروخت کرکے سادہ لوح مسلمانوں کے اربوں روپے ہڑپ کر لیتے ہیں۔ ہر دوسرے قدم پر کوئی بھکاری ہاتھ پھیلائے کھڑا دکھائی دیتا ہے، لاکھوں بچّے، بوڑھے اور جوان راتوں کو فٹ پاتھوں پر سونے کے لئے مجبور ہیں۔ جہاں مائیں اپنے بھوکے بچّوں کی خاطر خیرات یا امداد حاصل کرنے کی کوشش میں پیروں تلے کچلی جاتی ہیں اور متعدد حوا کی بیٹیاں دو وقت کی روٹی کے حصول کے لئے عزتیں نیلام کرتی ہیں۔ جہاں کے دفتروں میں رشوت کے بغیر کوئی کام نہیں ہوتا۔ جہاں قانون کے رکھوالے خود ہی قانون کی دھجیاں اڑا نے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ جہاں چوکیدار چوروں کے ساتھ مل کر نقب لگاتے ہیں۔ جہاں امیر اپنے کتوں کو بھی درآمد شدہ خوراک کھلاتے ہیں لیکن غریبوں کے بچّے کچروں کے ڈھیر پر اپنی روزی تلاش کرنے پر مجبور ہیں۔ ہمیں اس بات پر بھی بہت ناز ہے کہ ہمارا ملک پاکستان اسلامی دنیا کی واحد ایٹمی طاقت ہے لیکن ہم اس بات کا ذکر کرنا بھول جاتے ہیں کہ دنیا کے 120ممالک میں کئے گئے سروے کے مطابق پاکستان شرح خواندگی میں 113ویں نمبر پر ہے۔ ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کی 60فیصد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے جبکہ پانچ سال سے کم عمر کے 31فیصد بچوں کو مناسب خوراک تک دستیاب نہیں۔ ہم اپنی عوام کو ضرورت بھر بجلی بھی مہیا کرنے کے قابل نہیں۔ بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ سے ملک کے متعدد کارخانے نہ صرف بند ہونے کے قریب ہیں بلکہ بہت سے یہاں سے شفٹ ہو چکے۔ ہم تو ڈینگی مچھر اور کانگو وائرس تک کا مقابلہ نہیں کر سکتے جن کی وجہ سے ہر سال سیکڑوں لوگ جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔ ہسپتالوں میں صحت کی سہولیات میسر نہ ہو نے کی وجہ سے غریب ایڑیاں رگڑنے پر مجبور ہیں جبکہ حکمران اور امراء علاج معالجے کے لئے بیرون ملک جانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ بچوں میں اموات کی شرح کے لحاظ سے پاکستان دنیا میں 25ویں نمبر پر جبکہ جنوبی ایشیاء میں سر فہرست ہے۔ ڈبلیو ایچ او کے مطابق ملک کی تقریباَ نصف آبادی پینے کے صاف پانی سے محروم ہے جبکہ 22فیصد لوگوں کو ٹوائلٹ کی سہولت تک میسر نہیں۔ دہشتگرد پاکستان بھر میں ریاست کی عملداری کو چیلنج کرتے پھر رہے ہیں جبکہ ریاست ان کی منتیں کرنے پر مجبور ہے۔ ہمارے حکمران ملک میں جاری بدامنی کو بیرونی قوتوں کی سازش قرار دیتے ہیں لیکن وہ ان سوالوں کے جواب دینے سے قاصر ہیں کہ اگر ہم ایٹمی طاقت ہوتے ہوئے بھی بیرونی قوتوں کی بدمعاشیوں کو لگام نہیں دے سکتے تو ایسے ایٹمی پروگرام پر عوام کے خون پسینے کی کمائی خرچ کرنا کہاں کی دانشمندی ہے؟ اب تو ہماری یہ حالت ہو گئی ہے کہ ہم کسی کو اپنی ایٹمی صلاحیت سے مرعوب کرنے کی پوزیشن میں ہی نہیں رہے۔ جبکہ دوسری طرف ہم 28مئی والے ہیں اور تم 9مئی والے ہو کی نفرت بھری صدا نے پورے ملک کی ٗفضا کو آلود کر رکھا ہے۔ ہماری ایک بڑی خوبی یہ بھی ہے کہ ہم اپنے آپ کو عقل کل سمجھتے ہیں اس لئے تنقید بالکل برداشت نہیں کر سکتے۔ کوئی ہماری خامیوں کی نشاندہی کرے تو ہم جھٹ سے اس پر غدار وطن اور اسلام دشمن ہونے کا فتویٰ لگا دیتے ہیں۔ اگر ہمیں واقعی ایک باوقار قوم بننا ہے تو ہمیں اپنی غلطیاں سدھارنی ہونگی، اپنی خامیوں کو دور کرنا ہوگا، تنقید کو تحمّل کے ساتھ برداشت کرنا ہوگا اور منافقت ترک کرنا ہو گی ورنہ صرف بڑھکیں مارنے اور شیخیاں بگھارنے سے کام نہیں چلے گا۔