اتحادی لیکن رویے مختلف کیوں

تحریر : تجمل حسین ہاشمی
ہمارے ہاں دوسروں کی زندگی کے تجربے سے کوئی نہیں سیکھتا۔ ویسے ایسی نمونے بازی ترقی پذیر ممالک میں نظر آتی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں کسی کے پاس اتنا وقت کہاں کہ وہ دوسروں کی زندگی میں جھانکتا پھرے۔ وہاں شہریوں کی تربیت کا کام سرکار کے ذمہ ہے۔ وہاں انسانوں کو آئین کا پابند بنایا گیا ہے۔ وہاں حقوق مقدم ہیں۔ جہاں قانون حرکت میں ہو وہاں انسانی کے رویوں کا عمل دخل محدود ہو جاتا ہے۔ معاشرے کا کردار اپنے مدار میں رہتا ہے۔ ہمارے جیسے کمزور معاشرے کو اچھے رویوں کی ضرورت ہے اور اس کی پذیرائی بھی ضروری ہے۔ ہمیں اچھے رویوں کی ضرورت ہے تاکہ مضبوط معاشرہ جنم لے۔ مضبوط معاشرتی قدروں کو بیرونی یا اندرونی فیکٹر متاثر نہیں کر سکتے۔ فرد کی کردار سازی پر کسی سیاسی یا مذہبی جماعت نے توجہ نہیں دی اور نہ ہی تعلیمی اداروں نے اس پر کام کیا ہے۔ آج بھی آدھی آبادی ٹریفک کے رولز، نشانات سے لا علم ہے جبکہ یہ ایک بنیادی ذمہ داری ہے جو کہ ابتدائی تعلیم میں ہی معلوم ہو جانی چاہئے۔ ہمارے جیسے معاشرہ میں کئی کام شعور پر ڈالے دئیے جاتے ہیں۔ ریاست بھی بری الذمہ ہو جاتی ہے۔ ہمارا قانون بھی کئی خدشات کو شعور پر ڈال دیتا ہے۔ آئینی و قانونی ذمہ داریوں کی کسی کو پروا نہیں ہے۔ طاقت کے زور پر رویوں کی پرورش ہو رہی ہے، درست اور غلط کا فرق ختم ہو چکا ہے۔ ایسی صورتحال ملکوں کو تباہی کی طرف لے جاتی ہے والدین کے علاوہ یہ ایک اجتماعی مسئلہ ہے۔ ملکی آبادی کا 60فیصد اس وقت روٹی کے چکر میں سرگرداں ہے۔ ناکام پالیسیوں سے فرد واحد کا رویہ بھی متاثر ہے۔ اس لیے ہمارے ہاں کا فرد اپنے ممکنہ ٹارگٹ کے حصول میں جلدی تھکاوٹ کا شکار ہو جاتا ہے پھر منزل اس کے آگے اور وہ پیچھے پیچھے ہوتا ہے۔ ملکی وسائل طاقتور سلب کر چکا ہے اور مسلسل وار جاری ہیں۔ تمام سیکٹرز پر طاقتور قابض ہیں۔ ہمارے ہاں انسان ٹھوکروں کے بعد سیکھتا ہے۔ دنیا بھر میں ایسا نہیں ہے۔ وہاں انسانی رویوں کی تربیت کی جاتی ہے اور ہم دوسروں کے رویوں سے سیکھنے کی باتیں کرتے ہیں۔ وہاں ٹھوکریں نہیں بلکہ سچائی، خوش اسلوبی اور ایمانداری پر زندگی چل رہی ہے۔ ہمارے ہاں جھوٹ، فریب اور رشوت سے نظام چل رہا ہے۔ ہمیں کامیابی کے لیے کم از کم 10سال کا وقت چاہئے ہو گا۔ وہاں ہر فرد کامیاب ہے۔ ہمارے ہاں آدھی زندگی کے بعد کامیابی کی سمجھ آتی ہے جب ٹانگوں میں جان نہیں رہتی۔ کاروباری ناہمواریوں سے نئی نسل کو اپنے بہتر مستقبل میں مشکلات کا سامنا ہے۔ حکومتی انصاف کمزور ہو چکا ہے۔ جس کے اثرات سے معاشرہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ اس وقت کوئی کسی کی نصیحت نہیں سنتا۔ سینئر صحافی و رائٹر رئوف کلاسرا نے کیا خوب کہا کہ لوگ آپ کی رائے سے خود کی رائے نہیں بدلتے بلکہ اپنی رائے کی آپ سے تصدیق چاہتے ہیں۔ اگر آپ نے ان کی رائے کے بر خلاف مشورہ دیا تو کبھی بھی اس پر عمل نہیں کریں گے۔ معاشرے کی حقیقت کو کلاسرا صاحب نے چند الفاظ میں پرو دیا ہے۔ ہمارے ہاں ہر کوئی جلدی کامیابی چاہتا ہے۔ لیکن ملکی صورتحال اور معاشرہ میں دوسرے کے حقوق کی پامالی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ہمارے ہاں مال کی فراوانی، اس کی کثرت کو کامیابی سمجھا جاتا ہے۔ دوسروں کے رہن سہن، گاڑی بنگلہ سے بہت جلد متاثر ہوتے ہیں۔ کبھی یہ نہیں سوچا کہ ان آسائشوں کے لیے سالوں محنت درکار ہے۔ کچی کلاس ( مونٹیسری) سے چودہ یا سولہ جماعتوں تک کسی نجی یا سرکاری تعلیمی ادارے نے بچوں کی اخلاقیات پر کام نہیں کیا۔ معاشرتی ناہمواریوں نوجوان، بچوں کو کیسے محفوظ بنانا ہے۔ کاروباری مواقعوں کے لیے ذہن سازی نہیں کی جاتی، ہمارے طلبہ و طالبات کو بدلتے حالات سے
متعلق کوئی خاص آگاہی نہیں دی جاتی۔ بس کتابوں کا بوجھ ڈالا ہوا ہے۔ نوجوان کا کردار ملکی معیشت میں انتہائی کمزور سطح پر نظر آ رہا ہے۔ جو باہر جاتا ہے واپسی کا نام نہیں لیتا۔ حکومت کے پاس عوامی مسائل کے حل کا کوئی حل نہیں۔ نوجوان طبقہ اس وقت بے روزگار بیٹھا ہے۔ وہ دولت کی غیر مساوی تقسیم سے متاثر ہے۔ اس کے ہاتھوں میں دنیا کی تیز ترین ٹیکنالوجی موجود ہے لیکن اس کے پاس وہ مہارت نہیں ہے جس کے استعمال سے وہ روزگار کما سکے۔ گزشتہ چند سال سے وفاق اور صوبائی سطح پر نوجوان کے لیے ٹیکنیکل، سکلز پروگرام کرائے جا رہے ہیں۔ گورنر سندھ کامران ٹیسوری کی طرف سے بہت بڑا پروگرام شروع کیا گیا ہے جس میں بچوں اور بچیوں کو آئی ٹی سے متعلق کورس کرائے جا رہے ہیں۔ حکومت تمام نجی اور سرکاری تعلیمی اداروں کو پابند کرے کہ وہ بھی آئی ٹی کورسز کرائیں۔ دس سالہ پروگرام مرتب کیا جائے اور اس پر کسی طاقتور مافیا کو ٹھیکیدار نہ بنایا جائے بلکہ سرکار نگران ہو۔ یہی صورت باقی ہے کہ ملک کو معاشی طور پر مضبوط کیا جائے۔ حکمران طبقہ اپنے اثاثے واپس لا کر ثابت کرے کہ وہ پاکستان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ایس ائی ایف سی کی طرف سے غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے اقدامات جاری ہیں ۔ انویسٹر کو ساز گار ماحول کی یقین دہانی کرائی جا رہی ہے ۔ ایک امید ظاہر کی جا رہی ہے کہ آگے سالوں میں کافی بہتری ممکن ہے اگر سیاسی حالات کی گرمائش میں کمی رہی۔ اداروں کو بھی آئین کی بحالی کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ ریاست کبھی کمزور نہیں ہوتی جب تاکہ ملکی مفادات پر ذاتی مفادات غالب نہ آ جائیں۔ ہمارے ہاں قومی منصوبوں کو سیاست زدہ کیا جاتا رہا اور آج قوم ان فیصلوں کی وجہ مہنگائی، لاقانونیت برداشت کر رہی ہے۔ کئی سال تک پرائی جنگ میں خود کو زخمی کیا گیا۔ کئی سو خاندانوں بے گھر ہوئے۔ ہزاروں جنازے اٹھائے گئے۔