ColumnImtiaz Aasi

امہ اتحاد کے داعی ابراہیم رئیسی کی شہادت

تحریر : امتیاز عاصی
ایران کے صدر ابراہیم رئیسی اور ان کے رفقاء کی ہیلی کاپٹر حادثے میں شہادت پر ہر آنکھ پر نم ہے۔ جناب رئیسی گزشتہ ماہ پاکستان کے دورے پر آئے تھے انہیں کیا پتہ تھا ان کا پاکستان کا یہ دورہ پہلا اور آخری ہے۔ موت اٹل حقیقت ہے جس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا حق تعالیٰ کے سو ا کوئی نہیں جانتا اسے کس وقت موت آئے گی۔ حضرت علیؓ کا فرمان ہے موت زندگی کی خود حفاظت کرتی ہے۔ حضرت خالد بن ولیدؓ نے امہ کے لئے جو پیغام چھوڑا تھا کہ موت لکھی نہ ہوتی موت خود زندگی کی حفاظت کرتی ہے جب موت مقدر ہو تو زندگی دوڑتی ہوئی موت سے لپٹ جاتی ہے۔ زندگی سے زیادہ کوئی جی نہیں سکتا اور موت سے پہلے کوئی مر نہیں سکتا۔19 مئی کو صدر رئیسی کا ہیلی کاپٹر آذربائیجان کی سرحد پر واقع شہر خلفا کے قریب گر کر تباہ ہو گیا جس کے نتیجہ میں ایران کے صدر اور وزیر خارجہ سمیت کئی دوسرے اہل کار حادثے میں شہید ہو گئے۔ صدر ابراہیم رئیسی ایران کے دوسرے صدر تھے جو اپنے منصب پر انتقال کر گئے۔ محمد علی رجائی کے بعد جو 1981ء میں ایک بم دھماکے میں شہید ہوئے تھے۔ ایران کے شہید ہونے والے صدر ابراہیم رئیسی 1960ء میں ایران کے مشہور شہر مشہد میں پیدا ہوئے اور 19مئی 2024ء کو چونسٹھ سال کی عمر میں ہیلی کاپٹر کے حادثے میں اپنے ساتھیوں سمیت شہید ہو گئے۔ ان کی شہادت پر ایران میں پانچ روزہ سوگ کا اعلان کیا گیا جب کہ پاکستان نے ایک روزہ سوگ کا اعلان کیا۔ شہید ابراہیم رئیسی دراصل امت مسلمہ کے اتحاد کے بہت بڑے داعی تھے ان کی شہادت سے عالم اسلام ایک عظیم رہنما سے محروم ہو گیا۔ جناب رئیسی آذربائیجان کے سرحدی علاقے میں ایک ڈیم کے افتتاح کے بعد واپس آرہے تھے کہ تبریز سے سو کلو میٹر دور ضلع اوزی پیر داد قصبے کے علاقے میں ان کا ہیلی کاپٹر پرواز کرتے ہوئے ان کے ہیلی کاپٹر کا دوسرے ہیلی کاپٹر سے رابطہ منقطع ہو گیا تھا۔ ان کی شہادت پر امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان کا کہنا ہے حادثے پر ایرانی قوم کے ساتھ کھڑے ہیں تاہم ایران پر عائد پابندیوں میں نرمی نہیں ہو گی۔ امریکی وزارت خارجہ کا کہنا ہے ایران نے چار دہائیوں پرانا ہیلی کاپٹر کیوں استعمال کیا حادثے کا ذمہ دار خود ایران ہے۔ صدر ابراہیم کی
شہادت کے بعد ایران میں صدارتی الیکشن کے لئے 28جون کی تاریخ مقرر کی گئی ہے۔ قیام پاکستان کے بعد ایران پہلا ملک تھا جس نے پاکستان کو تسلیم کیا تھا۔ پاکستان اور ایران کے درمیان سرحدی معاہدہ دو مرتبہ ہو۔ پہلا معاہدہ صدر میجر جنرل اسکندر مرزا اور وزیراعظم فیروز خان نون کے دور میں 1958ء میں ہوا جب کہ دوسرا معاہدہ ایوب خان کے دور میں 1963ء میں ہوا جس میں پاکستان نے کئی ہزار مربع میل علاقہ ایران کے حوالے کیا جو زہدان معاہدے کے تحت ہوا جس میں پاکستان کی طرف سے ایران میں سفیر اختر حسین اور ایران کی طرف سے میجر جنرل امان اللہ جہانیاں اور گورنر جنرل ایرانی بلوچستان نے دستخط کئے تاہم یہ معلوم نہیں ہوا وہ کون سے علاقے تھے۔ دونوں ملکوں کے تعلقات بہت پرانے ہیں1965اور 1971پاک بھارت جنگ کے دوران ایران نے پاکستان کا بھرپور ساتھ دیا ہمارے طیارے تہران کے ہوائی اڈے سے فیول لے کر بھارت پر حملہ آور ہوتے تھے۔28مئی1998 کو پاکستان نے ایٹمی دھماکے کئے تو ایران میں باقاعدہ جشن منایا گیا۔ اگرچہ بھارت کے ساتھ ایران کے دوستانہ
تعلقات پر پاکستان میں تشویش پائی جاتی ہے لیکن پاک ایران گیس پائپ لائن کا منصوبہ دونوں ملکوں کے درمیان دوستانہ تعلقات کا عکاس ہے۔ ایران اپنے حصے کی پائپ لائن بلوچستان کے بارڈر تک بچھا چکا ہے پاکستان امریکی پابندیوں کے باعث پائپ لائن ابھی تک نہیں بچھا سکا ہے۔ دونوں ملکوں کے ساتھ قریبا ایک ہزار کلو میٹر سرحد ہے 2013تک سرحد پر کوئی فوجی تعینات نہیں تھا دونوں ملکوں کے درمیان ڈیفنس پیکٹ کے تحت پہلی مرتبہ سیکیورٹی جیسے اقدامات اٹھائے گے اور دونوں ملکوں کی باہمی رضامندی سے سرحد کے کچھ حصہ پر باڑ لگائی گئی ہے۔ افغانستان اور بھارت میں پاکستان کے علیحدگی پسند اور شدت پسند گروپ ایران کے کچھ علاقے میں جا کر پناہ لیتے رہے جو دونوں ملکوں کے انتظام سے باہر ہیں جیش العدل کو پاکستان اور ایران دونوں اپنے لئے خطرہ سمجھتے ہیں۔ پاک ایران کے دوستانہ تعلقات کی تاریخ بہت پرانی ہے شہنشایت کے دور میں شاہ ایران پاکستان کے دورے پر آئے تو ان کا والہانہ استقبال کیا گیا ہزاروں کی تعداد میں سکولوں اور کالجوں کے طلبہ اور طالبات نے اس وقت کے چک لالہ کے ہوائی اڈے پر معزز مہمان کا استقبال کیا۔ حکومت نے آج کل جو مری روڈ ہے اسے شاہ رضا شاہ پہلوی کے نام سے منسوب کیا۔2021میں صدر منتخب ہونے کے بعد صدر رئیسی نے اخلاقی قوانین کو سخت کرنے کا حکم دیا۔ حکومت مخالف مظاہروں کے خلاف خون ریز کریک ڈائون کی نگرانی کی اور عالمی طاقتوں کے ساتھ جوہری معاہدوں پر زور دیا۔ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کا انہیں بہت قرب حاصل تھا۔ دراصل ایران کا سیاسی نظام مذہبی قیادت اور حکومت کے درمیان منقسم ہے جس میں تمام اہم فیصلے کرنے کا اختیار صدر کی بجائے سپریم لیڈر کا ہوتا ہے۔ صدر ابراہیم کا سیاسی کیرئیر انقلاب ایران کے برسوں بعد شروع ہوا اقتدار سنبھالنے کے بعد انہیں مظاہروں اور کشیدگی کا سامنا کرنا پڑا انہوں نے ایسے الیکشن میں اقتدار سنبھالا جس میں ملک کے آدھے لوگ الیکشن سے دور رہے۔ مارچ2023 ایک تقریب میں ایران اور سعودی عرب نے حریت انگیز طور پر معاہدے کا اعلان کیا جس کے تحت دونوں ملکوں کے سفارتی تعلقات بحال ہوئے۔ ایران کی بادشاہت کا تختہ الٹنے والے ایران کے اسلامی انقلاب کے تناظر میں انہیں بیس سال کی عمر میں تہران کے قریب شہر کا پراسیکیوٹر جنرل مقرر کیا گیا۔ بہرکیف صدر ابراہیم رئیسی کا دور تنازعات سے بھرپور رہا، اقتدار سنبھالنے کے بعد کئی سال تک انہیں مظاہروں اور کشیدگی کا سامنا کرنا پڑا جسے انہوں نے کمال حکمت عملی سے کنٹرول کیا۔

جواب دیں

Back to top button