Column

روح کا داغ

تحریر : علیشبا بگٹی
سلطان محمود غزنوی اپنے کچھ سپہ سالاروں کے ساتھ جنگل کے راستہ سے بھٹک گئے، عصر سے وقت تیزی سے سورج ڈھلنے کی طرف گزر رہا تھا۔ سلطان جنگل میں راستہ تلاش کرنے میں سرگرداں تھے۔ کہ ایک ہندو دھرم کی شہزادی پر نگاہ پڑی جو اپنی کنیز کے ساتھ شاید شکار پر نکل آئی تھی۔ اکیلی شہزادی اور اسکی کنیز اس چیز سے بے خبر دریا کے کنارے پائوں ڈبوئے بیٹھیں تھیں کہ ان کے پیچھے ایک جنگلی ریچھ پہنچ چکا ہے۔ اس وقت تک کے سلطان کا تیر اس کے حلق سے آر پار ہوتا۔ وہ ریچھ شہزادی کی کنیز کو ایک ہاتھ کے پنجے سے ضرب دے چکا تھا۔ اس سے پہلے شہزادی اپنا ترکش سنبھالتی اور تیر کمان میں لگاتی شاید بہت دیر ہو جاتی۔ سلطان محمود غزنوی نے پے در پے تین تیر اس جنگلی درندے پر دے مارے جس سے وہ ڈھیر ہو گیا۔ شہزادی کو یہ جاننے میں مشکل نہ ہوئی کہ اس مہارت اور بہادری کا مظاہرہ کوئی جنگجو سپہ سالار ہی کر سکتا ہے۔ شہزادی سلطان کی طرف متوجہ ہوئی اظہار تشکر کے لئے اپنا تعارف کراتے ہوئی بولی میرا نام سمرتی ہے۔ میں جے پور ریاست کے راجہ کی اکلوتی بیٹی ہوں۔ میری جان بچانے کا شکریہ۔۔ میں تمہیں اپنے پتا سے کہہ کر فوج میں کوئی اعلیٰ عہدہ دلا دوں گی۔۔ ویسے تم ہماری فوج کے سپاہی لگتے نہیں ہو بتائو کہاں سے تعلق ہے تمہارا ؟ سمرتی شاید یہ نہیں جانتی تھی۔ کہ اس کے سامنے کوئی معمولی سپاہی نہیں بلکہ اس وقت کے سب سے طاقتور اسلامی لشکر کے سربراہ سلطان محمود غزنوی ہیں جن کے نام سے ہی ہندو راجائوں کے حلق خشک ہو جاتے ہیں۔ سلطان نے مختصراً اپنی شناخت ظاہر نہ کرتے ہوئے کہا جی کسی اور فوج کا سپاہی ہوں۔ چلئے محترمہ میں آپ کو کسی محفوظ مقام پر پہنچا دوں گا۔ آپ میرے پیچھے چلتی جائیں، اندھیرا بڑھتا جا رہا ہے، راستہ نہ ملا تو شاید اسی جنگل میں رات بسر کرنی پڑے گی۔ شہزادی سمرتی جان چکی تھی کہ یہ شخص لالچ اور خوف سے پاک ہے، وہ سلطان کی نظروں میں حیا دیکھ کر خود کو محفوظ محسوس کر رہی تھی۔ جنگل کی خاردار جھاڑیوں کی وجہ سے شہزادی کا پیراہن مختلف جگہ سے چھلنی ہو چکا تھا، شہزادی تھکاوٹ سے چور ہو چکی تھی۔ سلطان نے شہزادی کو ایک سخت پتھروں اور درختوں کی اوٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، شہزادی آپ ادھر آرام کر لیں رات کی تاریکی بڑھ رہی ہے اور موسم میں بھی تغیر کے آثار ہیں اندھیرے میں مزید سفر گھنے جنگل میں کرنا دشوار ہے۔ علی الصبح نکلیں تو شاید میں آپ کو کسی محفوظ مقام پر پہنچا سکوں۔ سمرتی کے پاس سلطان پر اعتماد کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہ تھا۔ سلطان نے محسوس کیا شہزادی اپنے بیش قیمت مگر قدرے باریک لباس میں جنگل کی ٹھنڈی رات شاید نا گزار سکے سلطان نے اپنی موٹی چادر شہزادی کی طرف اچھال دی اور معنی خیز نظروں سے شہزادی کو دیکھا جیسے کہہ رہے ہو یہ اوڑھ لیں، شہزادی نے بلا جھجک چادر اوڑھی اور ٹیک لگا کر درختوں کی اوٹ میں پائوں پسار لئے اس کی نظریں سلطان کے چہرے کی طرف جمی ہوئی تھیں جو نظریں جھکائے ایک قریب پڑے بڑے پتھر پر بیٹھ کر آگ جلانے کی کوشش کر رہے تھے۔ بالآخر آگ جل گئی اس کی روشنی میں سلطان کا نورانی اور بھرا ہوا وجاہت والا چہرہ چمک رہا تھا۔ سلطان نے شہزادی سے قطعہ نظر مٹی سے تیمم کیا اور نماز پڑھنے لگے۔ شہزادی کو جھٹکا لگا اوہ یہ تو مسلمان لگتے ہیں۔ ایک دفعہ شہزادی کانپ گئی۔ کہیں غزنی کے لشکر سے تو نہیں، یہ تو لٹیرے ہیں۔ گائے، بھینس، بکری سب کا مانس کھاتے ہیں، یہ مجھے زندہ نہیں چھوڑیں گے، لیکن اگلے ہی لمحے شہزادی اب تک اس کے ساتھ گزرے وقت کو یاد کرنے لگی اگر یہ اتنا ہی سفاک اور ظالم ہوتا تو مجھے ریچھ سے نہ بچاتا نہ چاہتے ہوئے بھی شہزادی کا دل پھر سے اطمینان و یقین سے بھر گیا۔۔۔۔۔ سلطان نماز کے بعد دعا کرتے وقت زارو قطار رونے لگے روتے روتے سلطان نے اپنے خنجر کی نوک اپنے پائوں کے انگوٹھے پر رکھ کر اس کو دبا دیا۔۔۔۔ شہزادی دیکھتی رہی کہ یہ جوان مرد مجھ سے گفتگو میں بے تکلف نہیں ہونا چاہتا۔ علی الصبح سلطان نے شہزادی سے کہا اب ہمیں نکلنا چاہئے، کچھ دور جا کر سلطان کو ایک سفید پتھر پڑا ملا جو سلطان کے سپاہی نشانی چھوڑ گئے تھے کہ راستہ اسی طرف ہے۔۔۔۔۔ یہ اس زمانے کا ایک طریقہ تھا کہ جنگل میں پتھر چھوڑتے جاتے تا کہ پیچھے آنے والا راستہ جان سکے کہ گزرنے والا کہاں سے انکا ساتھی گزرا ہے۔۔۔۔۔ بالآخر شہزادی اور سلطان ایک ہموار راستہ پر آ پہنچے، کچھ دور ایک چھوٹے سے گائوں کے آثار نظر آ رہے تھے۔ سلطان نے کہا یہ آپ کی ریاست کی حدود کا ہی گائوں معلوم پڑتا ہے۔ شہزادی نے کہا ہاں دیکھتے ہیں۔ گائوں پہنچنے پر شہزادی نے گائوں کے مکھیاء کو بلاوا بھیج دیا، مکھیاء اپنے کچھ ساتھیوں سمیت حاضر ہوا۔۔ شہزادی نے کہا ہمیں دو برق رفتار گھوڑے دے جائیں اور کچھ خشک اناج اس سپاہی کو دیا جائے۔۔۔۔۔ شہزادی نے سلطان سے کہا اجنبی ہمیں بہت حیرت ہوئی ہے، تم پر آخر تم کس مٹی کے بنے ہو، ساری رات تم اپنے خنجر سے زخم کریدتے رہے اور میری طرف کوئی توجہ نہ دی۔ تم چاہو تو ہمارے ساتھ محل چلو ہم تمہیں انعام و اکرام سے بھر دیں گے۔ اپنی جان بچانے کے بدلے میں۔۔۔ سلطان نے گھوڑے پر سوار ہو کر شہزادی سے کہا۔۔۔ شہزادی صاحبہ زخم اس لئے کریدتا رہا کہ آپ کا حسن میرے ایمان کو زد نہ پہنچائے اور میری توجہ میرے درد کی طرف رہے، آپ کی طرف نہ بڑھے_۔۔۔ شہزادی نے کہا تمہیں یہ موقع گنوانا چاہئے تھا، ہم سے خلوت میں ملاقات کیلئے لوگ اپنی ریاستیں دستبردار کرنے کو تیار ہیں۔۔ سلطان نے کہا، شہزادی میں مسلمان ہوں اور محمد مصطفیٰؐ کا غلام ہوں۔۔۔ میری نظر آپ کی جسم پر نہیں بلکہ خود میری اپنی روح پر تھی۔۔۔ شاید میرے جسم سے گناہ کا داغ دھل جاتا لیکن میری روح پر اس گناہ کا داغ لیکر میں اپنے نبی پاکؐ کے سامنے کیسے پیش ہوتا ۔۔۔۔؟ مجھے یہ گوارہ نہیں تھا کیونکہ الحمد للہ میں ایک سچا مسلمان ہوں۔ شہزادی یہ جواب سن کر اس سپاہی کے اپنے سچے مذہب اسلام کے ساتھ لگائو، محبت اور وفاداری دیکھ کر ان کے کردار سے متاثر ہوئے بنا نہ رہ سکی۔ جیسے اس کا دل اسی اجنبی کے مذہب اور زندگی میں شامل ہونے کو بیقرار ہو۔۔ یہ کہہ کر سلطان نے اجازت چاہی۔۔۔ شہزادی اپنا اور اپنی فوج کا نام تو بتاتے جائو، ہم یاد رکھیں گے۔
سلطان نے چادر سے نقاب اوڑھا۔ تیر ترکش کندھے پر ڈالے، تلوار اپنے میان میں ڈالی اور گھوڑے کی رکابیں پکڑتے ہوئے بولے۔ شہزادی میرا نام ہے سلطان محمود غزنوی اور میں ہی غزنی کی عظیم الشان فوج کا سپہ سالار اعظم ہوں، یہ کہہ کر سلطان نے گھوڑے کو ایڑ لگا دی اور سرپٹ دوڑتے ہوئے آنکھوں سے اوجھل ہو گئے۔
آج ہم اور ہمارے حکمران کیسے ہیں؟ ہم سب جانتے ہیں ۔ نہ جانے زندگی قبر اور قیامت کے دن ہمارا معاملہ کیسا ہوگا ؟ نہ جانے ہم اللّٰہ تعالیٰ کے غضب اور دوزخ کی عذاب سے بچ پائیں گے بھی کہ نہیں ؟؟

جواب دیں

Back to top button