Column

پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن والو اپنی ذمہ داریاں کب پوری کرو گے

تحریر : پروفیسر حکیم سید عمران فیاض
وطن عزیز میں شعبہ صحت کے حوالے سے ہمیشہ ہر حکومت نے اس میں بہتری لانے کے دعوے کئے ۔ لیکن عوام کو صحت کی 50فیصد سہولیات بھی شاید ان کو میسر نہ آسکیں ۔
وطن عزیز کے شعبہ صحت میں اس وقت مغربی پیداوار انگریزی میڈیسن ۔ دیسی ادویات ۔ ہومیو پیتھک ادویات سے مریضوں کا علاج کیا جاتا ہے ۔
حکومت پنجاب نے عدالت عالیہ کے حکم پر 2010ء میں پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا ۔ جس کا کام پنجاب سے اتائیت کا خاتمہ کرنا اور شعبہ صحت کی قدر و منزلت کو بحال کرنا ۔ یہ بات درست ہے کہ اس نے اپنے قیام سے لے کر اب تک ہزاروں کی تعداد میں اتائیوں کی دکانوں کو چیک کیا اور بڑی تعداد میں ان کو جرمانے اور دکانوں کو سیل کیا ۔ لیکن ذرائع کے مطابق یہ بھی حقیقت ہے کہ اکثر نے کالی بھیڑوں کی ملی بھگت سے اپنی دکانیں یا تو از خود ڈی سیل کر لیں ۔ یا اپنی شاپ کا نام بدل کر قریب ہی نئی شاپ نئے نام سے کھول لی دوسری طرف پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن نے اپنے قیام سے آج تک شعبہ طب یونانی کے حوالے سے اپنی ذہن کو صاف نہیں کر سکا ۔ کیونکہ اس کہ اندر اس کو چلانے والے شاید ڈاکٹرز ہونے کا عملی ثبوت دے رہے ہیں ۔ کیونکہ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ ’’ مجھاں مجھاں دیاں بہناں ھوندیاں نیں ‘‘، شاید اسی لئے وہ طب یونانی کے خلاف اپنے دل کی بھڑاس نکالتے رہتے ہیں جس کا ثبوت ہمیں اکثر ملتا رہتا ہے ۔ اس کے علاوہ الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا میں ایلوپیتھک میڈیسنز کے حوالے سے بھی ہمارے سامنے مختلف خبریں دیکھنے کو ملتی رہتی ہیں ۔ اس کے علاوہ سرکاری ہسپتالوں میں غریب و نادار لوگوں اور عوام کے ساتھ کیا کچھ ہو رہا ہے ۔ وہ بھی کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔
پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن اور بعض متعلقہ اداروں کے کرپٹ اہلکاروں کی ملی بھگت کے باعث بغیر رجسٹریشن و لائسنس کے کلینکس، شفاخانے، دواخانے، میڈیکل سٹورز، حجامہ سینٹرز،ڈسپینسریاں کھلے عام بڑی ڈھٹائی سے پریکٹس کر رہے ہیں۔ مزید یہ کہ انڈر میٹرک ۔ انگوٹھا چھاپ ڈاکٹر ؍ حکیم ؍ فارماسسٹ ؍ دواساز بنے بیٹھے ہیں ۔ اکثر جگہوں پر انتہائی کم معاوضہ پر کوالیفائیڈ پرسن کو ہائیر کر کے باقی سٹاف نان کوالیفائیڈ لوگوں پر مشتمل ہیلتھ کیئر پروائیڈر کام کر رہا ہے ۔ حالانکہ نیشنل کونسل فار طب سے رجسٹرڈ طبیب ہی جراحی و حجامہ کر سکتے ہیں۔ علاوہ ازیں کہیں صرف جعل سازی سے کوالیفائیڈ پرسن کی سند آویزاں ہے۔ جنہیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ نان کوالیفائیڈ لوگ کوالیفائیڈ پرسن سے کئی گناہ زیادہ تنخواہ وصول کر رہے ہیں ۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ جن اتائیوں کے کلینک، مطب سیل ہوتے ہیں وہ بعد میں ان کرپٹ اہلکاروں کی آشیر باد سے نئے نام سے دکان کھول کر بیٹھ جاتے ہیں اور عوام کی جانوں سے کھیلنے لگتے ہیں۔
اس سلسلہ میں انجمن حقوق عوام پاکستان کی چیف جسٹس آف پاکستان ، وزیراعظم پاکستان ، وفاقی وزیرصحت ، وزیراعلیٰ پنجاب، صوبائی وزیرصحت پنجاب، چیئرمین پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن پنجاب اور متعلقہ اداروں کے محب الوطن افراد سے اپیل ہے کہ اتائیت کے حوالے سے خصوصی اقدامات کریں۔ اور ان سے آہنی ہاتھوں سے نمٹیں۔ مزید یہ کہ جن کلینکس، مطب، میڈیکل سٹورز کی رجسٹریشن ہو چکی ہے، ان پر بھی چیک اینڈ بیلنس رکھنے کے احکامات جاری کریں۔ کیونکہ وہ مریضوں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں۔ جبکہ بعض تو ڈریپ کے فارم 6اور 7کے بغیر ہربل ادویات تیار کرکے دھڑلے سے فروخت کر رہے ہیں ۔ عوامی حلقوں نے اپیل کی ہے کہ پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن کے ایم ایس ڈی ایس کے انڈیکیٹرز اور ایس او پیز پر عملدرآمد نہ کرنے والوں کے خلاف بھی کارروائی کریں۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ ہیلتھ کیئر کمیشن میں موجود بعض کالی بھیڑوں کی وجہ سے اتائیت کم ہونے کی بجائے بڑھ گئی ہے ۔ اوپر سب اچھا کی رپورٹ کر دی جاتی ہے۔ آخر اس اتائیت کا ذمہ دار کون ہے ۔ پنجاب ہیلتھ کیئیر کمیشن کے اندر موجود کالی بھیڑوں اور اتائیوں کے سرپرستوں کے خلاف بھی کارروائی ہونی چاہیے تاکہ عوام کو خطرناک امراض منتقل کرنے والوں کا محاسبہ ہو سکے۔ ان انڈر میٹرک انگوٹھا چھاپ اتائیوں کے خلاف سخت سے سخت کارروائی عمل میں لانی چاہیے جو بڑی دیدہ دلیری سے عوام کا علاج معالجہ کر رہے ہیں ۔

جواب دیں

Back to top button