CM RizwanColumn

نو مئی، وزیراعظم کے لایعنی سوالات

تحریر : سی ایم رضوان
کس قدر مبہم، شرمندگی اور ڈھٹائی سے بھرپور اور ’’ الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے‘‘ کا مصداق ہے وزیراعظم شہباز شریف کا قوم سے یہ سوال ہے کہ کیا وجہ ہے کہ سانحہ نو مئی کے ملزمان کو ایک سال گزرنے کے باوجود سزا نہ مل سکی۔ واضح رہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف کو ایک سال بعد یہ سوال اپنی عظیم ترین نااہلی کی برسی پر ماتم کرتے ہوئے یاد آیا ہے کہ سانحہ نو مئی کے ملزمان تو واقعی ملک دشمن ہیں اور ان ملک دشمنوں سے رعایت برتنا کسی حکمران کا کتنا بڑا جرم ہو سکتا ہے۔ یہ کس قدر افسوسناک مقام ہے کہ اگر ایک سال بعد وہ یہ سوال کرنے کی پوزیشن میں آئے ہیں تو اس سوال کا جواب دینے کا خود کو ذمہ دار اور جوابدہ سمجھنے میں وہ مزید کتنے سال لیں گے۔ قارئین ذرا وزیراعظم کی حساس طبیعت کا اندازہ لگایا جائے کہ وہ ساتھ ہی یہ سوال بھی کر رہے ہیں کہ کیا وجہ ہے کہ ایک سال تک سانحہ نو مئی کے ملزمان کو کٹہرے میں نہ لایا جاسکا اور ان کو آئین اور قانون کے مطابق سزائیں نہ مل سکیں حالانکہ تفتیشی اداروں سے لے کر پراسیکیوشن تک ہر شعبہ جب یہ سانحہ تب بھی اس وقت اس سانحہ کی برسی پر بھی خود وزیراعظم کی ناک کے نیچے کام کر رہا ہے لیکن چونکہ وزیراعظم کی سرتوڑ اور حتیٰ المقدور کوشش یہی ہے کہ وہ جس قدر ہو سکے ہومیو پیتھک وزیر اعظم رہیں اور ملک دشمنوں کو رگڑا دینے کے ضمن میں میاں نواز شریف کی جو تھوڑی بہت عزت ہے اس کو بھی خاک میں ملا دیں۔ سو وہ اپنے مشن کی حد تک تو کامیاب ہیں لیکن اب جبکہ نو مئی 2024کے روز آرمی چیف نے نو مئی کے ملزمان کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار جس انداز اور جن الفاظ میں کیا ہے۔ اب وزیر اعظم کو بھی اپنی سابقہ ’’ سانوں کیہ ‘‘ والی روش بدلنا ہو گی ورنہ وہ جلد ہی فٹ پاتھ پر آ جائیں گے اور اب اگر وہ فٹ پاتھ پر آ گئے تو پھر آئندہ ساری زندگی تک شیروانی کے خواب ہی دیکھیں گے یعنی وزیراعظم والی شیروانی کبھی دوبارہ پہننا نصیب نہیں ہو گی کیونکہ آرمی چیف نے اب اگر اپنا یہ بیانیہ ظاہر کیا ہے کہ نو مئی کے ملزمان ان کے صبر کو لامحدود اور خاموشی کو کمزوری نہ سمجھیں تو یہ صرف پی ٹی آئی کے لئے نہیں بلکہ وزیراعظم اور ملک کے ہر سٹیک ہولڈر کے لئے رونگٹے کھڑے کرنے لئے کافی ہے کہ نو مئی کے سلسلے میں اب روایتی لیت ولعل کسی بھی ادارے یا عہدیدار کے لئے ذلالت اور بڑی تبدیلی کا باعث ہو گا۔
ٹھیک ہے کہ وزیر اعظم نے وفاقی کابینہ کے خصوصی اجلاس میں گفتگو کرتے ہوئے کہہ دیا ہے کہ یہ ہے وہ چبھتا ہوا سوال جو پوری قوم پوچھتی ہے ان تمام اداروں سے جن پر یہ ذمہ داری فرض ہے، قوم پوچھنے میں حق بجانب ہے لیکن پی ڈی ایم حکومت کا وزیر اعظم ہوتے ہوئے اور اب آٹھ فروری کے بعد وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد بھی وہ سانحہ نو مئی کے ملزمان کو پال رہے ہیں اور صرف بیانات کی حد تک نو مئی 2024کو خود کو سخت ترین حکمران ثابت کرنے کی گفتنی کوشش کر رہے ہیں تو اس چالاکی کا مطلب یہ نہیں کہ قوم وزیراعظم سے نہیں پوچھ رہی بلکہ قوم انتہائی سختی سے ان سے سوال کر رہی ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ پی ٹی آئی کاز سے ان کی درپردہ محبت اس قدر گہری ہے کہ وہ بانی پی ٹی آئی کو پچھلے تین ماہ سے جیل میں ایسا پروٹوکول دے رہے ہیں کہ جیسے دامادوں کو سسرال میں ملتا ہے۔ کیا وجہ ہے کہ سانحہ نو مئی کے اکثر نامی گرامی اور بڑے ملزمان ٹی وی پروگرامز میں آ کر خود وزیراعظم اور ان کی پارٹی کی روزانہ کی بنیاد پر مٹی پلید کرتے ہیں کئی اینکر اور ٹی وی چینل تو بیانیہ ہی یہی دے رہے ہیں کہ وہ اکثریتی پارٹی ہے۔ وہ احتجاج کے طور پر ملک کی حساس تنصیبات کو توڑ بھی دیں تو یہ ان کا جمہوری حق ہے یہاں تک کہا جا رہا ہے کہ اینٹوں کی عمارتوں اور تنصیبات کو توڑ دینے سے کیا اندھیر ہو جاتا ہے مگر افسوس کہ یہ سارے بیانات سن کر بھی وزیراعظم کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ یہ سوال بھی بجا ہے کہ شہباز شریف شرمناک حد تک کمزور سربراہ حکومت ہیں کہ پچھلے تین ماہ سے سانحہ نو مئی کے ذمہ داران کو متعدد حکومتی اداروں کی جانب سے کھلم کھلا تحفظ دیا جا رہا ہے اور وزیر اعظم انجان بن کر یوں پھر رہے ہیں کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں حالانکہ اگر دیکھا جائے تو شہباز حکومت ملکی معیشت کی بحالی میں جس قدر محنت کر رہی ہے اس پر روزانہ کی بنیاد پر یہی پارٹی خاک ڈال رہی ہے۔
شہباز شریف نے نو مئی کی برسی پر یہ بھی تسلیم کیا ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں یہ ایک سیاہ دن تھا، ایک ایسا دن جب غازیوں کی یادگاروں پر خوفناک حملے ہوئے۔ شہباز شریف نے کہہ تو دیا ہے کہ وہ اور ان کی کابینہ پوری قوم کو یکسوئی اور اتحاد کے ساتھ یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ ہم اپنے شہدا، ہیروز اور ان کے اہل خانہ کو نہ صرف قیامت تک یاد رکھیں گے بلکہ ان کے لئے والہانہ یکجہتی کا پیغام دیتے ہیں لیکِن وزیر اعظم کو یہ دعویٰ کرتے وقت یاد رکھنا چاہیے کہ سانحہ 9مئی کی برسی کے موقع پر شہداء کے لواحقین نے شدید مایوسی اور بیزاری کے عالم میں آنسوئوں سے نم آنکھوں سے اپنے جذبات کا اظہار کیا ہے۔ کیپٹن طٰہ ہاشمی شہید کی والدہ کا کہنا تھا کہ مجھے فخر ہے کہ اللہ نے میرے بیٹے کو شہادت کے لئے چنا لیکن مجھے یہ بھی دکھ ہے کہ ہمارے شہداء کی املاک کو نقصان پہنچایا گیا، ان کی یادگاروں کو آگ لگا دی گئی۔ شہداء کے مجسموں کی تذلیل کی گئی۔ کیا ان شہداء کی قربانیاں رائیگاں چلی گئیں؟ ان کا استدلال تھا حالانکہ یہ میرا ذاتی معاملہ نہیں پوری قوم کا معاملہ ہے اور تاریخ گواہ ہے کہ جو قومیں اپنے شہداء کی قدر نہیں کرتیں وہ مٹ جاتی ہیں۔ اسی طرح کیپٹن محمد عاقب جاوید شہید کی بہن کا کہنا تھا کہ 9مئی کو شہداء کی یادگاروں کی بے حرمتی کی گئی جو ناقابل برداشت تھا، انہوں نے کہا کہ میں حکومت سے اپیل کرتی ہوں کہ 9مئی کے ذمہ داران کے خلاف سخت کارروائی کی جائے، شہداء کے لواحقین کے لئے ان کے پیاروں کی یادگاروں کی بے حرمتی دیکھنا نہایت تکلیف دہ تھا۔ نائیک اسلام کاشف زبیری شہید کی بہن کا کہنا تھا کہ 9مئی کو ہونے والا سانحہ قابل صد مذمت ہے، میں نہیں سمجھتی کہ اس واقعے کے ذمہ داران مسلمان یا پاکستانی کہلانے کے لائق ہیں، یہ کیسے لوگ ہیں جو اپنے شہداء کی بے قدری کرتے ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف کو یاد رکھنا چاہئے کہ یہ ظلم ان کے دور حکومت میں ہوا اور آج بھی ان کی حکومت ہے اور ایک سال بعد بھی یہ ملک و قوم کے دشمن معافی مانگنے کے سوال پر آگے سے یہ کہہ رہے ہیں کہ الٹا ان سے معافی مانگی جائے۔ یہ بھی ڈھٹائی کی ساتھ کہہ رہے ہیں کہ معافی تو انہوں نے کبھی اپنے باپ سے بھی نہیں مانگی۔ یہ کہہ رہے ہیں کہ سانحہ نو مئی خود فوج نے کیا اور جوں جوں ان کی سہولت کاری شہباز حکومت کر رہی ہے اور عبرتناک سزا میں تاخیر ہو رہی ہے مجرموں کے اس بیانیہ کو تقویت مل رہی ہے مگر شہباز شریف اور موجودہ فوجی کمان مسلسل خاموشی اور اپنے ہی دور اختیار میں فراہم کی جانے والی وسیع البنیاد سہولت کاری پر یوں خاموش ہیں کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ اس حوالے سے ایک مشہور شعر کی پیروڈی ہے کہ ’’ احمق کرتا ہے پرورش برسوں۔ ورنہ دشمن تو کُچھ نہیں ہوتا‘‘ یعنی پی ٹی آئی نامی ملک دشمن ٹولے کی پرورش پہلے قمر جاوید باجوہ رجیم نے اور پی ڈی ایم حکومت نے برسوں تک کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب یہ ٹولہ ملک کے مفادات کے درپے ہے۔ وزیراعظم کا کہنا درست مگر ان کے عمل کے حوالے سے منافقانہ ہے کہ یہ حملے اس لئے کئے گئے کہ مئی 2023میں پی ڈی ایم کی حکومت پاکستان کو ڈیفالٹ سے بچانے کے لئے سر توڑ کوشش کر رہی تھی، شاید یہ حملے نہ ہوتے اگر ان کی کٹھ پتلی حکومت کو ایک آئینی طریقے سے ہٹایا نہ گیا ہوتا، شاید یہ حملے نہ ہوتے اگر پاکستان کے دوست ممالک کے ساتھ جو تعلقات کو خرابی کی آخری حد تک پہنچا دیا گیا تھا اس کو پی ڈی ایم حکومت پوری یکسوئی کے ساتھ دوبارہ بہتر کرنے میں دن رات کوشش کر رہی تھی، اس لئے یہ حملے کئے گئے کہ تعلقات دوبارہ استوار نہ ہوں لیکن شہباز شریف کے اس استدلال کو ان کے دل کی گہرائیوں سے بیان کردہ تبھی تسلیم کیا جائے گا جب وہ اس ملک دشمن ٹولے کو اپنے اس دور حکومت میں اس طرح سے نااہل کر دیں کہ آئندہ اس کو ملک و قوم کی تقدیر سے کھلواڑ کا موقع نہ مل سکے لیکن اگر جمہوری روایات کی پاسداری کے گھسے پٹے بیانیہ کے تحت ان کی سہولت کاری کی روش یوں ہی جاری رہی جس طرح کہ موجودہ حکومت نے پچھلے چند ماہ سے اپنائی ہوئی ہے تو ہم ان کے زیر نظر سوالات کو لایعنی اور سیاسی بیانات ہی قرار دیں گے۔
وزیر اعظم کا کہنا بھی مبہم ہے کہ 9مئی 2023کو شاید یہ حملے نہ کیے جاتے کہ اگر خانہ کعبہ کے ماڈل والی گھڑی اور زیورات اور زمینوں کی خرید و فروخت اور کرپشن کی بھرمار تھی اگر اس کا نوٹس پی ڈی ایم کی حکومت نہ لیتی تو شاید یہ حملہ نہ کیا جاتا۔ حالات شاہد ہیں کہ پی ڈی ایم حکومت تب بھی اسی طرح خاموش تماشائی بنی رہی تھی جس طرح کہ آج کل ہے اور آج بھی خود آرمی چیف کو یہ بیانیہ بنانا پڑا ہے کہ ملک دشمنوں کے ساتھ کوئی ڈیل، ڈھیل، مذاکرات یا معاہدہ نہیں ہو سکتا اور ان کو ہر گز معاف نہیں کیا جائے گا۔ اب حالات کا صحیح تجزیہ تو یہی ہے کہ خود فوج کو ہی یہ سب کرنا ہے اور شہباز شریف کی شرافت سے کسی سختی کی توقع نہیں کی جا سکتی جبکہ فوج نے بھی اگر یہ بیانیہ بنا لیا ہے تو قانون کے صحیح نفاذ کے لئے سخت ترین اقدامات کرنا چاہئیں کہ وطن دشمنوں کا یہ ٹولہ آئندہ ہمیشہ کے لئے بے اثر ہو جائے ورنہ کل کلاں کو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ فوج نے بھی محض وقت گزاری کے لئے یہ بیانیہ بنایا تھا۔

جواب دیں

Back to top button