Ali HassanColumn

کیا اثاثے فروخت کر کے کسی ملک کی معیشت بہتر ہوئی ہے ؟

تحریر : علی حسن
پاکستان کا مستقبل دائو پر لگ چکا ہے۔ ہمیں سود کی ادائیگی کے لئے بھی مزید قرضہ لینا پڑ رہا ہے ایسا پچھلے دو سال میں ہوا ہے پہلے ایسا کبھی نہیں ہوا تھا۔ یہ بیان ایک سابق وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کا ہے۔ مفتاح پاکستان کی معیشت کو بہتر طور پر سمجھتے ہیں اور وقت بوقت حکمرانوں اور عوام کی توجہ مبذول کراتے بھی رہتے ہیں۔ لیکن اس ملک میں تو صورت حال کچھ ایسی ہو گئی ہے کہ حکومتیں ملک کے تمام اہم اثاثے فروخت کرنے کے در پے ہیں۔ وزیرِ اعظم محمد شہباز شریف کا کہنا ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب کے مابین دیرینہ برادرانہ بے مثال تعلقات ہیں، سعودی عرب نے مشکل وقت میں ہمیشہ پاکستان کا ساتھ دیا۔ وزیر اعظم کو یاد نہیں ہے کہ پاکستان نے بھی ایک دور میں آل سعود کی مالی مدد کی تھی جب سعودیوں کے پاس تیل کی فراہمی نہیں تھی۔ اسی طرح نواب بہاول پور نواب سر صادق پنجم نے ذاتی حیثیت میں آل سعود کی پیش بہا خدمت کی تھی۔ سعودی تیل نے ہماری سوچوں کے دھارے بدل دئیے۔ بہاول پور ریاست کے والی نے اپنی ذاتی حیثیت میں بھی سعودیوں کی جو بے دریغ مالی مدد کی تھی، وہ تو تاریخ میں درج ہے۔ سعودی عرب کے وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان سعودی وفد کے ہمراہ وزیرِاعظم ہائوس اسلام آباد پہنچنے پر وزیرِ اعظم محمد شہباز شریف نے ان کا استقبال کے موقع پر یہ بیان دیا ہے۔ وزیرِ اعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ عید الفطر کے فوری بعد سعودی وفد کا دورہ پاکستان خوش آئند ہے، یہ دورہ پاک سعودیہ اسٹریٹجک و تجارتی شراکت داری کے نئے دور کا آغاز ہے ا ن کا کہنا ہے کہ پاکستان سعودی عرب سے تجارت اور سرمایہ کاری کے شعبوں میں تعاون بڑھانے کا خواہاں ہے، پاکستان بیرونی سرمایہ کاری کے فروغ کے لیے اقدامات کر رہا ہے۔ پاکستان برادر ممالک سے شراکت داری کو باہمی طور پر مفید بنانے کے لیے اقدامات کر رہا ہے، پاکستان سعودی عرب کی جانب سے سرمایہ کاری بڑھانے پر سعودی قیادت کا مشکور ہے۔وزیرِ اعظم شہباز شریف نے سعودی وفد کو پاکستان میں سرمایہ کاری کی وسیع استعداد سے آگاہ کیا۔ سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل ایس آئی ایف سی کی اپیکس کمیٹی سے بھی ملاقات میں دو طرفہ سرمایہ کاری پر گفتگو کریں گے اور مختلف معاہدوں پر دستخط بھی ہوں گے۔ دونوں ممالک کے مابین مختلف شعبوں میں تعاون و سرمایہ کاری کے فروغ پر گفتگو ہوئی، وزیر ِ اعظم شہباز شریف نے وفد کو خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کے اقدامات سے آگاہ کیا۔ خواہ شراکت کیسی بھی ہو، ایک بات واضح ہے کہ پاکستان اپنے کئی اہم اثاثے سعودی عرب کے حوالے کرنے کی کوشش میں ہے۔ پاکستان کو فوری مسئلہ اسے رقم کی فراہمی کا ہے تاکہ اپنی ضروریات پوری کر سکے۔ پاکستان میں حکمرانی کرنے والے لوگ جب تک اپنے طور طریقے، اطوار اور رجحانات تبدیل نہیں کریں گے، سرکاری اداروں اور سطح پر اخراجات میں کمی نہیں کریں گے تب تک پاکستان کے معاشی مسائل اپنی جگہ برقرار ہی نہیں رہیں گے بلکہ ان میں اضافہ ہی ہوتا رہے گا۔ پاکستان اپنے تمام اثاثے بھی فروخت کر دے گا تب بھی مسائل میں کمی نہیں آئی گی۔ پاکستان کے اثاثے فروخت کرنے کی بجائے حکمران طبقے کے لوگ اپنے پر آرائشی محلات کیوں نہیں فروخت کرتے ہیں۔ یہ حکمران قرضوں اور ملکی اثاثوں پر ہی نگاہیں کیوں لگائی بیٹھے ہیں؟
پاکستان کے حکمرانوں اور مقتدر حلقوں سے یہ بات کون پوچھے کہ وہ کب تک اس ملک کی معیشت مانگے تانگے پر چلاتے رہیں گے۔ اول تو اپنے اخراجات پر قابو پانے کے لئے کوئی موثر قدم اٹھانے کو تیار نہیں ہے ۔ وزراء کی وفاقی اور صوبائی سطحوں پر بے دریغ بھرتی کی گئی ہے تاکہ حکومتوں کو اراکین اسمبلی کی حمایت حاصل رہے اور وہ اپنی وزارت کے چکر میں پارٹیوں سے بندھے رہیں۔ اس کے بعد وزارتوں کے اخراجات پر کنٹرول پانے کے لئے کسی طور پر غور و فکر کرنے کے لئے کوئی تیار نہیں ہے۔ سیاست کرنے والے لوگ قطرہ قطرہ اور بوند بوند جمع کرکے کام چلانے کے قائل اس لئے نہیں ہے کہ انہیں پیسوں کی فراہمی جاری ہے خواہ وہ پیسے قرض لے کر ہی حاصل کئے جارہے ہوں۔ سعودی عرب جیسے دوست ممالک ان کی مالی دست گیری کرتے رہتے ہیں اور آئی ایم ایف تو دکھاوے کی حیل و حجت کے بعد انہیں ادھار دینے پر رضا مند ہو ہی جاتا ہے۔ عجیب بات ہے کہ پاکستان کے خزانہ چلانے والے لوگ قرضہ ملنے پر بھی بغلیں بجاتے ہیں، خوشی کا بار بار اظہار کرتے ہیں لیکن اپنے طور طریقوں کر بہتر کرنے، بچت کے اقدامات کرنے سے اجتناب ہی برتتے رہتے ہیں۔
اس ملک کی سیاست چلانے والوں نے عوام کی منتخب نمائندوں کے ایوانوں کو اپنے بھائی، بیٹوں، بیٹیوں اور قریب اور دور کے رشتہ داروں کی آماجگاہیں بنا دیا ہے۔ اس ملک میں ایسا لگتا ہے کہ دوسرے لوگ سیاست کرنے کے اہل ہی نہیں ہیں، تمام اہلیت، قابلیت ان ہی لوگوں کو حاصل ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ کئی گھرانے تو حکومت پاکستان کے پیسوں سے ہی چلتے ہیں۔ اگر یہ سوچ درست ہے تو یہ گھرانے ہی پاکستان پر بوجھ بنے ہوئے ہیں۔ خاندان کی بنیاد پر سیاست کرنے والے یہ لوگ کے ایک ایک جوڑے کی قیمت لاکھوں روپے بتائی جاتی ہے۔ ایک ایک جوتے کی قیمت کسی طرح بھی تین اور چار لاکھ سے کم نہیں ہوتی ہے۔ یہ صاحبزادے اور صاحبزادیاں جب عوام سے ملاقات کرنے نظر آتے ہیں تو تصویر دیکھنے والوں کو شرم آتی ہے کہ ان نام نہاد سیاسی رہنمائوں کی عقل کہاں ماری گئی ہے کہ انہیں عوام کی غربت کا احساس تک نہیں ہوتا ہے۔ میں این جی او چلانے والے ایک صاحب کو جانتا ہوں جب وہ تھرپارکر میں اپنی این جی او کے کام کا جائزہ لینے آتے تھے تو دوران سفر ہی اپنی پوشاک تبدیل کر لیتے تھے تاکہ غریب لوگوں کے ساتھ ملاقات میں غریب لوگوں کے احساس کم تری میں اضافہ نہ ہو اور لوگ ا ن کے ساتھ کھل کر بات کر سکیں۔ ہمارے یہ نام نہاد نو دولتئے سیاستدان اپنے ملازمین کے ایک ایسے گھیرے میں چلتے ہیں تاکہ عوام ان سے دور رہیں تاکہ ان کی پوشاک خراب نہ کر دیں۔
پاکستان اس بوجھ کو اب زیادہ عرصہ اٹھانے کے قابل نہیں ہے۔ پاکستان کی درآمدات میں کمی نام نہاد ہے جب کہ برآمدات میں گزشتہ کئی سال سے اضافہ ہی نہیں ہوا ہے۔ در آمدات میں کمی اور بر آمدات میں اضافہ بھی اس ملک کی کمزور معیشت کو مستحکم کرنے کا ایک عمل ہے۔
وزیر اطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری نے حال میں حیران کن دعویٰ کیا ہے کہ عام طور پر وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز 500سے 800روپے میں ملنے والا لان کا جوڑا خرید کر پہنتی ہیں۔ عظمیٰ بخاری کی وائرل ہونے والی مختصر ویڈیو میں انہیں مریم نواز کے فیشن سینس پر بات کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ وائرل ہونے والی مختصر ویڈیو عظمیٰ بخاری کی جانب سے عیدالفطر کے موقع پر مارننگ شو میں شرکت کرنے کی ہے۔ اسی دوران مریم نواز کے فیشن اور میک اپ سے پوچھے گئے سوال پر عظمیٰ بخاری نے کہا تھا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب کسی کی نقل نہیں کرتیں بلکہ سب لوگ انہیں ہی کاپی کرتے ہیں۔ عظمیٰ بخاری کا کہنا تھا کہ خدا نے مریم نواز کو ایسا خوبصورت چہرہ دیا ہے کہ انہیں زیادہ چیزیں لگانے کی ضرورت نہیں پڑتی، وہ زیادہ سے زیادہ ایک یا دو چیزیں لگاتی ہیں۔ وزیر اطلاعات پنجاب کا کہنا تھا کہ عام طور پر مریم نواز آن لائن خریداری کرتی ہیں، وہ اپنے لیے خود ہی چیزیں پسند کرتی ہیں، ان کی فیشن سینس آخیر ہے۔ عظمیٰ بخاری کے مطابق مریم نواز چھوٹے برانڈ کے لان کے کرتے پہنتی ہیں تب بھی وہ بہت حسین نظر آتی ہیں، خدا نے انہیں اچھی شکل و صورت دی ہے۔ بات کپڑوں کی قیمت اور برانڈز کی نہیں ہوتی بلکہ اصل بات یہ ہے کہ کوئی ان کپڑوں کو کیسے پہنتا ہے اور مریم نواز کے بعد کپڑوں کو پہننے انداز ختم ہے اور وہ خود بھی ان سے انسپریشن لیتی ہیں۔ عظمیٰ بخاری کی جانب سے مریم نواز کے لیے کیے گئے دعووں پر سوشل میڈیا صارفین نے ان کا مذاق بھی اڑایا اور سوال کیا کہ اب تو 800کا لان کا جوڑا دیہات کی غریب خواتین بھی نہیں پہنتیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button