ColumnImtiaz Aasi

تعلیمی ادارے این جی او کے حوالے کیوں؟

تحریر : امتیاز عاصی
1972ء سے پہلے ملک میں سرکاری تعلیمی اداروں کے مقابلے میں نجی طور پر چلائے جانے والے تعلیمی اداروں کی تعداد زیادہ تھی۔ ان تعلیمی اداروں میں طلبہ اور طالبات کو مشن سمجھ کر پڑھایا جاتا تھا۔ بچوں کو ٹیویشن پڑھانے کا تصور نہیں کیا جا سکتا تھا بلکہ اساتذہ کرام سکول شروع ہونے سے قبل زیرو پریڈ لیا کرتے تھے۔ ان تعلیمی اداروں کی خاص بات یہ تھی اساتذہ کلاس چھوڑنے کا تصور نہیں کر سکتے تھے یہی وجہ تھی اس دور کا تعلیمی معیار آج کے مقابلے میں کہیں زیادہ اچھا تھا۔ پنجاب میں انجمن حمایت اسلام کے تحت اور مشنری تعلیمی اداروں کے سکولوں اور کالجوں میں طلبہ اور طالبات کو بلا امتیاز داخلہ مل جاتا تھا۔ یہ الگ بات ہے ان سکولوں اور کالجوں میں پڑھانے والے اساتذہ کرام کو ملنے والا مشاہرہ زیادہ نہیں ہوا کرتا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کا دور آیا تو یکم اکتوبر 1972ء کو نجی طور پر چلائے جانے والے ملک بھر کے سکولوں اور کالجوں کو قومی تحویل میں لینے کا فیصلہ کیا گیا۔ بھٹو کے اس فیصلے کا مقصد اساتذہ کرام کو معقول تنخواہیں اور دیگر مراعات کے ساتھ ملازمتوں کا تحفظ دینا مقصود تھا جس کا اساتذہ کرام نے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ قومیائے گئے تعلیمی اداروں کے اساتذہ اور دیگر سٹاف کو باقاعدہ گریڈ اور ترقیاں ملنے لگی ہر طرف شادیانے بجنے لگے ۔اس کے کچھ عرصہ بعد قومیائے گے تعلیمی اداروں کے اساتذہ نے یونینز کی بنیاد رکھی اور رفتہ رفتہ بچوں کو ٹیویشن پڑھانے کا آغاز ہو گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کا تعلیمی اداروں کے اساتذہ کرام کو ان کی تعلیمی استعداد کے مطابق پے سکیل اور دیگر مراعات دینے کا مقصد اساتذہ کرام بچوں کو پہلے سے زیادہ توجہ سے تعلیم دیں گے جس سے ملک میں تعلیمی معیار مزید بہتر ہوسکے گا۔ ذوالفقار علی بھٹو کا تعلیمی اداروں کے اساتذہ کرام کا معیار زندگی بلند کرکے طلبہ اور طالبات کو بہتر تعلیم دینے کا خواب اس وقت چکنا چور ہو گیا جب اساتذہ کرام نے ملازمت کا تحفظ ملنے کے بعد اس کا الٹا اثر لیا ۔ یونینز ازم نے اس حد تک فروغ پایا تعلیمی اداروں کے وہ اساتذہ کرام جو زیرو پریڈ لیا کرتے تھے انہیں معمول کے مطابق پڑھانا گراں گزرنے لگا۔ وقت گزرنے کے ساتھ سکولوں کے وہ اساتذہ جو دو اڑھائی سو روپے ماہانہ تنخواہ لیتے تھے مدت ملازمت پوری کرتے وقت گریڈ بیس میں ریٹائر ہوئے۔ ہر طرف ٹیویشن سینٹر قائم ہوگئے سکولوں کے بچوں کو زبردستی ٹیویشن پڑھانے کا ایسا رواج فروغ پایا جو اب تک شدومد سے جاری ہے۔ تعلیمی اداروں کو قومیائے سے قبل انجمن اور مشن کو کسی ٹیچر کو ملازمت سے علیحدہ کرنے کے لئے کوئی لمبا چھوڑا طریقہ کار اختیار نہیں کیا جاتا تھا جو اساتذہ اپنے فرائض منصبی ٹھیک ادا نہیں کرتے تھے انہیں چند روز میں ملازمت سے فارغ ہونا پڑتا تھا ۔1972ء کے بعد صورت حال میں بہت بڑی تبدیلی آئی تعلیمی اداروں کے اساتذہ کو ملازمت سے نکالنے کے لئے ای اینڈ ڈی رولز کے مطابق کارروائی کرنا پڑتی تھی جس پر عمل درآمد میں کئی برس لگ جاتے تھے۔ گویا کسی استاد کو ملازمت سے علیحدہ کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہونے سے تعلیمی اداروں اور اساتذہ کی یونینز کے قیام سے تعلیمی معیار پہلے سے ابتر ہوگیا ۔ طلبہ اور طالبات کلاس میں آئیں نہ آئیں اساتذہ کلاس لیں نہ لیں پرنسپل اور ہیڈ ماسٹر ان کا کچھ بگاڑ نہیں سکتا۔ سرکاری تعلیمی اداروں میں فیس نہ ہونے کی بنا عوام نے اپنے بچوں کو انگلش میڈیم تعلیمی اداروں میں داخل کرانا شروع کر دیا۔ تازہ ترین صورت حال میں سرکاری سکولوں اور کالجوں میں طلبہ کی تعداد بہت کم ہے اس کے برعکس اساتذہ کرام کی تعداد زیادہ ہے۔ پنجاب حکومت نے صوبے کے کئی ہزار سکولوں کو این جی اوز کے تعاون سے چلانے کا فیصلہ کیا ہے جو اس ناچیز کے خیال میں ایک احسن اقدام ہے۔ پنجاب حکومت سکول چلانے کے لئے این جی اوز کو فنڈز فراہم کرے گی اور بچوں کو کتابیں مفت مہیا کی جائیں گی۔ این جی اوز کے حوالے
کرنے سے سکولوں کے اساتذہ کو ایک مرتبہ پھر کئی عشرے قبل انجمن اور مشنری تعلیمی اداروں والے ماحول سے واسطہ پڑے گا جس کا سب سے بڑا فائدہ ان تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے بچوں کو ہوگا۔ این جی اوز کے حوالے کئے جانے والے تعلیمی اداروں کے اساتذہ کرام کو اپنے فرائض منصبی پوری طرح ادا کرنے پڑیں گے۔ عین ممکن ہے بچوں کو ٹیوشن پڑھانے پر بھی پابندی عائد کر دی جائے۔ اگرچہ قومی تحویل میں لینے سے پہلے والا ماحول تو نہیں بن سکے گا البتہ این جی اوز کے حوالے کئے جانے والے تعلیمی اداروں کے اساتذہ کو کم از کم اپنے فرائض پوری طرح ادا کرنے ہوں گے۔ پنجاب کے بعض شہروں میں محکمہ تعلیم نے چند کالجز کو نجی تحویل میں دینے کا اعلان کیا تو وہاں پڑھانے والے اساتذہ نے طلبہ سے مل کر احتجاج کرنا شروع کر دیا جس کے بعد وقتی طور پر قومی تحویل میں لئے گئے کالجوں کو ازسر نو مشن کے سپرد کرنے کا فیصلہ موخر کرنا پڑا۔ حکومت پنجاب کو چاہیے جس طرح کئی ہزار سکولوں کو این جی اوز کو دینے کا فیصلہ کیا ہے بالکل اسی طرز پر ان کالجوں کو این جی اوز کے حوالے کر دیا جائے جن کا تعلیمی معیار گر چکا ہے اس مقصد کے لئے حکومت کو وہاں پڑھانے والے اساتذہ کو ملازمت کا تحفظ اور ان کو ملنے والی مراعات کو جاری رکھنا ہوگا۔ آئینی طورپر بھی کسی سرکاری ملازم کو ملنے والی مراعات کم نہیں کی جا سکتی۔ سرکاری تعلیمی اداروں میں پست تعلیمی معیار کا بھرپور فائدہ نجی تعلیمی ادارے اٹھا رہے ہیں بلکہ تعلیم کا شعبہ انڈسٹری کی صورت اختیار کر چکا ہے جس میں فائدہ ہی فائدہ ہے نقصان والی بات نہیں۔ پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں پڑھانے والوں کی تنخواہیں ان کی تعلیمی استعداد کے مقابلے میں بہت کم ہیں البتہ وہاں پڑھنے والوں کی فیسوں پر کسی کا کنٹرول نہیں جو حکومت کی سب سے بڑی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے لہذا پنجاب حکومت کو سڑکوں اور پلوں کی تعمیر کے ساتھ تعلیمی نظام کی بہتری کے لئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button