CM RizwanColumn

دو المیے ایک عید  

پاکستان خود پاکستانیوں اور تمام تر عالم اسلام کی نظر میں اپنے قیام سے لے کر آج تک قلعہ اسلام ہے۔ اس کی ترقی اور طاقت کے ساتھ عالم اسلام کی بڑی توقعات وابستہ ہیں۔ جہاں تک اسرائیل، فلسطین تنازع کی بات ہے تو اس اسرائیل کو بانی پاکستان نے ناجائز بچے کی مثال سے یاد کیا تھا جبکہ بعدازاں ہم نے جو ایٹم تیار کیا تھا تو اس کی مار کرنے کی رینج بھی ہم نے اسرائیل تک طے کی تھی مگر اب غزہ میں پوری دنیا کی نگاہوں کے سامنے تو اسرائیل یکطرفہ طور پر انتہائی بے دردی اور بے رحمی سے فلسطینیوں کا قتل عام جاری رکھے ہوئے ہے،  جس کے نتیجے میں معصوم بچوں اور خواتین سمیت اب تک 32ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہوچکے ہیں مگر افسوس کہ آج کا غیرت مند پاکستانی بھی مایوسی اور بے بسی کے عالم میں یہ ظلم دیکھ رہا ہے اور یہ بھی دیکھ رہا ہے کہ ہم بحیثیت قلعہ اسلام وہ کچھ نہیں کر رہے جس سے کم از کم اسرائیل اپنے ان غیر انسانی جرائم سے باز آ جائے۔ اس عید الفطر پر پاکستان کا ہر شہری اس عظیم المیے کو کھلی آنکھوں دیکھ رہا ہے کہ غزہ کی صورتحال لمحہ بہ لمحہ بد سے بد تر ہوتی جا رہی ہے، اسرائیل کی جانب سے مسلسل تباہ کن حملوں کو پانچ مہینے سے زائد عرصہ گزر چکا ہے، غزہ مکمل طور پر کھنڈر میں تبدیل ہو چکا ہے اور وہاں ہر سانس لینے والی انسانی مخلوق کی زندگی پر مسلسل موت منڈلا رہی ہے مگر اسرائیل کی آتش انتقام ہے کہ ٹھنڈی ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی۔
 غزہ ایک چھوٹا سا شہر ہے، اس کا کل رقبہ صرف 45کلومیٹر ہے، اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ 5مہینے سے بلاتعطل جنگی طیاروں، ڈرونز، ٹینکوں، توپوں اور بندوقوں سے جاری وحشیانہ حملوں کے نتیجے میں یہاں کس قدر تباہی پھیلی ہوگی اور انسانی ہلاکتیں اور اموات کہاں تک جا پہنجی ہوں گی۔ اسرائیل جس انداز میں یکطرفہ طور پر فلسطینیوں کے قتل عام پر کاربند ہے، اس سے یہی لگ رہا ہے کہ وہ غزہ کو فلسطینیوں سے مکمل طور پر خالی کرنے اور اس شہر کو بھی ہتھیانے کا تہیہ کرچکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صہیونی وزیر اعظم نیتن یاہو کا کہنا ہے کہ وہ غزہ پر فلسطینی مقتدرہ کی حکومت بھی تسلیم نہیں کریں گے۔ غزہ کو اسرائیل کیسے ضم کرنا اور ہتھیانا چاہتا ہے، اس حوالے سے رپورٹس مظہر ہیں کہ اس کے سامنے اس مقصد کو پانے کے لئے دو منصوبے ہیں، اول یہ کہ غزہ کی بائیس لاکھ سے زائد کی فلسطینی آبادی کو مار مار کر غزہ بدر کر کے مصر کے سرحدی صحرائی علاقے سَینا کی طرف اجتماعی ہجرت پر مجبور کر دیا جائے دوسرا ناپاک منصوبہ یہ ہے کہ اگر فلسطینی تمام تر وحشت و بربریت کے باوجود اپنی سر زمین چھوڑنے پر تیار نہیں ہوتے ہیں تو ان کی بائیس لاکھ سے زائد کی آبادی کو مکمل طور پر تہ تیغ کر دیا جائے یہاں تک کہ غزہ میں ایک فلسطینی کا وجود بھی باقی نہ رہے۔ اسرائیل اپنے ان انتہائی وحشیانہ عزائم کی تکمیل کے لئے مسلسل حملے جاری رکھے ہوئے ہے، یہ ٹھیک ہے کہ فلسطینی اپنے جذبہ ایمانی کے ساتھ بھی ڈٹے ہوئے ہیں اور کسی صورت اپنی سر زمین چھوڑنے پر آمادہ نہیں مگر وہ نہتے، بھوک، پیاس اور بے گھری کی اذیتوں کے مارے آخر کب تک مزاحمت جاری رکھ سکتے ہیں۔ بحیثیت پاکستانی ہمارے لئے سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ ہم پاکستانی اس قدر مجبور اور بزدل کیوں ہو گئے ہیں کیا ہماری اس بے بسی کو مرخ ہمارا ازلی و ابدی المیہ نہیں لکھے گا۔ امت مسلمہ کا حصہ ہونے کے حوالے سے بھی ہماری بدبختی ہے اور اج کی اس مسلم دنیا کا بھی یہ  مشترکہ فرض ہے کہ وہ اب کھل کر سامنے آئے، تاہم مقام افسوس کہ دور دور تک بھی اس فرض کی ادائیگی کے لئے کسی تیاری کے آثار دکھائی نہیں دے رہے، البتہ مسلم حکومتوں کے برعکس دنیا بھر کے مسلمانوں کے دل اب بھی خلوص کے ساتھ مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ یہ مسلمان کفار کے خلاف فلسطینیوں کی مزاحمت میں شریک تو نہیں ہوسکتے، تاہم اس بار عید کو اہل غزہ کے نام کر کے ان کی ہمت بندھا سکتے ہیں، لیکِن یہ طے شدہ امر ہے کہ اس عید پر یہ امت مسلمہ کا سب سے بڑا المیہ ہے۔
دوسرا المیہ اس عید الفطر پر پاکستان کا یہ ہے کہ اس کے متوسط طبقہ کی عید کی خوشیاں مہنگائی نے چھین لی ہیں۔ اس عید پر وطن عزیز کے پچاسی فیصد لوگ اپنی کئی بنیادی ضروریات بھی پوری نہیں کر پاتے۔ عید مسلمانوں کے لئے متبرک، محبتوں کا تہوار ہوتا ہے۔ خصوصاً عید الفطر کو بچوں کی میٹھی عید کہا جاتا ہے لیکن دوسری طرف تلخ حقیقت یہ ہے کہ معاشی دبا اور مسائل کے باعث زیادہ تر گھرانے اس عید کی خوشیوں سے اس طرح لطف اندوز نہیں ہو پائیں گے جو کہ پچھلے سالوں میں معمول رہا ہے کیونکہ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافے اور مسلط شدہ ملکی معاشی ناہمواریوں کے باعث والدین کے لئے یہ عید بہت سے چینلجز لے کر آتی ہے۔
 ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ہر سال عید کے تہوار پر 900سے 1000ارب روپے کے اخراجات کئے جاتے ہیں۔ اگرچہ ان اعداد و شمار میں ہر سال اضافہ دیکھنے کو ملتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ افراط زر کے لحاظ سے یہ اخراجات اصل میں وہیں پر کھڑے ہیں جو آج سے دس پندرہ سال پہلے تھے۔ پاکستان میں رمضان کی آمد سے پہلے ہی سبزیوں اور پھلوں کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ ہو جاتا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ اس سال لیموں کی قیمتوں نے پورے رمضان سر اٹھائی رکھا جس کی قیمت پورے ملک میں 500سے 600روپے فی کلو ریکارڈ کی گئی۔ اسی طرح ٹماٹر کی قیمت رمضان سے پہلے 200 روپے فی کلو سے آہستہ آہستہ کم ہوئی۔ یہی حال پھلوں کا بھی ہے جو کیلا رمضان سے پہلے 40روپے فی درجن فروخت ہو تا رہا وہ ماہ مقدس میں 120سے 200روپے درجن تک فروخت ہوا۔ یاد رہے کہ پوری دنیا خصوصاً یورپ اور امریکہ میں رمضان کے لئے خصوصی کائونٹر لگائے جاتے ہیں اور اشیاء کی قیمتیں کم کر دی جاتی ہیں لیکن پاکستان میں صورتحال یکسر مختلف ہے۔ چینی، پھل، سبزیاں اور دیگر اشیا کی قیمتوں پر عروج آ جاتا ہے۔ گو کہ پاکستان میں رمضان بازاروں اور سستے بازاروں کا رواج عام ہے جسے دیگر مروجہ جھوٹوں کی طرح کا ہی ایک جھوٹ قرار دیا جا سکتا ہے۔ جو کوئی بھی حکومت میں ہو وہ ہر سال ان بازاروں کی اصطلاح کو سیاسی فائدے کے لئے ہی استعمال کرتا ہے کیونکہ سرمایہ دارانہ نظام میں طلب، رسد جیسی اصطلاحات ہی اشیاء کی قیمتوں کا تعین کرتی ہیں اور آلا ماشاء اللہ پاکستان میں فلاحی ریاست کا تصور کبھی رہا ہی نہیں ایسے میں سرمایہ دار اپنی من مانی کرتے ہیں۔ حکومتیں سیاسی دبا کم کرنے کے لئے رمضان بازار اور یوٹیلیٹی سٹورز پر سبسڈی دیتی ہیں جو بیرونی قرضوں کی مد میں کی جاتی ہے اور وہ بھی گھوم پھر کر صارف ہی کی جیب پر مزید مہنگائی کی صورت میں اثر انداز ہوتی ہے۔ یہ ہمارا ازلی المیہ ہے کہ ملک میں سرمایہ دارانہ نظام معیشت چل رہا ہے۔ یہاں پرائس کنٹرول اور حقیقی سبسڈی کا رواج نہیں، حکومت پاکستان کو ٹیکس حاصل کر کے اسے عوامی فلاح و بہبود پر خرچ کرنا چاہئے لیکن ایک تو یہاں بڑے مالداروں کے ہاں ٹیکس دینے کا رواج نہیں اور دوسرا یہاں اقتدار میں شامل کرپٹ عناصر قرضے لے کر معاف کرا لیتے ہیں۔ ان سارے بداعمال کا خمیازہ بھی بیچارے غریب طبقے ہی بھگت رہے ہیں۔
یہ ٹھیک ہے کہ نئے کپڑے، نئے جوتے، سیر و تفریح، مہمان داری اور کھانا پینا عید کی بنیادی ضروریات ہیں۔ یہ بھی ٹھیک ہے کہ حقیقتاً یہ عید بچوں کے نام ہوتی ہے لیکن اس عید جیسے تہوار پر بھی اگر والدین کا امتحان اس طرح شروع ہو جائے کہ وہ معمول کی اشیاء ضروریہ خریدیں  اور بجلی گیس کے بل ادا کریں یا بچوں کے لئے عید کی شاپنگ کر لیں تو یہ خوشیوں کا تہوار نہیں المیہ بن جاتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button