Editorial

صدر بائیڈن کا وزیراعظم شہباز کو خط

امریکا پاکستان کو سب سے پہلے تسلیم کرنے والے ممالک میں سے ایک ہے۔ پاکستان اور امریکا کے تعلقات 76 برسوں سے زائد عرصے پر محیط ہیں۔ سانحہ نائن الیون کے بعد امریکا کی جانب سے شروع کی گئی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان نے اُس کے فرنٹ لائن اتحادی کا کردار نبھایا۔ دامے، درمے، سخنے ہر طرح سے اُس کی مدد کی۔ امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اُس کا ساتھ دینے پر وطن عزیز میں دہشت گردی نے پنجے گاڑے۔ ملک بھر میں دہشت گردی کے واقعات کا ہولناک سلسلہ شروع ہوا۔ ملکی معیشت کو ناقابل تلافی نقصانات ہوئے۔ مسلسل بدامنی کے باعث سرمایہ کاروں نے بڑی تعداد میں یہاں سے دوسرے ممالک کا رُخ کیا۔ 15سال پاکستان اس کی لپیٹ میں رہا۔ افغانستان سے امریکی انخلا تک پاکستان نے اس کا بھرپور ساتھ دیا۔ امریکا نے اس کے بدلے میں پاکستان کو بھرپور امداد کی فراہمی کا سلسلہ بھی جاری رکھا، لیکن بعض وعدے اُس کی جانب سے ایسے بھی ہوئے، جو ایفا نہ ہوسکے۔ پچھلے 76برسوں میں پاکستان اور امریکا کے تعلقات اُتار چڑھائو کا شکار رہے ہیں۔ کبھی بہت مثالی تعلقات ہوتے ہیں تو کبھی ناراضی در آتی ہے۔ پاکستان نے ہر بار خلوص دلی سے امریکا کا ساتھ دیا ہے مگر امریکا کی جانب سے ڈومور کے سلسلے دراز رہے۔ سائفر معاملے اور پی ٹی آئی کے امریکا پر اُس کی حکومت گرانے کے الزامات کے باعث پچھلے چند سال سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں سرد مہری چلی آرہی ہے۔ پاکستان میں 8فروری 2024کو عام انتخابات کا انعقاد کیا گیا۔ اس کے نتیجے میں نئی اتحادی حکومت کا قیام عمل میں آچکا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف اپنی ذمے داریاں احسن انداز میں نبھارہے ہیں۔ معیشت کی بہتری کے لیے کوششوں میں مصروف ہیں۔ گزشتہ روز اُنہیں امریکا کے صدر جوبائیڈن نے خط لکھا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق امریکی صدر جوبائیڈن نے وزیراعظم شہباز شریف کو خط لکھ دیا، جس میں انہوں نے کہا ہے کہ دنیا اور خطے کو درپیش وقت کے اہم ترین چیلنجز کا سامنا کرنے میں امریکا پاکستان کے ساتھ کھڑا رہے گا۔ وزیراعظم شہباز شریف کے منصب سنبھالنے کے بعد امریکی صدر کا ان کے لیے یہ پہلا خط ہے۔ خط میں امریکی صدر نے نومنتخب حکومت کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دونوں ممالک کے عوام کے درمیان شراکت داری دنیا اور ہمارے عوام کی سلامتی یقینی بنانے میں نہایت اہم ہے۔ امریکی صدر جوبائیڈن نے کہا کہ دنیا اور خطے کو درپیش وقت کے اہم ترین چیلنجز کا سامنا کرنے میں امریکا پاکستان کے ساتھ کھڑا رہے گا، صحت عامہ کا تحفظ، معاشی ترقی اور سب کے لیے تعلیم مشترکہ وژن ہے جسے مل کر فروغ دیتے رہیں گے، امریکا پاکستان گرین الائنس فریم ورک سے ماحولیاتی بہتری کے لیے ہم اپنے اتحاد کو مزید مضبوط کریں گے۔ امریکی صدر جوبائیڈن نے کہا کہ پائیدار زرعی ترقی، آبی انتظام اور 2022کے سیلاب کے تباہ کن اثرات سے بحالی میں پاکستان کی معاونت جاری رکھیں گے، پاکستان کے ساتھ مل کر انسانی حقوق کے تحفظ اور ترقی کے فروغ کے لیے پُرعزم ہیں، دونوں اقوام کے درمیان استوار مضبوط پارٹنرشپ کو تقویت دیں گے، دونوں ممالک کے عوام کے درمیان استوار قریبی رشتے مزید مضبوط بنائیں گے۔ یاد رہے کہ طویل عرصے کے بعد کسی بھی امریکی صدر کا پاکستانی وزیراعظم کو پہلا سفارتی خط لکھا گیا ہے، امریکی صدر کا تہنیتی خط پاکستان اور امریکا کے درمیان سفارتی تعلقات میں بحالی کا عندیہ ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف کے برسراقتدار آنے کے بعد امریکا کے ساتھ سفارتی تعلقات کی بحالی اور بہتری میں نمایاں پیش رفت دیکھنے میں آئی۔ امریکا کے صدر جوبائیڈن کا وزیراعظم میاں شہباز شریف کے لیے خط موجودہ حالات میں خوش گوار ہوا کے تازہ جھونکے کی مانند ہے، موجودہ حالات میں اس کی ضرورت بھی خاصی شدّت سے محسوس کی جارہی تھی، اس میں شبہ نہیں کہ پاکستان کو بے پناہ چیلنجز درپیش ہیں اور دوست ممالک کے تعاون سے ہی ملکی معیشت پھر سے اپنے پیروں پر کھڑی ہوسکتی اور وطن عزیز ان چیلنجز سے بہتر انداز میں نبردآزما ہوسکتا ہے۔ موجودہ حکومت چیلنجز سے نمٹنے کے لیے تندہی سے مصروفِ عمل بھی ہے۔ جوبائیڈن نے اپنے خط میں امریکا کے پاکستان کے ساتھ کھڑے رہنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ اس میں شبہ نہیں پاکستان کی ترقی کے لیے امریکا کی جانب سے بہت سے عظیم منصوبے اب بھی کامیابی کے ساتھ چل رہے ہیں۔ خلق خدا کی بڑی تعداد ان سے مستفید بھی ہورہی ہے۔ صحت عامہ کی بہتری، معاشی ترقی اور تعلیم کے فروغ کے حوالے سے امریکی صدر نے مل کر کوششیں کرنے کی بات کی۔ ماحولیاتی بہتری کے لیے بھی اتحاد کی مضبوطی کا عزم ظاہر کیا۔ زرعی ترقی، آبی انتظام اور دو برس قبل آنے والے سیلاب کے تباہ کن اثرات سے بحالی میں اپنا تعاون جاری رکھنے کی یقین دہانی کرائی۔ اپنے خط میں بائیڈن نے دونوں ممالک کے درمیان شراکت داری کو تقویت دینے سے متعلق اظہار کیا۔ پاکستان کی نئی اتحادی حکومت کو اس خط کا مثبت انداز میں جواب دیتے ہوئے تعلقات کی مضبوطی کے لیے کوششیں کرنی چاہئیں۔ شہباز حکومت احسن انداز میں معیشت کے مشکلات کے حل کیلئے کوشاں ہے، ان شاء اللہ کچھ ہی عرصے میں کامیابی مقدر بنے گی۔
اینٹی اسمگلنگ کریک ڈائون میں بڑی کامیابیاں
پچھلے 7 ماہ سے ذخیرہ اندوزوں اور اسمگلروں کے خلاف آپریشن جاری ہے، جس کے انتہائی حوصلہ افزا نتائج برآمد ہوئے ہیں اور آئندہ بھی مزید خوش گوار اثرات مرتب ہونے کی توقع ہے۔ ڈالر کے نرخ میں 50 روپے سے زائد کمی ممکن ہوسکی ہے۔ پاکستانی روپیہ روز بروز استحکام حاصل کررہا ہے اور ان شاء اللہ کچھ وقت بعد اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کرلے گا۔ اسی کریک ڈائون کی وجہ سے پٹرول 330 کی سطح سے نیچے آکر 280 روپے پر لایا جاسکا ہے۔ اسی آپریشن کے طفیل کھاد کی قیمت مناسب سطح پر واپس آئی ہے۔ چینی اور آٹے کے نرخوں میں کمی ممکن ہوسکی ہے۔ اسی طرح دیگر اشیاء کے دام بھی نیچے آئے ہیں۔ سونے کے نرخوں میں کمی واقع ہوئی ہے۔ ویسے بھی ذخیرہ اندوز اور اسمگلر ملک اور قوم دشمن اقدامات میں مصروف ہوتے ہیں۔ وہ ملکی جڑوں کو کھوکھلا کرتے اور اپنی تجوریاں بھرتے رہتے ہیں۔ معیشت کو بُری طرح زک پہنچانے کا باعث بنتے ہیں۔ معیشت کی درستی، گرانی میں کمی، اشیاء ضروریہ کی فراوانی یقینی بنانے کے لیے ایسے عناصر کے خلاف اقدامات ناگزیر معلوم ہوتے ہیں اور یہ کسی رورعایت کے مستحق بھی نہیں۔ ان کا قلع قمع کرنے کے لیے اس آپریشن میں مزید سختی لانے کی ضرورت ہے۔ انسداد اسمگلنگ کے لیے کارروائیاں جاری ہیں اور کامیابیاں بھی مل رہی ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق ملکی معیشت کی بحالی کے لیے اینٹی اسمگلنگ کریک ڈائون جاری ہے۔ کریک ڈائون کے دوران 17 تا 24 مارچ کے دوران ملک بھر سے 18.14 میٹرک ٹن کھاد، 26.08 میٹرک ٹن چینی، 288 سگریٹ کے اسٹاکس، 962 کپڑے کے تھان اور 0.696 ملی لیٹر ایرانی تیل برآمد کیا۔ متعلقہ اداروں نے کراچی سے 100، پشاور سے 65 اور کوئٹہ سے 123 سگریٹ کے اسٹاکس برآمد کیے، پشاور سے 0.45 میٹرک ٹن جب کہ کوئٹہ سے 25.63 میٹرک ٹن چینی برآمد کی گئی، ملتان سے 0.008، کراچی سے 0.604، پشاور سے 0.015 اور کوئٹہ سے 0.069 ملی لٹر ایرانی تیل ضبط کیا گیا۔ یکم ستمبر 2023 سے اب تک ملک بھر سے 3036 میٹرک ٹن کھاد، 247 میٹرک ٹن آٹا، 33956 میٹرک ٹن چینی، 226432 سگریٹ کے اسٹاکس، 244578 کپڑے کے تھان اور 4.094 ملی لٹر ایرانی تیل برآمد ہوچکا ہے۔ متعلقہ ادارے ملک کو مشکل وقت سے نکالنے کے لیے اسمگلنگ کے خلاف اپنی کارروائیاں جاری رکھنے کے لیے پُرعزم ہیں۔ اینٹی اسمگلنگ کریک ڈائون ہر لحاظ سے قابل تعریف ہے۔ معیشت کی بحالی کے لیے یہ اقدامات ممد و معاون ثابت ہوں گے۔ اس کے نتیجے میں وافر اشیاء برآمد ہورہی ہیں۔ اسمگلنگ ہمارے لیے ناسور کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکنے کی ضرورت ہے۔ ضروری ہے کہ اس کریک ڈائون کو اسمگلنگ اور ذخیرہ اندوزی کے مکمل خاتمے تک جاری و ساری رکھا جائے۔ ملک کے طول و عرض سے اسمگلنگ کا قلع قمع ہر صورت یقینی بنایا جائے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button