Column

دو ٹکے کے لوگ پنجاب اسمبلی میں

روہیل اکبر
ملک کی سمت درست کرنے والوں کی اپنی سمت درست نہیں تو ملک کیسے پٹری پر چڑھے گا نہیں یقین تو قومی اسمبلی سمیت ملک کی تمام صوبائی اسمبلیوں کے اجلاس کی کارروائی دیکھ لیں ایک طرف چور چور کو شور ہوتا ہے تو دوسری طرف بھی اسی طرح کی آوازیں سنائی دیتی ہیں بعض اوقات تو یہ اسمبلیاں ایوان نمائندگان کم اور لاری اڈہ زیادہ لگتا ہے جہا ں بس کنڈیکٹر معمولی بات پر ایک دوسرے کے کپڑے پھاڑ دیتے ہیں اور جہاں گالی گلوچ معمول کی بات لگتی ہے ابھی کل کے اجلاس میں حکومت نے شور شرابی میں 42مطالبات زر منظور کرلیے جن میں سے 44کروڑ پولیس کی ٹریننگ کے لیے ہیں نہ جانے یہ پیسے لگتے کس پر اور جاتے کہاں ہے کیونکہ ہماری پولیس میں اخلاق اور آداب نام کی کوئی چیز سرے سے موجود ہی نہیں ہے جس طرح قانون ساز اسمبلیوں میں قانون کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں ویسے ہی ہماری پولیس کے تھانوں میں چوریاں معمول کی باتیں ہے مجال ہے کسی نے اپنا صندوق بغیر تالے اور زنجیر کے رکھا ہوں بلکہ اکثر بکسوں کے تالے توڑ کر پیٹی بھائی ایک دوسرے کا سمان چوری کر لیتے ہیں لوگوں تحفظ فراہم کرنے والے شیر جوا نوں کا اپنا سامان انکے تھانوں میں محفوظ نہیں ہے تو وہ باہر عام لوگوں کو کیسے تحفظ فراہم کرینگے سب سے پہلے تو انکی اخلاقی تربیت کی ضرورت ہے کہ وہ اپنے ہی پیٹی بھائیوں کا سامان چوری کرنے سے باز رہیں اس کے علاوہ صوبائی اسمبلی میں کیا کیا ہوا اس پر لکھنے سے پہلے ہائیکورٹ کے 6ججز کی جانب سے لکھے گئے سنگین نوعیت کے خط کا ذکر ضروری ہے جس پر وزیر اعظم نے کمیشن بنانے کا اعلان کیا ہے یہ بھی وہی کمیشن بنے گا جس کا فیصلہ نہیں آتا اس سے پہلے جتنے بھی کمیشن بنے ان کی رپورٹ آج تک منظر عام پر نہیں آئی اور یہ ججز کا معاملہ ہے جو خود فیصلے کرتے ہیں اس پر تو کمیشن بنانے کی ضرورت ہی نہیں تھی بلکہ پوری عدلیہ متحد ہوکر ان الزامات کی خود ہی تحقیق کر لیتی تو سب کچھ عوام کے سامنے آجانا تھا لیکن معاملہ اب کمیشن کے سپرد کر دیا گیا ہے جس پر عوامی تحریک کے سیکرٹری جنرل خرم نواز گنڈا پور نے خوبصورت تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اس ساری صورتحال پر کچھ بھی نہیں بنے گا چند دن خبروں کی زینت بنے گا شور شرابا ہوگا اور مٹی پائو والا عمل دہرایا جائے گا پارلیمان میں کسی بھی چیز کو ٹھیک کرنے کی نیت ہی نظر نہیں آتی ہے جبکہ منصف کی کرسی پر بیٹھ کر کسی بے گناہ کو سزا دینے کا کوئی کفارہ بھی نہیں جب سے ججز مداخلت کی بات کر رہے ہیں نہ جانے کتنے بے گناہوں کو سزا سنا دی گئی ان کا کفارہ کون ادا کرے گا جو ریاست اپنی پولیس کو، دوست ملک چینی انجینئرز کو، اپنے سابق وزیر اعظم کو تحفظ نہیں دے سکتی اس ریاست پر بہت بڑا سوالیہ نشان ہے چینی انجینئرز ہماری ترقی کے لیے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ پاکستان آئے ہم اپنے مہمانوں کو ہی تحفظ نہیں دے سکے آخر کوئی تو ان کی سیکیورٹی کا ذمہ دار تھا کیوں نہیں ان کے نام سامنے نہیں لائے گئے جبکہ ریاست پولیس کو ظلم کے لیے استعمال کرتی ہے اور نتیجتاً پولیس خود سے بھی بے گناہوں پر ظلم کرتی ہے اور کسی پولیس والے کو سزا نہیں ہوتی عوامی تحریک اپنے شہداء کے انصاف کے لیے جدوجہد کر رہی ہے لیکن جس نظام میں 2014ء کے ماڈل ٹائون شہدا کو انصاف نہیں ملا اس نظام میں رہتے ہوئے آپ کیا جدوجہد کر سکتے ہیں انصاف کے لیے؟ جس نظام میں ہائی کورٹ کے جج صاحبان مجبور ہوں اس نظام کا حصہ بن کر کیا کر سکتے ہیں؟ آج سپریم کورٹ نے کہہ دیا کہ ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کا ٹرائل قاعدے کے مطابق نہیں تھا تو جن ججزنے فیصلے کیے ان کی کیا سزا ہے؟ اسلام میں غلط الزام لگانے والے پر قذف کی سزا مقرر ہے لیکن یہاں غلط الزام لگا کر پرچوں پر پرچے درج کیے جارہے ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں کیونکہ جنہوں نے پیٹ پھاڑ کر سڑکوں پر گھسیٹنا تھا وہ آج ایک دوسرے کو سپورٹ کر رہے ہیں لیکن میڈیا ان سے پوچھنے کو تیار نہیں ہمارا معاشرہ منافق ہو چکا ہے چیف منسٹر ہاس کی تزئین و آرائش پر ڈھائی ارب روپے خرچ ہوسکتے ہیں اور صرف ٹائر، میچنگ میٹس کے لیے وفاقی حکومت سے پونے تین کروڑ روپے لیے جاسکتے ہیں تو دوبارہ الیکشن کے لیے پیسے کیوں نہیں ہوسکتے فارم 45الیکشن کمیشن نے قانون کے مطابق 24گھنٹے کے اندر کمیشن کی ویب سائٹ پر لگانے تھے لیکن ایسا نہیں ہوا الیکشن میں دھاندلی کی گئی ہے الیکشن شفاف نہیں تھے اور جب الیکشن شفاف نہیں ہونگے تو معرض وجود میں آنے والی حکومت کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی غیر جانبدار الیکشن کمیشن اور عدلیہ کی نگرانی میں شفاف الیکشن نہیں ہوتے تو پھر دس الیکشن کا بھی حاصل حالیہ الیکشن جیسا ہی ہو گا منہاج القرآن نے 276سال کے بعد پہلی مرتبہ درس نظامی کے سلیبس کو ازسر نو ترتیب دیا ہے پاکستان کو بنے 75سال گزرنے کے باوجود کسی کو اس کی توفیق کیوں نہیں ہوئی۔ اب شور شرابے والی پنجاب اسمبلی کا بھی کچھ حال احوال کیونکہ اس میں عوام کے نمائندے بیٹھتے ہیں جنہوں نے عوام کی خدمت کرنی ہے لیکن فی الحال ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا گزشتہ روز پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں اپوزیشن کے احتجاج اور شور شرابے کے دوران 3431ارب 71کروڑ 56لاکھ 66ہزار 423روپے مالیت کے 42مطالبات زر منظور کر لئے گئے جبکہ اپوزیشن کی کٹوتی کی سات میں سے چار تحاریک کثرت رائے سے مسترد اور تین وقت گزر جانے کے بعد گلوٹین قانون کا شکار ہو گئیں جس پر اپوزیشن نے اپنی نشستوں سے کھڑے ہو کر اور اسپیکر ڈائس کا گھیرا کر کے شدید احتجاج کیا اور ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑ کر ہوا میں اچھالتے رہے وزیر خزانہ مجتبی شجاع الرحمٰن نے محکمہ آبپاشی کے لیے 30ارب 83کروڑ 76لاکھ 85ہزار سمیت پولیس کے لیے 163ارب روپے سے زائد کے مطالبات زر منظور کر لیے جن میں سے 44کروڑ پولیس کی ٹرینگ پر خرچ ہونگے جس پر سنی اتحاد کونسل کے ایم پی اے امتیاز شیخ نے کہا کہ 44کروڑ پولیس کی ٹریننگ کے لیے رکھے ہیں تو سب دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ پولیس والے عام آدمی سے کس طرح بات کرتے ہیں بیرون ملک میں پولیس عام آدمی کو سر کہہ کر پکارتی ہے اور یہاں سر سے پگڑیاں اچھالتی ہے جب تک پولیس والے کو رشوت یا سفارش نہیں کراتا اس وقت تک کوئی مدد نہیں کرتا پولیس کی اخلاقی ٹریننگ کہاں کی جاتی ہے ان کی وردیاں بھی تبدیل ہوں گئی ہیں لیکن ان کو تو اندر سے تبدیل نہیں کیا گیا، اگر پولیس کو احرام بھی پہنا دیں تب بھی یہ رشوت لیں گے ایم پی اے ملک وحید کی گاڑی کو کالے شیشوں پر روکا جاتا ہے پھر ٹک ٹاک پروگرام کیا جاتا جس پر حکومتی رکن خلیل طاہر سندھو اور شیخ امتیاز کے درمیان بات نوک جھوک سے شروع ہوکر تلخ کلامی اور دھمکیوں سے ہوتی ہوئی بات ایوان میں بیٹھے ہوئے دو ٹکے کے افراد تک پہنچتی ہے، اسی دوران اپوزیشن رہنما اعجاز شفیع بھی میدان اسمبلی میں کود پڑتے ہیں جس پر سپیکر ملک محمد احمد خان کو بھی کہنا پڑا کہ اعجاز شفیع اپنی تلخی کم کریں اور پیار سے بات کریں۔ یہ تو ہے ہمارے ایوان نمائندگان کا حال، رہی بات عوام کی اس کی سننے والا کوئی نہیں، ایک طرف ان کے منتخب کردہ نمائندے انہیں لفٹ نہیں کراتے تو دوسری طرف پولیس نے انہیں آگے لگا رکھا ہے۔

جواب دیں

Back to top button