Ali HassanColumn

روگ کا حل تلاش کرنا ہوگا

علی حسن
پاکستان بیک وقت کئی روگ کا شکار ہو گیا ہے لیکن ان روگ کا دائمی علاج تلاش نہیں کیا جا رہا ہے۔ بیمار معیشت ، غیر یقینی سی صورت حال کے علاوہ سیاست میں سرگرم تمام لوگوں کی اپنے اپنے ذاتی مفادات کی سیاست اور ان کا حصول۔ بھلا یہ وقت ہے کہ سیاست میں سرگرم ہر خاندان اپنے تمام قریبی اور دور کے رشتہ داروں کو سیاسی مفادات کے لئے میدان میں داخل کرے۔ وہ بھی ایسے کہ سرکاری تمام منفعت بخش عہدوں پر ان کے ہی لوگ ہوں۔ جہاں رشتہ دار نہ مل سکیں تو وہاں ملازمین کو آگے بڑھا دیا جائے۔ پاکستان کی سیاست میں رشتہ داروں کا داخلہ ایسا روگ بن گیا ہے جو اس ملک کو درپیش سیاسی مسائل کو حل ہی نہیں کرنے دے گا۔ سیاسی جماعتوں پر ایک نظر ڈال کر دیکھیں تو سیاسی گھرانوں کے اس رویہ کی وجہ سے ان پر غصہ آتا ہے کہ کیا سیاست کے تمام رموز نواز شریف، آصف زرداری، مولانا فضل الرحمان، خیبر پختون خواہ میں تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والوں پر ہی اترے ہیں۔ سیاسی جماعتوں میں موجود تمام لوگ کیا بانجھ ہو گئے ہیں۔ کیا انہیں سیاست نہیں آتی ہے۔ کیا ان کی وفاداریاں مشکوک ہیں وغیرہ۔ ضروری ہے کہ رشتہ داروں کو سیاست سے باہر نکالا دیا جائے۔ باپ بیٹا بیٹی بہن بہنوئی بیوی سمدھی وغیرہ وغیرہ سے چھٹکارا حاصل کیا جائے۔ قیام پاکستان سے بعد سے ملک میں نافذ کئے جانے والے پہلے مارشل لاء تک سیاست میں رشتہ داروں کا سرے سے کوئی عمل دخل نہیں تھا۔ جنرل ایوب خان نے جب اپنی نافذ کردہ کنٹرولڈ جمہوریت نافذ کی تو ان کے بھائی سردار بہادر خان اپنے سگے بھائی کی مخالفت میں سامنے آئے اور انہوں نے ایوب خان کی سیاست اور پالیسیوں کو شدید نکتہ چینی کا نشان بنایا ۔ شوق بہرائچی کا یہ شعر سیاسی حلقوں میں ان ہی کی وساطت سے زبان عام ہوا کہ ’’ برباد گلستان کرنے کو بس ایک الو ہی کافی تھا، ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے، انجام گلستان کیا ہوگا‘‘۔ یہ مداخلت اور مخالفت کا سلسلہ اس وقت تک جاری رہا جب ایوب خان نے اپنی والدہ کی مدد حاصل کی تاکہ وہ سردار بہادر خان کو ایوب خان کی مخالفت سے باز رکھ سکیں۔ 1970ء کے انتخابات کے بعد بچے کھچے پاکستان ( آدھا پاکستان بھارت کی جنگی مداخلت کی وجہ سے پاکستان سے علیحدہ ہو گیا تھا) ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت قائم ہوئی تو انہیں نے اپنی پہلی تقریر میں بڑی لجلجاہٹ کے ساتھ یہ اعلان کیا تھا کہ ان کی حکومت میں ان کا کوئی رشتہ دار سوائے ان کے چچا زاد بھائی کے علاوہ کوئی اور نہیں ہے۔ چچا زاد بھائی کو ذکر بھی انہوں نے ’’ ٹیلنٹڈ کزن ‘‘ ( ممتاز بھٹو مرحوم ) کہہ کر کرایا تھا۔ بعد میں تو 1988ء سے تو رشتہ داروں کے سیلاب کا دروازہ ہی کھول دیا گیا ہے۔ اس سلسلے کو کسی مرحلے پر روکنا ہی ہوگا۔ ورنہ یہ روگ، سیاست کو گور تک نہ لے جائے۔
اسی کالم کی ابتداء میں کہا گیا ہے کہ بیمار معیشت اور غیر یقینی سیاسی صورت حال بڑے سنگین روگ ہیں اور ان کا علاج تلا ش کرنا نہایت ضروری ہے۔ ان روگ یا بیماریوں کے علاج کے لئے اب تاریخ کا مہنگا ترین وزیر خزانہ تلاش کر کے لایا گیا ہے۔ ایسا تحفہ جس کی تنخواہ تین کڑوڑ روپے ماہانہ مقرر کر گئی ہے۔ کیا محمد اورنگزیب پاکستان کی معیشت کو اس کے پیروں پر کھڑی کر سکیں گے؟ وہ تو پاکستان کی شہریت ہیں نہیں رکھتے تھے۔ کیا اس ملک میں معاشی ماہرین موجود نہیں ہیں۔ بینک بھی حبیب بینک جیسا جس کے اثاثے ہی بہت زیادہ ہوں، اسے چلانا علیحدہ بات ہے۔ ایچ بی ایل مشرف دور میں کوڑیوں کے مول آغا خان کے سپرد کیا گیا تھا۔ بینک کی مالیت تو ایک طرف رہی لیکن بنک کی مرکزی عمارت ہی بہت قیمتی تھی۔ بنک چلانے والے ہوں یا فنڈ منیجر ، کسی بھی ملک کی معیشت کو کھڑا کرنا ا ن کے بس کی بات ہی نہیں ہوتی۔ شوکت عزیز کا ناکام تجربہ ہمارے سامنے ہے۔ معین قریشی کا تجربہ بھی ہمارے سامنے ہے۔ عمران خان کے دور میں شوکت ترین وزیر خزانہ تھے۔ کیا انہیں کامیاب وزیر خزانہ قرار دیا جا سکتا ہے ۔ ناکام افراد پر تجربہ ہی کیا جاتا رہا ہے۔ جیسے وزیر خارجہ کے معاملہ پر نواز شریف کے سمدھی اسحاق ڈار کو جو وزیر خزانہ مقرر ہو نے میں گہری دلچسپی رکھتے تھے۔ ان کو وزیر خارجہ لگا دیا گیا۔ وہ تو خارجہ امور کی ابجد سے بھی واقف نہیں ہیں۔ انہوں نے تو کشمیر کے بارے استصواب رائے کے حوالے سے اقوام متحدہ کی قرارداد کے الفاظ بھی پوری طرح نہیں پڑھے ہوں گے۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ کا فلسطین کے بارے میں پالیسی بیان سے کیا وزیر خارجہ کو آگاہی حاصل ہو گی۔ بین الاقوامی امور کے درجنوں ماہرین ہماری جامعات میں موجود ہیں لیکن ان کی رشتہ داری نام نہاد بڑی سیاست دانوں کے ساتھ نہیں ہے۔ یہ ہی تو روگ ہے۔
ملک کی معیشت ڈول رہی ہے لیکن وزیر اعظم شہباز شریف کے اس اعلان کے باوجود کہ معیشت کو درست کرنے لے کئے اقدامات کئے جائیں گے لیکن وہ اپنی کابینہ کے وزرا کو 1800سی سی کی گاڑیاں بانٹ رہے ہیں۔ ان کے وزراء اپنی گاڑیاں کیوں نہیں استعمال کر سکتے۔ کیا ملک کی معیشت حالت نزاع میں نہیں ہے؟ کیا ان لوگوں کو علم نہیں کہ اب تو قرضہ بھی کوئی دینے پر آمادہ نہیں ہے۔ ایسے حالات میں تو تمام وزرا کو گاڑیوں اور ان میں پٹرول یا ڈیزل اپنی جیب سے استعمال کر نا چاہئے۔ ذاتی طور پر تو قربانی دینا کوئی نہیں چاہتا ہے۔ سب سرکاری خزانہ پر ہی بوجھ بننا چاہتے ہیں ۔ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے اپنی زیر استعمال سرکاری گاڑی کے ٹائر بدلنے کیلئے محکمہ خزانہ سے 2کروڑ 73لاکھ روپے طلب کر لیے گئے ہیں۔ مریم نواز شریف کے لئے کیا مشکل ہے کہ ٹائر اپنی جیب سے تبدیل کر لیں۔ وہ تو پنجاب میں آٹا بھی سرکاری خرچ پر تقسیم کر رہی ہیں۔ جس تھیلے پر نواز شریف کی تصویر لگی ہوئی ہے۔ سرکاری پیسہ لیکن ذاتی نمود و نمائش۔ یہ سیاست داں تو ایسے لوگ ہیں جو قومی اسمبلی اور سینیٹ میں بھی انتہائی ارزاں قیمت پر کھانا کھاتے ہیں۔ احساس بھی مر گیا ہے اور حیا بھی مر گئی ہے۔ یہ بھی تو ایک روگ ہے۔ نواز شریف ہوں یا آصف زرداری ، ان کے پاس دولت کے انبار موجود ہیں۔ یہ لوگ چاہیں تو اپنی جیب سے پیسہ لگا کر ملک کو معاشی بحران سے نکال سکتے ہیں۔
وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے تصدیق کی ہے کہ پاکستان آئی ایم ایف سے اہم مذاکرات کیلئے رسمی درخواست کرنے والا ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے ایوان صدر میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ آئی ایم ایف پروگرام میں جانا ناگزیر ہے۔ اگر وزیر خزانہ کے پاس ملک کی معیشت کو سہارا دینے کے لئے ملک ذرائع میں گنجائش نظر نہیں آتی ہے تو اپنی جیب سے کوئی نسخہ نکالیں تاکہ معیشت کا پہیہ چل سکے۔ اگر آئی ایم ایف سے ہی مسئلہ حال ہونا ہے تو ملک تاریخ کا مہنگا ترین وزیر خزانہ کیوں بھری کیا گیا ہے۔ وزیر خزانہ تو یہ بھی کہتے ہیں کہ ہم کمرشل فنانسنگ لیں گے اور بانڈز لانچ کرینگے، تھوک فروشوں، پرچون فروشوں، رئیل اسٹیٹ اور زرعی آمدن کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائیگا، مہنگائی میں کمی کا رحجان ہے، سود کی شرح بھی کم ہوگی، دوست ممالک سے رقوم جمع کرانے اور رول اوور کرانے کا دور بیت چکا، ایس آئی ایف سی بیرون ملک سے سرمایہ کاری لانے کا اہم پلیٹ فارم ہے۔ کیا نئی بات ہے۔ یہ کام تو اسحاق ڈار بھی کر رہے تھے اور کوئی بھی منشی کر سکتا ہے۔ نواز شریف اپنے سمدھی کی بجائے ذمہ داری کو بوجھ کسی اور پر ڈالنا چاہتے ہیں۔ وزیر خارجہ کی ذمہ داری تو کوئی خاص نہیں ہے۔ محکمہ خارجہ کا کاروبار تو کہیں اور سے چلتا ہے۔ اسحاق ڈار کو نواز شریف افغانستان تو بھیجیں تاکہ پاکستان کے سفارتی تعلقات کو ہی بحال کرا لیں اور اپنی وزیر خارجہ ہونے کی دھاک بٹھا لیں۔ دوسری جانب ماہر معیشت ڈاکٹر اشفاق حسن نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے بہت ہی حیران کن افسوس ناک تبصرہ کیا ہے کہ ’’ دفاعی بجٹ مستعار وسائل پر چل رہا ہے، ملکی سلامتی کا کیا بنے گا‘‘ ۔ دوسری طرف بین الاقوامی مالیاتی ادارے اور امریکا جیسے ممالک کو خدشہ ہے کہ توانائی اور انفرا سٹرکچر جیسے بڑے منصوبوں کے لیے چین سے رقم لینے کی وجہ سے پاکستان قرضوں میں پھنس سکتا ہے۔ اس کے علاوہ قرضوں کی شفافیت اور شرائط، پاکستان کو سود ادا کرنا اور اسے کب واپس کرنے سے متعلق بھی خدشات ہیں، یہی نہیں بلکہ رپورٹ میں خدشہ ظاہر کیا گیا کہ مستقبل میں ان قرضوں کا پاکستان پر کیا اثر پڑ سکتا ہے ۔ اعلیٰ سرکاری ذرائع کے مطابق پاکستانی فریق نے واشنگٹن ڈی سی میں آئی ایم ایف ہیڈکوارٹر کو ایک ای میل بھجوائی ہے تاکہ 3ارب ڈالر کے جاری اسٹینڈ بائی ایگریمنٹ پروگرام کے تحت اہم مذاکرات کئے جاسکیں اور اس کی 1.1ار ب ڈالر کی آخری قسط کا اجرا کرایا جاسکے۔ پاکستان 6 ارب ڈالر کے تازہ میڈیم ٹرم بیل آئوٹ پیکیج کے لیے مذاکرات شروع کرنے کی درخواست بھی کر سکتا ہے جو 6اب ڈالر کی توسیع شدہ فنڈ فیسلٹی کے لیے ہوگا۔ آئی ایم ایف سے ماحولیاتی حوالے سے1.5 سے 2ارب ڈالر کی فنانسنگ حاصل کرکے اسے مزید مستحکم کرنے کی کوشش کرنے کے طاقتور امکانات موجود ہیں۔ ختم شد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button