CM RizwanColumn

افغان تھریٹ کا خاتمہ ضروری

سی ایم رضوان
امریکہ نے پاکستان، افغانستان دونوں سے کہا ہے کہ وہ تحمل کا مظاہرہ کریں اور باہمی اختلافات کو بات چیت کے ذریعے حل کریں۔ امریکی صدر دفتر وائٹ ہاس کے ترجمان کا کہنا تھا کہ وہ ان خبروں سے آگاہ ہیں کہ پاکستان نے سنیچر کے روز پاکستان کی ایک فوجی چوکی پر حملے کے جواب میں افغانستان میں فضائی حملے کیے۔ ہمیں پاکستان میں حملے کے دوران ہونے والے جانی، مالی نقصان اور افغانستان میں حملوں کے دوران عام شہریوں کی ہلاکت پر گہرا افسوس ہے۔ وائٹ ہاس کی پریس سیکرٹری کرین جین پیئر کا پریس بریفنگ کے دوران صحافیوں سے مزید کہنا تھا کہ ہم طالبان پر زور دیتے ہیں کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ دہشت گرد حملے افغان سر زمین سے نہ ہوں۔ انہوں نے پاکستان پر زور دیا کہ وہ تحمل کا مظاہرہ کرے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ انسداد دہشت گردی کی کوششوں میں شہریوں کو نقصان نہ پہنچے۔ حالانکہ پاکستان کا اس معاملے میں تحمل قابل رشک ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم دونوں فریقوں پر زور دیتے ہیں کہ وہ کسی بھی اختلاف کو بات چیت کے ذریعے حل کریں۔ امریکی صدر کے دفتر کے ترجمان کا کہنا تھا کہ ہم اس بات کو یقینی بنانے کے لئے پرعزم ہیں کہ افغانستان دوبارہ کبھی دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہ نہ بنے جو امریکہ یا ہمارے دیگر شراکت داروں یا اتحادیوں کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔ یاد رہے کہ افغانستان میں پاکستانی کارروائی کا نشانہ حافظ گل بہادر گروپ بنا ہے جو پی ٹی آئی دور حکومت میں گڈ طالبان کے نام سے مشہور ہوا تھا اور اکتوبر 2021میں افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہونے کے بعد سابق وزیر اعظم عمران خان نے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا تھا کہ طالبان کے مختلف دھڑوں سے بات چیت کی جا رہی ہے۔ اس میں ایک گروپ حافظ گل بہادر کا بھی تھا۔ انہوں نے یہ موقف بھی اختیار کیا تھا کہ ان دہشت گردوں کو پاکستان واپس لایا جائے اور اس ارادے کو عملی جامہ پہناتے ہوئے وہ قبل ازیں ایسے گروپوں کو پاکستان بھی لائے تھے اور درجنوں قید دہشت گردوں کو جذبہ خیر سگالی کے تحت رہائی بھی دلوائی تھی۔ یہ طالبان تو عمران خان کی حکومت سے پہلے بھی نواز دور میں حکومت پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے لئے خان کو اپنا ضمانتی اور معاون قرار دے چکے تھے اور بعد ازاں بھی ان کی حمایت میں کام کرتے رہے تھے اور تاحال ان کی ہمدردیاں بانی پی ٹی آئی کے ساتھ ہیں۔ واضح رہے کہ نہ صرف بانی پی ٹی آئی بلکہ پی ٹی آئی دور کی فوجی قیادت جنرل قمر جاوید باجوہ اور ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید بھی ان گڈ طالبان کو قومی دھارے میں شامل کرنے کی پالیسی پر عمل درآمد کروا رہے تھے اور اب جبکہ موجودہ فوجی قیادت اس طرح کے افغان دہشت گرد عناصر کی دہشت گرد کارروائیوں کی وجہ سے ان کے خلاف قانون کے مطابق اقدامات کر رہی ہے تو یہی وہ کام ہے جس کی اپیل ماضی میں خود امریکہ بھی وقتاً فوقتاً کر چکا ہے اور پاکستان میں امن کے خواہشمند ہر اس شخص کا مطالبہ تھا اور ہے کہ اس افغان تھریٹ کا خاتمہ ضروری ہے۔ اب جبکہ گریٹ ری سیٹ ڈاکٹرائن کے تحت ایسے ملک دشمن عناصر کو دیس نکالا دیا جارہا ہے تو اصل ری سیٹ یہی سمجھا جانا چاہئے کہ ملک سے غیر قانونی افغان مہاجرین کا اور ان میں چھپے ہوئے دہشت گردوں کا انخلا فوری اور ترجیحی بنیادوں پر ہونا چاہیے۔ یہاں یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ پی ٹی آئی کے حامی بعض عناصر کی طرف سے ان گڈ طالبان کی کارروائیوں کو ایک طرف قابل مذمت قرار نہیں دیا جاتا اور دوسری طرف انتہائی ڈھٹائی اور بے شرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دہشت گردی کے ان واقعات میں شہید ہونے والے فوجی اہلکاروں کا مذاق اڑایا جاتا ہے اور ایک کم عمر بچے کو بھی پتہ چل رہا ہوتا ہے کہ ان شہیدوں کے خون سے مذاق کرنے والوں کے مقاصد کیا ہیں اور یہ کون لوگ ہیں مگر نہ جانے کیوں ہماری سول اور فوجی قیادت عرصہ دراز سے بیجا فراخ دلی اور غفلت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کو کھلی چھٹی دیئے ہوئے ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کے اکثر سیاسی رہنما اب ٹی وی پروگرامز تک میں یہ بیانیہ دے رہے ہیں کہ عوام نے سانحہ نو مئی کو اپنے ووٹوں سے بے اثر کر دیا ہے۔
ادھر پاکستان کے دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ پاکستان نے پیر کی صبح سرحد کے قریب افغانستان کی حدود میں دہشتگردوں کے خلاف انٹیلیجنس معلومات کی بنیاد پر کارروائی کی ہے۔ آپریشن میں حافظ گل بہادر گروپ سے تعلق رکھنے والے دہشتگرد ہدف تھے جو تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ پاکستان میں متعدد حملے کرنے میں ملوث ہیں، جن سے سیکڑوں عام شہری اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار مارے گئے۔ یاد رہے کہ 16مارچ کو شمالی وزیرستان میں میر علی کی سکیورٹی چیک پوسٹ پر دہشت گرد حملہ کیا گیا تھا جس میں سات پاکستانی فوجی شہید ہوئے۔ تاہم سوموار کو ہونے والے پاک فوج کے آپریشن سے متعلق افغان طالبان نے کہا کہ پاکستانی طیاروں نے افغانستان کی حدود میں پکتیکا اور خوست کے علاقوں میں بمباری کی، جس میں خواتین، بچوں سمیت آٹھ شہری ہلاک ہوئے ہیں۔ افغان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اس حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اس کے سنگین نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ افغانستان کی وزارتِ دفاع نے ایک علیحدہ بیان میں کہا کہ اس جارحیت کے جواب میں افغانستان کی سرحدی فورسز نے سرحد پار پاکستانی فوج کے مراکز کو نشانہ بنایا۔ پاکستان کے قبائلی ضلع کُرم میں پولیس ذرائع نے بتایا کہ افغان فورسز کی گولہ باری میں پاکستانی فوج کے تین اہلکاروں سمیت سات افراد زخمی ہوئے ہیں۔ افغان حکومت کو خبردار کرتے ہیں کہ وہ دہشتگردوں کا ساتھ دینے والی اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کرے۔ پاکستان کے دفتر خارجہ نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ پاکستان دو برس سے افغانستان میں دہشتگرد ٹی ٹی پی کی موجودگی سے متعلق مسلسل افغان عبوری حکومت کو اپنے تحفظات سے آگاہ کرتا رہا ہے۔ یہ دہشتگرد پاکستان کی سکیورٹی کے لئے سنگین خطرہ ہیں اور ایک تسلسل سے پاکستان میں اپنی دہشتگرد کارروائیوں کے لئے افغان سرزمین استعمال کی۔ اس کے باوجود پاکستان دہشتگردی سے نمٹنے کے لئے ہمیشہ مذاکرات اور تعاون کو ترجیح دیتا ہے۔ پاکستانی دفتر خارجہ کے مطابق ہم نے بار بار افغان حکام سے یہ مطالبہ کیا کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہو اور وہاں دہشتگرد اپنے پیر نہ جما سکیں۔ ہم نے افغان حکام سے یہ بھی کہا کہ اپنی سرزمین سے ٹی ٹی پی کے محفوظ ٹھکانوں کا خاتمہ کریں اور اس تنظیم کی قیادت کو پاکستان کے حوالے کریں۔ تاہم اس وقت افغان عبوری حکومت میں کچھ عناصر ایسے شامل ہیں جو ٹی ٹی پی کی پشت پناہی کر رہے ہیں اور اسے پاکستان کے خلاف آلہ کار کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ ہم ایسے عناصر کو خبردار کرتے ہیں کہ وہ دہشتگردوں کا ساتھ دینے والی اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کریں، جن کے ہاتھ معصوم پاکستانیوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں اور واضح طور پر پاکستانی عوام کے ساتھ کھڑے ہونے کا فیصلہ کریں۔ پاکستان نے کہا ٹی ٹی پی جیسے دہشتگرد گروہ علاقائی امن اور سلامتی کے لئے مشترکہ خطرہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان دہشتگردی پر قابو پانے کے لئے کوشاں اور کسی بھی دہشتگرد تنظیم کو روکنے کی حمایت کرے گا جو پاک افغان دو طرفہ تعلقات میں خرابی کا باعث بنے۔
یاد رہے کہ پاکستان، افغانستان کے درمیان کشیدگی کا یہ پہلا واقعہ نہیں۔ اس سے قبل بھی متعدد مرتبہ دونوں ممالک کی فوجوں میں جھڑپیں ہوتی رہی ہیں جن میں فریقین کا جانی، مالی نقصان ہوتا رہا ہے۔ پاکستان کی جانب سے دو سال قبل بھی ان ہی علاقوں کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ لہٰذا یہ احتمال کم ہے کہ پاکستان، افغانستان کے درمیان کشیدگی مزید بڑھے گی کیونکہ دونوں ممالک کی معاشی صورتحال کسی بھی جنگ کا بوجھ برداشت نہیں کر سکتی۔ البتہ سرحد پر شاید جھڑپیں چلتی رہیں اور پھر فریقین کوئی سفارتی راستہ اختیار کریں اور کشیدگی کم ہو جائے۔ واضح رہے کہ پاکستان متعدد بار افغانستان میں طالبان سے درخواست کر چکا ہے کہ جو انہوں نے دوحہ میں امریکہ سے وعدے کیے تھے کہ وہ اپنی سرزمین دہشتگردوں کو استعمال نہیں کرنے دیں گے وہ نبھائیں۔ اب بھی پاکستان کوئی کارروائی نہیں کر رہا اور پاکستان میں دہشتگردی بڑھ رہی ہے۔ ایسے میں پاکستان کی طرف سے سرجیکل سٹرائیک کرنا بہت ضروری تھا۔ افغانستان کو پاکستان مخالف عسکریت پسندوں کو غیر مسلح کرنا ہو گا اور ان کی پناہ گاہیں تباہ کرنا ہوں گی تاکہ دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کم ہوسکے۔ واضح رہے کہ پاکستانی حکومت اب بھی طالبان حکومت سے رابطے میں ہے تاکہ بیٹھ کر بات ہو سکے اور مسئلے کا دیرپا حل نکل سکے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button