ColumnTajamul Hussain Hashmi

دین میں خود رائے سے اجتناب

تجمل حسین ہاشمی
بچپن میں قاری صاحب کی جواب طلبی کا مطلب سیدھا مرغا بنانا اور کان کھینچا ہی تھا، بچپن میں ہی نماز اور قرآن کی تعلیم کے حصول میں والدین کی طرف سے سختی تھی۔ ان دنوں ماہ رمضان کا پہلا عشرہ چل رہاہے، حضرت مولانا محمد ابراہیم صاحب دامت برکاتہم نے اپنے ایمان افروز خطاب میں ماضی کی یادیں تازہ کروا دی لیکن انہوں نے ایک ایسی حقیقت سے پردہ اٹھایا جس کو سن کر شرمندگی محسوس ہونے لگی ، یہ بھی سچ ہے کہ دین اسلام کی سمجھ کبھی بھی ڈنڈے یا سختی سے نہیں آسکتی۔ انسان اگر اللہ کے وعدوں کو دل سے تسلیم نہ کر لیں تو اس کی ساری کامیابیاں ناکامیاں ہی رہیں گی ۔ ہم مسلمان ضرور ہیں لیکن ایمانی اور اعتقادی کمزوری کی وجہ سے اللہ کی طرف سے کئے گئے وعدوں پر یقین کامل نہیں رکھ پاتے۔ دھوکہ بازی، ملمع سازی اور جھوٹ کو کامیابی سمجھ بیٹھی ہیں ۔ دنیا کی حقیقت تو فانی ہے جس میں شر اور جھوٹ کو کامیابی تصور کیا جاتا ہے۔ اللہ کے احکامات کی تکمیل میں سکون اور اطمینان ہے۔ آج مولانا صاحب نے ایک ایسے تاریخی واقعہ کی حقیقت کھولی جس کو ہم اپنے بزرگوں سے سنتے آئے ہیں کہ ایک ’’ بوڑھی عورت حضور اکرم ؐ پر روزانہ کوڑا کرکٹ پھینکتی تھی لیکن ایک دن اس نے حضور اکرم پرؐ کوڑا کرکٹ نہیں پھینکا۔ حضورؐ کے معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ وہ عورت بیمار ہے تو حضورؐ اس کی عیادت کے لیے خود تشریف لے کر گئے ۔ لیکن آج مولانا صاحب کی زبانی معلوم ہوا کہ یہ واقعہ کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے، مولانا صاحب مزید فرمانے لگے کہ ہم ساری زندگی یہی سنتے آئے ہیں کہ علم حاصل کرو خواہ تمہیں چین جانا پڑے ، لیکن یہ بات بھی کسی حدیث یا مستند روایت سے ثابت نہیں ہے، اس کو بھی حضورؐ کے ارشادات سے جوڑا گیا ہے جو کہ لا علمی اور کم فہمی ہے۔
اس طرح اور بھی بہت سارے واقعات یا روایتیں ہیں جو زبان زد عام ہیں لیکن دراصل وہ مستند احادیث سے ثابت نہیں ۔ آج جب مولانا صاحب نے اس قسم کی من گھڑت روایات کی حقیقت سے پردہ اٹھایا تو مجھے انتہائی شرمندگی محسوس ہوئی کہ ہم مسلمان ہیں جو سنی سنائی باتوں پر یقین کئے بیٹھے ہیں ۔ دنیاوی تعلیم کے حصول میں لاکھوں روپے خرچ کرتے ہیں امریکہ، لندن سے بچوں کو تعلیم حاصل کراتے ہیں ، والدین کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو انگلش سکول سے تعلیم دلوائیں، انگلش فرفر آنی چاہے لیکن ہم خوب جانتے ہیں کہ اس دنیا میں سب کچھ فانی اور ختم ہونے والا ہے اس کے باوجود بھی ہم اسلامی و دینی تعلیم کے حصول اور اہم تاریخی معلومات کے سلسلے میں علمائے کرام سے رجوع نہیں کرتے حالانکہ دنیا و آخرت کی کامیابی اللہ پاک نے اپنے دین اور اپنے احکامات کی تکمیل میں رکھی ہے۔
عصر حاضر کے علماء کرام کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ قرآن اور سنت کی روشنی میں لوگوں کی درست سمت رہنمائی فرمائیں ، ماہ رمضان آتے ہی آپ کو کئی ایسی تحریریں ملیں گی جو بظاہر وہ اسلام کے مخالف نہیں لگتیں لیکن ان تحریروں کا مقصد اسلام سے دوری پیدا کرنا اور معاشرتی تفریق، اسلامی تشخص کو مجروح کرنا اور اندروں اسلام کے جڑوں کو کھوکھلا کرنا مقصود ہوتا ہے، بھونڈے تنقیدی جملے بھی اسلام سے دوری کا سبب بن رہے ہیں۔ کہتے ہیں کہ مولوی بن کر گناہ کرتا ہے حالاں کہ گناہ کرنے والے سے بھی اللہ محبت فرماتا ہے لیکن ایسا تاثر پیدا کیا جا رہا ہے کہ مولویوں سے گناہ سر زرد نہیں ہو سکتا ، تھوڑا سوچیں کوئی جتنا مرضی عالم یا علامہ ہو جائے آخر ہے وہ انسان اور وہ گندم کھاتا ہے اس سے غلطی ہونا اس کے انسان ہونے کی علامت ہے اس میں مولوی یا داڑھی کو نشانہ بنا کر اسلام سے نفرت پیدا کرنے کی ناکام کوشش کی جا رہی ہے۔ داڑھی رکھنا سنت ، اس سنت کا اجر تو ضرور ہوگا لیکن اس کے گناہ کا حساب روز محشر میں ضرور ہو گا۔ دوسرا یہ کہ رمضان آتے ہی ہم لوگوں کو تنقید کا نشانہ بنانا شروع ہو جاتے ہیں کہ کاروباری برادری غریب عوام کو لوٹے گی اور مسجدوں میں اگلی صف میں کھڑی ہو گی۔ اگلی صف میں کھڑا ہونا کا ثواب زیادہ ہے۔ اگلی صف کا اجر اگر انسان کو معلوم ہو جائے تو انسان اگلی صف کے لیے ایک دوسرے کو ٹکریں ماریں گے۔ ایسی تحریریں جس میں لوگوں کے مسجد جانے کے عمل پر تنقید ہو اور لوگوں کو ان کی غلطیوں پر شرمندہ کرنا مقصود ہو یاد رکھیں اس سے غیر مسلموں اور دین بیزار لوگوں کی سوچ کو تقویت ملتی ہے اس لیے ایسی تحریروں سے اجتناب کرنا چاہئے اور ہمیشہ مثبت سوچ رکھنا چاہیے ۔ مساجد اللہ پاک کا گھر ہیں اور ہم وہاں اپنے رب سے گناہوں کی مغفرت کرانے جاتے ہیں ۔ معافی مانگنے والے کو اللّہ پاک معاف بھی کرتے ہیں اور اس سے خوش بھی ہوتے ہیں۔ خاص کراس مہینے میں اللہ پاک اپنے بندوں کی بے حساب مغفرت فرماتے ہیں اور ان کو جہنم کی آگ سے آزاد کرتے ہیں، ہمیں یہ عظیم موقع ضائع نہیں کرنا چاہیے، یہ مہینہ بھی اگر ہمارے اوپر غفلت کے ساتھ گزر جائے اور ہم رب سے اپنی مغفرت نہ کروا سکے تو پھر حدیث پاک کی رو سے ہم ازلی بد بخت اور بدنصیب ہیں، چلیں اپنے رب کے حضور اپنے گناہوں کی معافی مانگیں میرا رب بڑا رحم کرنے والا ہے وہ سال میں ایک مہینہ رمضان کا اسی لیے عطا فرماتا ہے تاکہ ہم گناہ گار گیارہ مہینوں کے گناہ اور لغزشیں اپنے رب سے معاف کرائیں ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button