ColumnImtiaz Aasi

معاشی بربادی اور ہم

امتیاز عاصی
ہمارا ملک جن ملکوں کو قرض دیا کرتا تھا وہ معاشی اعتبار سے دنیا میں نام پیدا کر چکے ہیں ہم جو دوسروں کوقرض دیتے تھے بھکاری بن چکے ہیں۔ اس وقت ملک کو جن تین چیلنجوں کا سامنا ہے ان میں ایک معاشی دوسرا دہشت گردی اور تیسرا بڑا چیلنج کرپشن ہے جس کے خاتمے کے لئے ہماری کوشش صفر ہے۔ معاشی ترقی کا دارومدار ملک میں امن وامان کی صورت حال سے جڑا ہوا ہے اگر ملک میں امن اور سیاسی عدم استحکام ہو گا تو سرمایہ کار نہیں آسکتی جب کہ کرپشن میں کمی کی بجائے اضافہ ہوتا جا رہا ہے ہماری ترقی میں یہی تین بڑی رکاوٹیں ہیں جس کی طرف کسی حکومت نے توجہ نہیں دی بلکہ محض اقتدار میں آنے کو ترقی تصور کرتے رہے۔ 1985ء سے قبل کرپشن کے کیسز خال خال سامنے آتے تھے یہ منی لانڈرنگ جیسے کرپشن کے جدید طریقے ہمارے علم میں بھی نہیں تھے۔ چلیں ترقی میں نہ سہی کم از کم مبینہ کرپشن میں تو ہم نے دنیا میں نام پیدا کیا ہے اس کے باوجود ہمیں شرم بالکل نہیں آتی بلکہ ہم بے شرم ہو چکے ہیں۔وہ ممالک جو ہم سے امداد لیا کرتے تھے انہیں ایئر لائنز استوار کرنے کے لئے مہارت یافتہ لوگوں کی ضرورت ہوتی تو پاکستان سے لیا کرتے وہ ترقی میں کہاں سے کہاں پہنچ چکے ہیں۔ متحدہ عرب امارات کی مثال لے لیں جب وہاں ایئر لائن کا قیام عمل میں لایا گیا تو ہماری قومی ایئر لائنز کے لوگوں نے جاکر انہیں ایئر لائنز چلانے کے رموز سے آشنا کرایا تھا۔ ہماری قومی ایئر لائنز بیل آئوٹ پیکیج پر چل رہی ہے ۔ جو حکومت اقتدار میں آئی سیاسی کارکنوں کی بغیر میرٹ کے بھرتی نے قومی ایئر لائنز کا بیڑا غرق کر دیا، درمیان میں ائر لائنز کے ملازمین کو ملنے والی ہوشربا مراعات نے ایئر لائنز کو مالی بحران کا شکار کر دیا۔ پاکستان سٹیل ملز کو دیکھ لیں روس کے تعاون سے قائم ہونے والی سٹیل ملز خریدنے کو کوئی تیار نہیں۔ ملک کی معاشی حالت اس نہج پر پہنچ چکی ہے ہمیں ایئرپورٹس آئوٹ سورس کرنے پڑ رہے ہیں جو معاشی بحران سے بچنے کا آخری سہارا ہے۔
ایک جماعت کی حکومت اقتدار میں آتی ہے تو اس کی اپنی پالیسیاں ہوتی ہیں جونہی حکومت گئی نئی حکومت کی اپنی پالیسیاں آجاتی ہیں۔ ملک کے کسی شعبے میں مستقل پالیسیوں کے تسلسل کا فقدان ہے۔ اخباری بیانات کی حد تک حکومتی اخراجات میں کمی کی جاتی ہے جب کہ اس سلسلے میں عملی اقدامات کا ہمیشہ فقدان رہا ہے۔ دہشت گردی کا خاتمہ نہیں ہو پا رہا ہے ہمسایہ ملکوں سے ہمارے تعلقات خراب ہیں۔ 1965ء کی جنگ میں ہمارے طیارے تہران کے ہوائی اڈے سے فیول لے کر بھارت پر حملہ آور ہوتے تھے۔ اب نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے دہشت گردی پر قابو پانے کے لئے ہمیں ایک دوسرے کے علاقوں پر حملہ آور ہونا پڑتا ہے۔ دراصل ہماری خارجہ پالیسی متوازن نہیں ہے ہمارا جھکاو ایک ہی طرف ہے لہذا اب وقت آگیا ہے ہمیں خارجہ پالیسی کا از سرنو جائزہ لینا ہوگا۔ ایران سے گیس لینے کا معاہدہ ہوا تو امریکی پابندیاں رکاوٹ بن جاتی ہیں۔ بھلا کیوں امریکی پابندیاں صرف پاکستان کے لئے ہیں بھارت کے لئے نہیں ہیں۔ روس سے کوئی چیز لینا چاہیں تو امریکی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ملک میں امن و امان کی خراب صورت حال کے پیش نظر کوئی ملک سرمایہ کاری کے لئے تیار نہیں۔ پی ڈی ایم کی حکومت نے سترہ ماہ میں ماسوائے دوست ملکوں سے وہ بھی سپہ سالار کی کاوشوں سے قرض لینے کے بیرونی سرمایہ کاری کے لئے کیا اقدامات کئے ؟ آئی ایم ایف کا وفد پہنچ چکا ہے صرف ایک ارب ڈالر کی خاطر ان کی کون کون سی شرائط تسلیم کرنا پڑ رہی ہیں۔ اگر ہم نے اپنے گھر کو درست سمت چلایا ہوتا تو ہمیں نہ دوست ملکوں کا نہ ہی آئی ایم ایف کو دست نگر ہونا پڑ رہا ہوتا۔ غریب عوام مہنگائی کے بوجھ تلے پہلے دبے ہوئے ہیں کہ وہ مہنگائی کے نئے سیلاب کے منتظر ہیں۔ جس ملک میں اربوں کی کرپشن کرنے والوں کو کھلا چھوڑ دیا جائے اور ان کے مقدمات ختم کر دیئے جائیں وہ ملک کیسے ترقی کر سکتے ہیں؟ ہمیں تو سمجھ نہیں آتی سیاست دان ملک اور عوام سے کیا کرنا چاہتے ہیں۔ شریف خاندان اس لحاظ سے قسمت کا دھنی ہے اقتدار سے ہٹنے کے بعد کتنے نشیب و فراز آئے مگر وہ سرخرو ہو کر دوبارہ اقتدار میں آگئے۔ اب تو ماشاء اللہ ان کی اولادیں اقتدار میں آنا شروع ہو گئی ہیں ۔ سیاست دان ترقی کرتے کرتے کہاں سے کہاں پہنچ گئے ہیں ملک اور عوام گہری کھائی میں جا گرے ہیں۔ جو کام سیاست دانوں کو کرنا چاہیے وہ عسکری قیادت کو کرنا پڑ رہا ہے ۔ سپہ سالار بیرون ملکوں کا دورہ نہ کرتے تو کسی نے ایک پائی نہیں دینی تھی۔ اللہ اللہ کرکے مشکل وقت گزر گیا لیکن آئی ایم ایف کا وفد دورے پر ہے اس کی شرائط ماننا مجبوری ہے جس کا نتیجہ غریب عوام کی مشکلات میں مزید اضافے کا باعث بنے گا۔ ہمارا محصولات کا نظام درست ہوتا اور بڑے بڑے سرمایہ داروں سے ٹیکس وصولی کی جاتی تو حالات کچھ بہتر ہوتے۔ آئی ایم ایف ٹیکسوں پر کیوں ضرور دے رہا ہے کیونکہ ہم ٹیکس دینے کی طرف جانے کا نام نہیں لیتے۔ عمران خان کے دور میں کئی لاکھ لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں لایا گیا جس کا ملک کو فائدہ ہوا ۔ اس کے دور میں برآمدات اور ترسیلات زر میں اضافہ ہوا تو ملک کا ہی فائدہ ہوا۔ تارکین وطن کو اعتماد میں لیا جانا بہت ضروری ہے انہیں زیادہ سے زیادہ مراعات دی جائیں تاکہ وہ اپنی رقوم ہنڈی کی بجائے بینکوں کے ذریعے بھیجیں۔ ملک سے دہشت گردی کے خاتمے کے لئے خارجہ پالیسی پر نظر ثانی ہونی چاہیے۔ پڑوسی ملکوں سے برادرانہ تعلقات یقینی بنا کر ہم امن سے رہ سکتے ہیں ورنہ دہشت گردی کا خاتمہ خواب بن جائے گا۔ ملک سے بدعنوانی کے خاتمے کے لءے ہنگامی اقدامات کی اشد ضرورت ہے کرپشن میں ملوث لوگوں کے مقدمات کے فیصلوں میں سالوں کی بجائے چند ماہ میں ہونے چاہیں اس مقصد کے لئے عدالتوں کو کسی قسم کے دبائو سے آزاد بنایا جائے تو ہمارا ملک چند سالوں میں معاشی بھنور سے نکلنے کی پوزیشن میں آسکتا ہے ورنہ پھر بھکاری رہ جائیں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button