Column

روزہ صرف منہ باندھنے کا نام نہیں ہے

رفیع صحرائی
ماہِ صیام کے آتے ہی مسجدیں پہلے سے زیادہ آباد ہو جاتی ہیں۔ گیارہ مہینے تک دن رات کاروبار اور دیگر کاموں میں بے تحاشہ مصروف رہ کر نماز سے غفلت کرنے والے حضرات بھی اس ایک مہینے کے لیے پکے نمازی اور نیک بن جاتے ہیں۔
اس ماہِ مقدس میں جہاں لوگ نیکی کمانے کے ہر موقع سے فائدہ اٹھاتے ہیں وہیں پر دکاندار اور تاجر حضرات عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ اشیاء ضرورت اور خصوصاً کھانے پینے کی چیزوں میں تین سے چار گنا اضافہ ہو جاتا ہے۔ پھل اور سبزیاں قوتِ خرید سے باہر ہو جاتی ہیں۔ ہر ایک کا اپنا ریٹ ہوتا ہے۔ حکومتی رِٹ کی جس قدر بے توقیری ماہِ رمضان میں دیکھی جاتی ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ ہر کوئی بے خوفی سے لوٹ مار میں مصروف ہوتا ہے۔ کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا کیونکہ پوچھنے والے پہلے ہی اپنا حصہ وصول کر کے الگ ہو چکے ہوتے ہیں۔ ہر ایک کو ’’ عید بنانے‘‘ کی فکر ہوتی ہے۔ تاجر اور دکاندار الٹی چھری سے عوام کی کھال اتارنے کے بعد اپنے گناہ بخشوانے کے لیے عمرہ کرنے چلے جاتے ہیں۔
روزہ کو گناہوں سے بچنے کی ڈھال قرار دیا گیا ہے مگر روزہ رکھ کر ہر طرح کے گناہ کیے جاتے ہیں۔ جھوٹ بول کر سودا بیچا جاتا ہے۔ گاہکوں کے ساتھ بدزبانی اور بدتمیزی کی جاتی ہے۔
میرے ایک دوست بتا رہے تھے کہ انہوں نے رمضان سے پہلے ہی پانچ لاکھ روپے کی کھجوریں لے کر سٹاک کر لی تھیں۔ اب وہ انہیں تین گنا منافع کے ساتھ بیچ رہا ہے۔ میں نے اسے اس قدر ناجائز منافع خوری پر شرمندہ کرنے کی کوشش کی تو بولا ’’ میں نے بھی تو پانچ لاکھ روپے باندھ کر رکھے ہوئے تھے‘‘۔ میں نے اسے سمجھانے کی کوشش کی کہ ذخیرہ اندوزی کر کے یہ دوسرا جرم آپ نے کیا تھا مگر اسے اثر ہونا تھا نہ ہوا۔
رمضان شریف میں ایک اور رواج فیشن کی صورت اختیار کر گیا ہے۔ وہ رواج افطار پارٹیوں کا انعقاد ہے۔ حدیث شریف کے مطابق کسی کا روزہ افطار کروانے والے کو بھی اتنا ہی ثواب ملتا ہے جتنا روزہ رکھنے والے کو، مگر ہمارے ہاں یہ رواج ہے کہ افطار پارٹیاں بھی پی آر کی غرض سے دی جاتی ہیں۔ شرکت کرنے والوں کے لیے ضروری نہیں کہ انہوں نے روزہ رکھا ہوا ہو۔ دیگر لوگ بھی اپنے دوست احباب کے لیے فیشنی افطار پارٹیوں کا بندوبست کرتے ہیں جن میں نمود و نمائش کا خاص خیال رکھا جاتا ہے، کئی طرح کے کھانے اور مشروبات پیش کیے جاتے ہیں۔ بہت سا کھانا بچ جاتا ہے جو ضائع کر دیا جاتا ہے۔
یہ سب مناسب نہیں ہے۔ ان نمائشی افطار پارٹیوں کی بجائے اگر یہی رقم محلے یا پاس پڑوس کے مستحقین کے گھر خاموشی سے پہنچا دی جائے یا انہیں راشن لے کر دے دیا جائے تو ان کے روزے بھی سکون سے گزر جائیں گے۔ روزہ صرف سحری کھا کر مغرب تک منہ باندھنے کا نام نہیں ہے۔ روزے کے دوران اپنے معاملات کو درست رکھنا بھی اتنا ہی ضروری ہے۔ چلتے چلتے ایک دوست کا واقعہ بھی پڑھ لیجیے۔
میں نے دوست احباب کے لیے افطار پارٹی کا اہتمام کیا تھا۔ اس سلسلے میں پکوڑوں کا آرڈر دینے کے لیے اعظم چاچا کے پاس پہنچ گیا جن کے پکوڑے پورے شہر میں مشہور تھے۔
میں نے پوچھا، اعظم چاچا! کل میرے گھر میں افطاری ہے، قریباً پچاس احباب ہوں گے، مجھے پکوڑے چاہئیں، آپ کو ایڈوانس کتنے پیسے دے جائوں؟ چاچا جی نے میری طرف دیکھا اور سوالیہ نظروں سے مسکرائے۔ ’’ کتنے پیسے دے سکتے ہو‘‘ مجھے ایسے لگا، جیسے چاچا جی نے میری توہین کی ہے، مجھے ایک عرصے سے جانتے ہوئے بھی یہ سوال بے محل اور تضحیک آمیز لگا، میں نے اصل قیمت سے زیادہ پیسے نکالے اور چاچا جی کے سامنے رکھ دئیے، چاچا جی نے پیسے اٹھائے اور مجھے دیتے ہوئے بولے۔
’’ وہ سامنے سڑک کے اس پار اس بوڑھی عورت کو دے دو، کل آ کر اپنے پکوڑے لے جانا، میری پریشانی تم نے حل کر دی، افطاری کا وقت قریب تھا اور میرے پاس اتنے پیسے جمع نہیں ہو رہے تھے کہ اسے دے سکتا، اب بیچاری چند دن سحری اور افطاری کی فکر سے آزاد ہو جائے گی‘‘۔
میرے جسم میں ٹھنڈی سی لہر دوڑ گئی۔
’’ وہ کون ہے آپ کی‘‘؟
میرے منہ سے بے اختیار سوال نکلا۔ چاچا جی تپ گئے،
’’ وہ میری ماں ہے، بیٹی ہے اور بہن ہے۔ تم پیسے والے کیا جانو، رشتے کیا ہوتے ہیں؟، جنہیں انسانیت کی پہچان نہیں رہی انہیں رشتوں کا بھرم کیسے ہو گا؟ پچھلے تین گھنٹے سے کھڑی ہے، نہ مانگ رہی ہے اور نہ کوئی دے رہا ہے۔ تم لوگ بھوکا رہنے کو روزہ سمجھتے ہو اور پیٹ بھرے رشتے داروں کو افطار کرا کے سمجھتے ہو ثواب کما لیا۔ اگر روزہ رکھ کے بھی احساس نہیں جاگا تو یہ روزہ نہیں، صرف بھوک ہے بھوک‘‘۔
میں بوجھل قدموں سے اس بڑھیا کی طرف جا رہا تھا اور سوچ رہا تھا، اپنے ایمان کا وزن کر رہا تھا، یہ میرے ہاتھ میں پیسے میرے نہیں تھے غریب پکوڑے والے کے تھے، میرے پیسے تو رشتوں کو استوار کر رہے تھے۔ چاچا جی کے پیسے اللہ کی رضا کو حاصل کرنے جا رہے تھے۔ میں سوچ رہا تھا کہ اس بڑھیا میں ماں، بہن اور بیٹی مجھی کیوں دکھائی نہیں دی؟ اے کاش میں بھی چاچا جی کی آنکھ سے دیکھتا۔ اے کاش تمام صاحبان حیثیت بھی اسی آنکھ کے مالک ہوتے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button