Column

ہم بین الاقوامی بھکاری۔۔۔۔

ملک اسماعیل خیرال

دنیا ہمیں بھکا ری سمجھتی ہے یہ تلخ حقیقت ہے اور بھکاریوں کے ساتھ کوئی کاروبار نہیں ہوتا کوئی معاملات نہیں ہوتے بلکہ انہیں معاف کرو بابا، جان چھوڑ و۔ کل یا ابھی تو لے کر گئے ہو۔ کھلے نہیں ہیں روز آ جاتے ہو ہٹے کٹے ہو کوئی کام کیوں نہیں کرتے کہ کر یا توجہ دئیے بغیر خاموشی سے گزر کر کبھی ڈانٹ کر یا کبھی چند سکے کاسہ بھیک میں اچھال کر جان چھڑائی جاتی ہے شہباز شریف صاحب کے بقول بھکاری کبھی انتخاب نہیں کرتے یعنی بس مانگتے ہیں یا مانگنا ہرگز نہیں چاہتے ہیں پر مجبور ی جو مل جائے گزارہ کرتے ہیں اس دن اور پھر اگلے دن نئے جوش اور ولولے کے ساتھ ذلت و رسوائی کا لباس اوڑے عزت نفس جیسی خرافات سے بے نیاز کاسہ گدائی ہاتھوں میں لیے میدان میں نکل کھڑے ہوتے ہیں۔
اور یہ سلسلہ نسل در نسل چلتا رہتا ہے شاز و نادر ہزاروں میں سے کوئی ایک بندہ خلاف توقع برادری کی ناک کٹواتے ہوئے یہ روایت توڑ کر کوئی عزت دار پیشہ اختیار کر لے تو یہ الگ بات ہے۔
ایسی پی مثال ہماری مقتدرہ اشرافیہ حکمرانوں کی ہے یہ جہاں بھی جاتے ہیں بین الاقوامی برادری ادارے، دوست ممالک یا جن کے با امر مجبور ی ہمارے ساتھ کوئی مفادات وابستہ ہیں تمام دنیا پہلے سے یہ سوچ کر بیٹھی ہوتی ہے کہ ان کو کتنے دے کر کچھ عرصہ کے لیے ٹالنا یے یو ں ہمارے حکمران بجائے سرمایہ کاری کے کاروبار کے پوری دنیا سے لائیںن میں لگ کر مانگ تانگ کر بھیک اکٹھی کرتے ہیں اور جھولی بھر کے وطن عزیز لے آتے ہیں۔
پہلے خود بمعہ اپنے عزیز و اقارب دوست احباب اور کرم فرمائوں کے مال مفت دل بے رحم کے مصداق خود اس پہ ہاتھ صاف کرتے ہیں۔ اور پھر بچہ کھچے مال و متاع کی بھیک وہ بھی چند کوڑیوں کے بل حاتم طائی کی قبر پر لات مارتے ہوئے عوام کی طرف اچھال دیتے ہیں۔ اور عوام ذلت رسوائی کے احساسات کی قیود سے آزاد دیوانہ وار جھپٹتے ہیں یہی نہیں بلکہ ساتھ سرکاری ہرکاروں سے کوڑے بھی کھاتے ہیں۔ اور گالیاں بھی سنتے ہیں۔
کبھی پٹرول کی لائن میں کبھی سی این جی کبھی سستا آٹا کبھی کھاد مفت راشن تو کبھی کسی سکیم کے پیسے مرد و زن کا ہجوم لائن کے نام پر ٹرک کی بتی کے پیچھے دوڑتا رہتا۔ ہے دور بدل جاتا ہے چہرے بدل جاتے ہیں ٹرک کے ساتھ بتی کا رنگ بھی بدل جاتا ہے لیکن اس کے پیچھے، لگا ہجوم مسلسل تھکن کے احساس سے بے نیاز دوڑ رہا ہے کیو کہ عادی بنا دیا گیا ہے۔
اور عادتیں بدلنا نا ممکن نہیں تو انتہائی مشکل ضرور ہوتا۔ آخر میں ایک لوک حکایت سناتے ہوئے اجازت چاہوں گا۔۔۔ کہتے ہیں کہ گزرے ہوئے زمانے میں ایک بادشاہ نے جذبہ عشق سے مہمیز پا کر کسی پیشہ ور بھکاری عورت سے شادی کر لی اسے ملکہ بنا کر محل میں لے آیا اور دنیا کی ہر میسر آسائش اسے فراہم کر دی لیکن چند دن محل میں خاموشی سے گزارنے کے بعد عورت کیا کرتی کہ تمام ملازمین کو کسی اور طرف لگا کر روز صبح ایک مخصوص وقت میں اپنے گزشتہ دنوں کی یاد تازہ کرتے ہوئے کھانا دور رکھ کر اپنے کمرے میں بیٹھے صدا، لگاتی۔۔۔۔۔
اللہ دے ( نوالہ) اللہ دے ( نوالہ) ۔۔۔۔
ہے کوئی اللہ کا پیارا اللہ کے نام پر دینے والا۔۔۔۔

جواب دیں

Back to top button