Editorial

وزیراعظم کی معاشی بحالی کیلئے لائحہ عمل تیار کرنے کی ہدایت

پاکستان میں 8فروری کے عام انتخابات کے نتیجے میں چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ اور اسپیکرز و ڈپٹی اسپیکرز کا انتخاب عمل میں آچکا ہے۔ قومی اسمبلی کے اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر بھی چُنے جاچکے ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف بھی اپنے عہدے کا حلف اُٹھاچکے ہیں۔ جلد ہی وفاقی کابینہ کی تشکیل کا مرحلہ بھی مکمل کرلیا جائے گا۔ نئی حکومت کو سب سے اہم چیلنج معیشت کی بحالی کا درپیش ہے، جس سے عہدہ برآ ہونا چنداں آسان نہیں، لیکن یہ ایسا ہدف ہے جو ناممکن ہرگز نہیں کہلایا جاسکتا۔ معیشت کی بحالی، ملک و قوم کی خوش حالی اور ترقی کے ٹارگٹس حاصل کیے جاسکتے ہیں، بس اس کے لیے نیک نیتی، ایمان داری کے ساتھ مخلصانہ اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ عوام نئی قائم ہونے والی حکومت سے بے پناہ توقعات وابستہ کر رہے ہیں۔ اُنہیں یقین ہے کہ اس دور میں اُن کی حقیقی اشک شوئی ہوسکے گی اور ان کے تمام دلدر دُور ہوجائیں گے۔ غیر جانب دارانہ جائزہ لیا جائے تو معیشت کی خرابی کا آغاز 2018کے وسط میں ہوا تھا اور چار سال تک یہ سلسلہ بلاتعطل چلتا رہا۔ اُس وقت کی حکومت کی جانب سے محض دعوے اور بیانات سے ہی کام چلایا گیا۔ مہنگائی ہونے پر غریب عوام کی مزید چیخیں نکلنے کے بیانیے پیش کیے گئے، گرانی کا بدترین طوفان غریبوں پر مسلط کیا گیا، اس کے تدارک کے لیے کوششوں کا سوچا ہی نہیں گیا، بلکہ مہنگائی کو دعوت دینے والے اقدامات جاری رکھے گئے، اسی کا شاخسانہ ہے کہ ہر شے کے دام تین چار گنا بڑھ گئے، اس کے ساتھ ناقص پالیسیوں کا تسلسل رہا، جس کے نتیجے میں پاکستانی روپیہ آہستہ آہستہ بے وقعتی اور بے توقیری کی کھائی میں گرتا چلا گیا۔ معیشت کو وقتاً فوقتاً زک پہنچائی جاتی رہی، صنعتوں کے پہیے کو جام کرنے جیسے اقدامات کیے گئے، کاروبار دشمن پالیسیوں کا نفاذ کیا گیا، ترقی کے سفر کو بریک لگایا گیا، بڑے بڑے اداروں کو اپنے آپریشنز کو محدود کرنے پر مجبور ہونا پڑا، لاکھوں لوگوں کو بے روزگاری کا عذاب جھیلنا پڑا، سی پیک ایسے گیم چینجر منصوبے پر کام کی رفتار سست کردی گئی یا بالکل روک دیا گیا۔ سعودی عرب، چین ایسے گہرے دوستوں کو ناراض کیا گیا۔ ملک کو سفارتی تنہائی سے دوچار کرنے جیسے اقدامات کیے گئے، جو ظاہر ہے نقصان کا موجب بنے۔ ملک کی 70سالہ تاریخ میں اتنے قرضے نہیں لیے گئے، جتنے اُس چار سال کے دوران وصول کرنے کے ریکارڈ قائم کیے گئے۔ نتیجتاً آج حالات بہت گمبھیر ہیں۔ متوسط طبقہ غربت کی نچلی سطح پر زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ غریبوں کی آمدن وہی ہے، اخراجات تین چار گنا بڑھ چکے ہیں۔ پاکستانی روپیہ اپنا وقار اور معیار کھوچکا ہے۔ گو نگراں حکومت کے دور میں چند احسن اقدامات دیکھنے میں آئے، جن کے مثبت اثرات ظاہر ہوئے۔ اب بھی اگر اسی طرح کے اقدامات کیے جائیں تو کچھ ہی سال میں صورت حال بہتر رُخ اختیار کرسکتی ہے۔وزیراعظم شہباز شریف پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت میں بھی یہ منصب سنبھال چکے ہیں۔ اُنہیں بخوبی معاشی صورت حال کا ادراک ہوگا۔ اسی لیے اُنہوں نے وزارتِ عظمیٰ کا حلف لیتے ہی معاشی صورت حال کی بحالی کے لیے ہنگامی بنیادوں پر لائحہ عمل تیار کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ ملکی معیشت کو بہتر کرنے کا مینڈیٹ ملا ہے، یہ ہماری حکومت کی اوّلین ترجیح ہے۔ وزیراعظم آفس سے جاری اعلامیہ کے مطابق وزیراعظم کی زیر صدارت ملکی معیشت کی بحالی سے متعلق اجلاس ہوا، جس میں وزیراعظم کو سیکریٹری خزانہ نے ملکی معاشی صورت حال پر تفصیلی بریفنگ دی۔ وزیراعظم نے کہا کہ حکومت سرمایہ کاری کے فروغ اور کاروباری برادری کو سہولتوں کی فراہمی کے لیے کام کرے گی۔ شہباز شریف کو بریفنگ میں بتایا گیا کہ وزیراعظم کی ہدایت پر وفاقی ریونیو بورڈ ( ایف بی آر) نے 65ارب روپے کے ٹیکس ریفنڈز کلیئر کر دئیے ہیں، جس پر وزیراعظم نے کہا کہ اچھے ٹیکس دہندگان کی حکومتی سطح پر پذیرائی کی جائے گی۔ وزیراعظم نے ایکسٹنڈڈ فنڈ فیسلٹی پر عالمی مالیاتی فنڈ ( آئی ایم ایف) سے بات چیت فوری آگے بڑھانے کی ہدایت کی اور کہا کہ ایس اے ایف سی معاشی استحکام کے لیے انتہائی اہم قدم ہے، جسے مزید مستحکم کیا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو میں شفافیت لانے کے لیے آٹومیشن ناگزیر ہے، ایف بی آر اور دیگر اداروں کی آٹومیشن پر فی الفور کام شروع کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ نقصان میں جانے والے حکومتی ملکیتی اداروں کی نجکاری کی جائے گی، ایسے ادارے جن کی ضرورت نہیں ان سے متعلق حکمت عملی بنائی جائے اور ایسے اداروں کو یا تو ضم یا بند کردیا جائے۔ شہباز شریف نے حکومتی بورڈ ارکان کی مراعات میں کمی کے لیے حکمت عملی پر کمیٹی تشکیل دینے کی ہدایت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ آئندہ اجلاس فیڈرل بورڈ آف ریونیو سے متعلق منعقد کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ عوام کو سہولتیں دینے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کیے جائیں گے اور کاروباری برادری، سرمایہ کاروں اور نوجوانوں کو سہولتیں فراہم کی جائیں گی۔وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد شہباز شریف کے ملک و قوم کو مشکلات سے نکالنے کے عزائم یقیناً قابلِ تحسین ہیں۔ اُنہوں نے ہنگامی بنیادوں پر معیشت کی بحالی کے لیے لائحہ عمل تیار کرنے کی ہدایت کی ہے۔ مانا حالات مشکل ضرور ہیں، لیکن مسلسل محنت اور جدوجہد سے انہیں ملک و قوم کے مفاد میں بہتر ثابت کیا جاسکتا ہے۔ چونکہ اتحادی حکومت کا قیام عمل میں آرہا ہے تو تمام اسٹیک ہولڈرز کے کاندھوں پر بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے۔ انہیں قوم کی توقعات پر پورا اُترتے ہوئے معاشی بہتری کے لیے درست سمت کا تعین کرنا ہوگا۔ شاہانہ اخراجات اور فضول خرچیوں کے سلسلے کو بند کرنا ہوگا اور حکومتی سطح پر کفایت شعاری کی نئی مثالیں قائم کرنا ہوں گی کہ اسی کے ذریعے معاشی استحکام اور ملک و قوم کی خوش حالی کی منزل حاصل کی جاسکتی ہے۔ ملک میں وسائل کی کمی نہیں، انہیں درست خطوط پر بروئے کار لایا جائے تو تمام مسائل حل کی منزل پر پہنچ سکتے ہیں۔ پاکستان زرعی ملک ہے، کُل مجموعی آمدن کا بڑا حصّہ اسی کی بدولت حاصل ہوتا ہے۔ ملکی زراعت کو جدید خطوط پر اُستوار کرکے زیادہ سے زیادہ زرعی پیداوار کو ممکن بنایا جاسکتا ہے۔ اس سے خودکفالت کا ہدف حاصل ہوگا اور پاکستان اپنی ضروریات سے زائد اشیاء برآمد کرکے بھاری زرمبادلہ حاصل کر سکتا ہے۔ یہاں کی زمینوں میں قدرت کے عظیم خزینے پوشیدہ ہیں، انہیں تلاش کیا جائے اور بروئے کار لایا جائے۔ قرضوں کے جال سے مستقل نجات حاصل کی جائے، وسائل کے اندر رہتے ہوئے اقدامات کیے جائیں۔ سیاحت کی صنعت کو فروغ دیا جائے۔ معیشت کی خرابی کی وجوہ کا پتا لگاکر ان کا تدارک کیا جائے۔ پاکستانی روپے کو اُس کا کھویا ہوا مقام واپس دلانے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ قوم کو مہنگائی سے مکمل نجات دلائی جائے تو صورت حال ضرور جلد بہتر ہوجائے گی۔
پنجاب: پہلا سرکاری کینسر اسپتال بنانے کا اعلان
پاکستان میں صحت کے حوالے سے صورت حال تسلی بخش قرار نہیں دی جاسکتی، یہاں امراض تیزی سے پھیلتے اور بڑی آبادی کو اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں۔ کینسر ایسا خطرناک مرض ہے کہ جس کا علاج غریبوں کی استطاعت سے باہر ہوتا ہے، اُمرا اور صاحب استطاعت لوگ کینسر کا مہنگے سے مہنگا علاج کرالیتے ہیں جب کہ غربا میں اگر یہ بیماری ہو تو وہ خود کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتے اور اپنی عمر کی نقدی ختم ہونے کا انتظار کرتے ہیں۔ ملک کے آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے میں کینسر کا سرکاری اسپتال نہیں ہے، اس صوبے سے تعلق رکھنے والے کینسر کے غریب مریض رُل جاتے ہیں۔ ان کے لیے صوبے کی نئی سربراہ حکومت مریم نواز شریف نے بڑا فیصلہ کرلیا ہے اور پنجاب میں پہلا سرکاری کینسر اسپتال بنانے کا اعلان کردیا ہے۔ وہ پنجاب میں سڑکوں کی بحالی کے مشن پر بھی گامزن ہیں اور وزارتِ اعلیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد سے ہی خاصا فعال کردار ادا کررہی ہیں۔ چند روز میں ہی صوبے اور اُس کے عوام کی زندگیوں میں بہتری اور خوش حالی لانے کے ضمن میں اُن کی ترجیحات واضح ہوچکی ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کی ہدایت پر ’’سڑکیں بحال۔۔۔ پنجاب خوش حال’’ پراجیکٹ شروع کردیا گیا۔ وزیراعلیٰ نے چھوٹی بڑی رابطوں سڑکوں کی تعمیر و مرمت اور بحالی کے لیے ڈیڈلائن دے دی۔ وزیراعلیٰ کی زیر صدارت خصوصی اجلاس منعقد ہوا، وزیراعلیٰ نے نئی اور پرانی روڈز پر ایکسل لوڈ مینجمنٹ سسٹم پر عمل درآمد کی ہدایت کی۔ اجلاس میں ایکس لوڈ مینجمنٹ سسٹم کے لیے روڈز پر الیکٹرک کانٹا (Weighting Maching)نصب کرنے کی منظوری دی گئی۔ دوسری طرف وزیراعلیٰ مریم نواز نے لاہور کے علاقے ویلنشیا ٹائون کے قریب پنجاب کا پہلا سرکاری کینسر اسپتال بنانے کا اعلان کر دیا۔ وزیراعلیٰ نے ویلنشیا ٹائون کے قریب کینسر اسپتال کی مجوزہ سائٹ کا دورہ کیا، جہاں انہیں کینسر اسپتال کی سائٹ کے بارے میں بریفنگ دی گئی۔ مریم نواز نے کینسر اسپتال کے لیے دُنیا بھر سے بہترین اسپیشلائزڈ ڈاکٹرز بلانے اور مریضوں کے تیمارداروں کے لیے ہوٹل بنانے کی ہدایت کی۔ گفتگو کرتے ہوئے مریم نواز نے کہا کہ پنجاب میں کینسر کے مریضوں کے علاج کے لیے سرکاری اسپتال بنائیں گے۔ پنجاب میں پہلے سرکاری کینسر اسپتال بنانے کا اعلان ہر لحاظ سے قابل تعریف اور خوش آئند ہے۔ اب جب کہ اس کے قیام کا اعلان کردیا گیا ہے تو ضرورت اس امر کی ہے کہ اس حوالے سے تیزی کے ساتھ قدم بڑھائے جائیں، اس عظیم منصوبے کو جلد از جلد پایۂ تکمیل کو پہنچانے کے لیے سنجیدہ کوششیں کی جائیں۔ کینسر کے سرکاری اسپتال کے قیام سے خلق خدا کی بڑی تعداد مستفید ہوگی اور وہ لوگ جو اس مرض کا علاج کرانے کی سکت نہیں رکھتے اُن کی حقیقی معنوں میں اشک شوئی ہوسکے گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button