Column

گداگری ۔۔۔۔۔ پیشہ یا ۔۔۔۔۔۔ مجبوری

صفد ر علی حیدری
کوئی پندرہ برس پہلے کا ذکر ہے میری ان دنوں ایک مضافاتی علاقے میں کریانے کی دکان تھی۔
ایک دن میں دکان میں کھڑا تھا کہ ایک عجیب و غریب حلیے کے آدمی نے میرے سامنے اپنے ہاتھ پھیلا دئیے۔ میں نے پہلے اس کے ہاتھ کو اور پھر اس کے چہرے کو دیکھا۔ خاصہ ہٹا کٹا آدمی تھا۔ عمر یہی کوئی تیس کے لگ بھک رہی ہو گی۔ اپنی وضع قطع سے وہ بالکل بھی ضرورت مند نہیں لگتا تھا۔ لمبے لمبے بال، ہاتھ میں ایک رنگ برنگا ڈنڈا، کلائیوں میں کڑے ، گلے میں منکے، سبز لباس، سر پر بے تکی سی رنگ برنگی ٹوپی ، چھ چار کی مونچھیں اور ہر سمت بڑھی ہوئی بے ترتیب دھاڑی، وہ پکا ٹھکا پیشہ ور بھکاری تھا۔ اس نے منہ سے ایک لفظ بھی ادا نہیں کیا تھا۔ میں نے دراز کھول کر دس روپے کا ایک نوٹ اٹھانے کا ارادہ کیا۔ پھر اچانک ہی میرا ہاتھ پچاس کے نوٹ پر رکا اسے دبوچا اور فقیر کی ہتھیلی پر رکھ دیا ۔ مگر وہ پر اسرار فقیر اب بھی میری آنکھوں میں جھانک رہا تھا۔ اچانک اس نے اس نوٹ کو زور سے اپنی مٹھی میں پیسا اور کچلا اور میں یہ دیکھ کر اچھل پڑا کہ اس کے ہاتھوں سے پانی کا فوارہ بہہ رہا تھا جو اس نے میری ہتھیلی پر انڈیل دیا ۔ میں حیرت سے بت بنا یہ سب دیکھ رہا تھا ۔ اچانک اس نے اپنی انگلی سے مجھے ایک جانب اشارہ کیا۔ میں اس کا کاشن سمجھ گیا تھا۔ میں نے فورا ہی ایک کلو گھی کی تھیلی اٹھا کر اس کے ہاتھ پر رکھ دی۔ اس نے شہادت کی انگلی سے آسمان کی جانب اشارہ کیا اور یہ جا وہ جا ۔۔۔۔۔
مجھے چچا غالب بے طرح یاد آئے
بنا کر فقیروں کا ہم بھیس غالب
تماشائے اہل کرم دیکھتے ہیں
میں کافی دیر ایک عجیب سے کیفیت کا شکار رہا۔ جب میری محویت ٹوٹی اور میں اپنے اردگرد جائزہ لیا تو کئی افراد کو معنی خیز ہنسی ہنستے ہوئے پایا۔ ممکن ہے کبھی آپ کا واسطہ بھی ایسے ہی پہنچے ہوئے فقیروں سے ہوا ہو مگر آپ ان کے دام میں نہ آئے ہوں۔ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ کچھ لوگ اپنے حلیے اور شعبدہ بازیوں سے لوگوں کو خوب متاثر کرتے اور خوب خوب لوٹتے ہیں ۔
دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا
بس اڈوں ریل سٹیشنوں ویگن سٹینڈ کھیل کے میدانوں ، پارکوں انتظار گاہوں، شادی ہالز، مالز وغیرہ میں جس مخلوق کا آپ سے اکثر سامنا رہتا ہے اسے فقیر یا گداگر کہتے ہیں ۔
اب سوال یہ ہے کہ یہ مخلوق کسی مجبوری کے تحت ہاتھ پھیلاتی ہے یا یہ کوئی پیشہ ہے۔۔۔۔
سو میں سے ننانوے لوگوں کا جواب شاید یہی ہو گا کہ ننانوے فیصد افراد یہ کام باقاعدہ ایک پیشے کے طور پر اپناتے ہیں ظاہر ہے یہ ایک ایسا پیشہ ہے کہ جس میں خسارے کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہوتی ۔ اور آپ یہ بات تو بخوبی جانتے ہیں کہ ہر وہ پیشہ یا کاروبار جس میں نقصان کا اندیشہ ہی نہ ہو رزق حلال کہلاتے کا ہرگز مستحق ہو نہیں سکتا۔
اور اس گداگری کے حوالے سے تو اسلام کا موقف بڑا واضح ہے اور اس فعل کی شدید مذمت وارد ہوئی ہے اس حوالے سے عہد نبویؐ کا ایک واقعہ اتنا مشہور ہے کہ ہر مسلمان کو ازبر ہے۔
ایک آدمی نے بھیک مانگی تو آپؐ نے اسی کا گھر کا سامان بیچ کر اسے کلہاڑی لیکر دی، اس کا دستہ بھی اپنے ہاتھ سے ٹھوک کر دیا اور پھر یہ ہوا کہ چند دن بعد جب وہ آیا تو خوشی سے پھولے نہیں سماتا تھا کہ اس کی روٹی روزی کا مسئلہ حل ہو گیا تھا۔
اس پر آپؐ نے جو کلمات ادا کیے سنہری حروف میں لکھے جانے کے قابل ہیں۔ آپؐ نے فرمایا کہ قیامت کے دن تیرے چہرے پر مانگنے کی ذلت کا نشان نہیں ہو گا۔ یعنی اس کا چہرہ کالا نہیں ہو گا نورانی ہو گا۔
آئیے جائزہ لیں کہ گداگری نے ہمارے معاشرے میں کس رنگ روپ میں موجود ہے۔ گداگری ہمارے یہاں کا آج کا مسئلہ نہیں ہے۔ یوں سمجھیں کہ قیام پاکستان کے ساتھ ہی جس پہ پیشے نے اپنا آپ نمایاں کیا ہے اس میں گداگری بھی شامل ہے ۔ اور اس پیشے نے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نہ صرف اپنی ہیت بدلی بلکہ بے مثال اور بے حساب ترقی کی ہے ۔ اس شعبے کی ترقی کا یہ عالم ہے کہ ہم نے اسے برآمد کرنا بھی کب کا شروع کر رکھا ہے ۔ ہماری افرادی قوت دنیا کے بیشتر ممالک میں اپنی اعلی کارکردگی کا لوہا منوا چکی ہے۔ اب ہم مختلف عنوانات کے تحت گداگروں کا جائزہ لیتے ہیں
عادی گداگر
یہ گداگروں کی اعلیٰ قسم ہے اور اپنے شعبے سے اس حد تک مخلص ہیں کہ بھوک سے مر جائیں مگر بھیک مانگنا نہیں چھوڑیں گے ۔ یہ گداگر ہر چوک چوراہے پارک مجمع اڈے درباروں مسجدوں میں با افراط پائے جاتے ہیں۔ انداز ایسا نرالا اور اچھوتا ہے کہ یہ بھیک نہیں مانگتے جگا ٹیکس وصول کرتے ہیں۔ من چاہی رقم اینٹھنا اور وصول کیے بغیر نہ ٹلنا ان کی امتیازی خصوصیات میں شامل ہے، اور تو اور اگر کسی ’’ شوم ‘‘ سے ان کا پالا پڑے اور انہیں کچھ ہاتھ نہ آئے تو آنکھیں نکال کر دیکھنا اور زبان دکھا دکھا کر بد دعا دینا بھی ان کی خاص خوبی ہے۔ ایسے گداگر باقاعدہ مختلف علاقوں کے اڈے بھتا دے کر لیتے ہیں۔ سنا ہے خاص جگہوں کے لیے موٹی موٹی بولیاں لگتی ہیں۔ شاہی بھکاری بھکاریوں کی یہ قسم اپنے نام کی طرح خاص ہے۔ یہ بھیگ نہیں مانگتے احسان کرتے ہیں، لگتا ہے ان کو بھیک دینا سراسر دینے والے کے حق میں مفید ہوتا ہے۔ ان کا حلیہ عجیب طرح کا ہوتا ہے۔ چہرے پر جلال ضرور نظر آئے گا۔ یہ اپنی دانست میں خود کو زاہد سمجھتے ہیں ساتھ ہی ان کا انداز ایسا بے نیازانہ ہوتا ہے کہ جو بھی دیکھے انہیں زاہد سمجھے ۔ ایک ایسا زاہد جسے دنیا و مافیہا کی ہرگز کوئی احتیاج نہ ہو ۔ لہذا کو کچھ انکو دے دیا جائے تو ایسا روکھے پھیکے انداز اور ناگواری سے لیتے ہیں جسے دینے والوں کی سات پشتوں پر احسان کر رہے ہوں، ان کے انداز سے یہ بھی لگتا ہے کہ سلوک کے یہ راہی اپنا من مارنے کے لیے یہ سب کر رہے ہوں ۔ ورنہ کہاں وہ کہاں دنیا کی آلائشیں۔۔۔۔
اس حوالے سے اپنا ایک ذاتی واقعہ آپ کے گوش گزار کرنا چاہوں گا
مجھے امید ہے کہ آپ یہ پڑھ کر حیران ضرور ہوں گے
کچھ عرصہ پہلے کا ذکر ہے کہ میں اپنے ایک دوست کی دکان پر بیٹھا تھا کہ اتنے میں سولہ سترہ سالہ نوجوان جس نے سفید لٹھے کا لباس پہن رکھا تھا باقاعدہ رقص کرتا ہوا دکان میں داخل ہوا اور آتے ہی اس نے ہاتھ پھیلا دئیے۔ اور گویا ہوا ’’ میں نے منت مانی تھی کہ اگر اللہ مجھے بھائی دے گا تو میں بھیک مانگ کر دیگ کے پیسے جمع کروں گا اور پھر دربار پر خیرات کروں گا ‘‘۔
مجھے آج بھی یہ واقعہ یاد آتا ہے تو اس شخص کی جہالت پر افسوس بھی ہوتا ہے اور ہنسی بھی آتی ہے
کوئی اس سے پوچھے کہ بھائی تیرا پیدا ہوا ہے اور تو جیب ہماری کاٹے گا ۔
معذور بھکاری
بھکاریوں کی یہ قسم ہر جگہ کثرت سے پائی جاتی ہے ۔ ان میں سے کچھ معذوری کا ڈرامہ کرتے ہیں حالانکہ وہ ٹھیک ٹھاک ہوتے ہیں۔ کچھ قدرتی طور پر یعنی پیدائشی معذور ہوتے ہیں اور اکثریت ان لوگوں کی ہوتی جن کو بچپن میں باقاعدہ طور پر معذور کر دیا جاتا ہے۔ ان میں عام طور پر اغوا شدہ بچے بھی کافی تعداد میں ہوتے ہیں جن کو بے رحم گداگر اپنے بڑھاپے کے سکھ کے لیے عمر بھر کے لیے معذور بنا دیا کرتے ہیں
ایسے بھکاریوں کے معذور ہونے کی وجہ خواہ کچھ بھی رہی ہو یہ لوگ انسانی ہمدردی کو ڈھال بنا کر لوگوں سے پیسے اینٹھتے ہیں اور نرم دل افراد انکا آسان شکار ہوتے ہیں ۔ یہ لوگ غضب کے اداکار ہوتے ہیں اور کم وقت میں موٹی رقم کمانا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہوتا ہے
موسمی بھکاری
بھکاریوں کی یہ قسم خاص موسموں اور خاص مہینوں میں اچانک فیلڈ میں اترتی ہے اور خوب مال بناتی ہے۔ رمضان انکا فیورٹ مہینہ ہوتا ہے۔ مال زکوٰۃ فطرہ اور صدقات کی مد میں یہ لوگ اپنا حصہ بآسانی وصول پاتے ہیں۔ اس کے علاوہ محرم اور ربیع الاول بھی ان کے پسندیدہ مہینے شمار ہوتے ہیں۔ اندھی سیلاب طوفان زلزلہ وغیرہ جیسی آفات ان لوگوں کے سیزن کا کچھ اور بڑھا دیا کرتے ہیں۔ یہ سیزنل بھکاری کم وقت میں آباد ہاتھ مار لیتے ہیں اور صابر و شاکر ایسے کہ مخصوص حالات و موسم میں ہی بھیک مانگنے پر یقین رکھتے ہیں۔ اور جو مل جائے اسی پر گزر بسر کر لیتے ہیں
سرکاری بھکاری
بھکاریوں کی یہ قسم زکوٰۃ کے پیسوں پر پلتے ہیں اور جب سے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام شروع ہوا ہے اس شعبے نے انقلابی ترقی کی ہے ۔ ہر مہینے کے ابتدائی دنوں میں یہ مخلوق ان دکانوں کی لائنوں میں پائی جاتی ہے جہاں جاز کیش کی سہولت دستیاب ہوتی ہے ۔ ہیلتھ کارڈ اور احساس پروگرام نئی پراڈکٹ ہیں اور مارکیٹ میں خوب ان ہیں۔ قوم کو بھکاری بنانے میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام نے کلیدی کردار ادا کیا ہے جس کا کریڈٹ اس پارٹی کو ضرور ملنا چاہیے جس نے روٹی کپڑا اور مکان کا گمراہ کن نعرہ لگا کر قوم پر روٹی کپڑا اور مکان کے دروازے ان ہر بند کر دئیے ہیں۔
فنکار بھکاری
یہ عجیب طرح کے بھکاری ہیں کہ بھکاری ہو کر بھی خود کو بھکاری کہلوانا اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ یہ ڈرا کر مانگتے ہیں نہ گڑگڑا کر یہ اپنا فن دکھا کر اپنی روزی کماتے ہیں ۔ کبھی پولس والا بن کر کبھی گردن اور بازو میں چھری گھسا کر اور کبھی طرح طرح کے بہروپ بھر کر یہ سامنے آتے اور روزی کما کھاتے ہیں
تاجر بھکاری
چوکوں چوراہوں پارکوں بس کے اڈوں ویگن سٹینڈز شادی بیاہ میلوں ٹھیلوں میں عام پائے جاتے ہیں، ان کا طریقہ واردات یہ ہے کہ یہ کم قیمت چیزیں ہاتھ میں لے کر اور لفافہ بغل میں دبا کر چاہتے ہیں کہ ان کی پانچ کی چیز پچاس میں نکل جائے۔ چیزیں بیچنے کے ساتھ ساتھ یہ لوگ اپنی مجبوریوں کی قصے بھی سناتے پائے جاتے ہیں۔ چہرے پر مسکینی کے تاثرات انکی نمایاں خوبی ہے۔ شروع میں یہ طریقہ کار مفلس لوگوں نے اپنایا جسے بعد پیشہ ور بھکاریوں نے اچک لیا۔ انہی میں ان افراد کو بھی شامل کر لیں کہ جو کسی پرچے پر اپنی مجبوریوں کے قصے لکھوا کر ساتھ لیے پھرتے ہیں۔
مجرم بھکاری
بھکاریوں کی یہ خطرناک قسم منشیات بردہ فروشی اور چوری ڈکیتی کی وارداتوں میں ملوث پائی جاتی ہے ، اس میں مرد و زن دونوں شامل ہیں۔ گھروں کے اندر تک میں اس گروہ کی عورتیں نفوز کر جاتی ہیں ۔ ریکی کرتی ہیں اور معلومات اپنے ساتھی مردوں تک پہنچاتی ہیں – اگر دائو چل جائے تو گھروں کے اندر تن تنہا بھی واردات کر ڈالتی ہیں ۔ بعض دفعہ یہ گھریلو ملازمین کے روپ میں بھی ریکی کرتی پائی گئی ہیں ، ان لوگوں کا ڈسا پانی نہیں مانگتا۔
عمر بھکاری
یہ ایسے افراد ہیں جو بھکاریوں کی لسٹ مظلوم ترین طبقہ ہے، ان کے گھر والے انہیں بھیک مانگنے پر مجبور کرتے ہیں ایک بڑی تعداد ان کی بھی ہوتی ہے جن کے بچے انہیں تنہا چھوڑ جاتے ہیں، یقینا ایسے لوگوں کے لیے پناہ گاہیں ہونی چاہیے تاکہ اپنی زندگی کے آخری ایام وہ وہ عزت سے جی سکیں، یہ تو تھیں پیشہ ور بھکاریوں کی کچھ موٹی موٹی اقسام اب ہم اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ ان بھکاریوں نے ہمارے سماج میں کس طرح کے اثرات بد چھوڑے ہیں۔ میرے خیال میں پیشہ ور بھکاریوں نے اس سے بڑا نقصان ہمارے ہمدردی کے جذبات کا کیا ہے ۔ ہمارے اندر مظلوموں محروموں مسکینوں کے لیے جو ہمدردی کے جذبات ہیں وہ ان لوگوں نے سرد کر ڈالے ہیں۔ بعض دفعہ ہم مدد کرنے پر آمادہ ہوتے ہیں لیکن اس ڈر سے کہ ہمیں دھوکہ نہ ہو جائے ہاتھ روک لیتے ہیں ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بعض اوقات ہم مستحق لوگوں کو ٹھکرا دیتے ہیں اور فراڈیوں سے لٹ جاتے ہیں۔ دوسرا بڑا نقصان یہ ہے کہ ہم ان لوگوں کی قدر ہی نہیں کر پاتے جو اپنی مجبوریوں کو معذوری میں بدلنے نہیں دیتے۔ ہم نہ اسے سراہتے ہیں نہ ان کی پذیرائی کر پاتے ہیں جو انتہائی نامساعد حالات کے باوجود اپنی زندگی کی گاڑی کو جیسے تیسے گھسیٹتے رہتے ہیں مگر مستحق ہونے کے باوجود ہاتھ نہیں پھیلاتے ۔ یاد پڑتا ہے کہ ایک بار میں ملتان میں تھا۔ میرے سامنے ایک گدھا گاڑی کھڑی ہوئی تھی اچانک کوئی اچھل کر ریڑھی پر ان گرا۔ میں سمجھا کوئی بچہ ہے جو شرارت کرتا پھر رہا ہے۔ جب غور کیا تو پتہ چلا کہ وہ ایک مرد تھا جس کی دونوں ٹانگیں نہیں تھیں لیکن اپنی روزی کمانے کے لیے گدھا گاڑی چلاتا پھر ریا ہے۔ دل چاہا آگے بڑھوں اور اشفاق احمد مرحوم کی طرح اس سے آٹوگراف کے لوں۔ ہمارے دل میں کبھی ان کی مدد کا خیال نہیں جاگتا۔ اور ہم ہمیشہ پیشہ ور بھکاریوں کے نرغے میں پائے جاتے ہیں۔ تیسری بات یہ کہ ہر قوم خود انحصاری کی منزل تک پہنچ کر ہی زندگی قوم کہلانے کی مستحق قرار پاتی ہے۔ جب کہ معاشرے کا یہ نا اہل اور ہڈ حرام طبقہ خود کوئی کام تو کرتا نہیں الٹا سماج میں ہڈ حرامی کی ترغیب کا باعث بنتا ہے۔ اور یوں سماج میں ایمان داری محنت لگن سے روزی کمانے کے جذبات بجائے پروان چڑھنے کے سرد پڑنے لگتے ہیں۔ آخر میں مجھے اپنے معاشرے کا گلہ کرنا ہے کہ ان کی نظر میں ایسے لوگوں کے لیے کوئی احترام نہیں جو باوجود کمزور ہونے کے ہاتھ نہیں پھیلاتے بلکہ اپنی زندگی کی گاڑی کھینچنے کے لیے معمولی معمولی کام کرتے پائے جاتے ہیں اگر ہم معاشرے سے گداگری کی لعنت کو ہمیشہ کے لیے ختم کرانے چاہتے ہیں تو ہمیں معمولی کام کرنے والے عام افراد کو پوری پوری عزت دینا ہوگی ۔ ان کی خواجہ خوب حوصلہ افزائی کرنا ہو گا تاکہ سماج میں بھیک مانگنے کی روک تھام ہو سکتے اور معاشرے میں مثبت رویوں کو فروغ مل سکے، اگر ہم چاہتے ہیں کہ معاشرے سے گداگری کی لعنت ختم ہو تو ہمیں عادی و پیشہ ور بھکاریوں کی حوصلہ شکنی کرنا ہو گی ۔
پیشہ ور بھکاریوں کو پہچاننا بالکل بھی دشوار نہیں کہ ہمیں ہر روز انکا سامنا رہتا ہے، وہ واقعی ایک با کمال فنکار تھا۔ لائیو شو میں آفریں آفریں اس مہارت سے گایا کہ سحر طاری کر دیا۔ یوں لگا جیسے نصرت پھر سے دنیا میں لوٹ آیا ہو۔ جب اس سے پوچھا گیا کہ کیا کرتے ہو
و یہ کہتے ہوئے ذرا بھر نہ شرمایا کہ بوٹ پالش کرتا ہوں ۔
پھر آبدیدہ ہو کر کہنے لگا میری ماں غبارے بیچتی ہے اور اچھا نہیں لگتا جب وہ لوگوں سے چاول مانگتی ہے۔
میری دلی خواہش ہے کہ وہ پھر کبھی ایسے نہ کرے ، اس ہندو کی بات سن کر میں شرم سے پانی پانی ہو گیا۔
کاش ہم میں بھی ایسی حمیت پیدا ہو جائے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button