Column

برصغیر میں عروج و زوال کی داستان

کامران کھوسو

ہندوستان ( برصغیر) ایک وسیع ملک تھا۔ اتنا بڑا کہ اسے چھوٹا براعظم کہا جاتا۔ اس کا ساحل پانچ ہزار میل تھا ۔ خشکی کی سر حد کوئی چھ ہزار میل ہوں گی۔ شمال میں ہمالیہ پندرہ سو میل تک پھیلا ہوا تھا۔ بندھیا چل نے ہندوستان کو دو حصوں میں تقسیم کر رکھا تھا۔ ہندوستان اپنی زرخیزی کی وجہ سے غیر قوموں کو اپنی طرف مائل کرتا رہا۔ صدیوں تک جنوبی قوموں کا تمدن شمالی ہندوستان کو متاثر کرتا رہا ۔ حملہ آور قوموں کی نسلیں آج بھی بندھیا چل کے اس پار شمالی ہندوستان کی نسبت بہت کم دکھائی دیتی ہیں۔ مختلف قوموں کے یہاں آنے سے ہندوستان میں مختلف تمدنوں کا ایک مجموعہ تیار ہو گیا۔ ہر تمدن ہندوستان کو متاثر کرنے کے بعد خودکسی دوسرے تمدن سے متاثر ہوتا رہا۔ نو حجری عہد میں ہندوستان میں دو قومیں بستی تھیں جس کی یاد گار آج تک نیل گری کی پہاڑیوں میں باقی ہے۔ اس کے بعد کول اور بھیل اقوام نے ہندوستان کو اپنا گھر بنایا۔ صدیوں بعد دراوڑوں نے ان قوموں کو جنوب کی طرف دھکیل دیا۔ کول دراوڑ کے قد چھوٹے رنگ کالے پیلے اور ناک چپٹی تھی۔ دراوڑ ابتدا میں شمالی ہندوستان میں آباد ہوئے لیکن آریائوں نے ان کے ساتھ وہی سلوک کیا جو دراوڑ کولوں اور بھیلوں سے کر چکے تھے۔ آریائوں نے دراوڑوں کو شمالی ہندوستان سے نکال دیا۔ وہ جنوبی ہندوستان میں چلے گئے۔ آج جنوبی ہندوستان میں دراوڑوں کی اکثریت ہے۔ ان کی زبانیں ہندی آریائی زبانوں سے مختلف ہیں۔ شمالی ہندوستان میں دراوڑ شہری تمدن کے مدارج تک پہنچ چکے تھے۔ ان کا تمدن سومیری تمدن سے ملتا جلتا تھا۔ ہڑپہ اور موہنجو داڑو کی کھدائیوں نے ان کے تمدن کی عظمت کو ہمارے سامنے دکھا دیا ہے۔ ان شہروں کا تمدن صدیوں کی آغوش میں پلاہو گا۔ مصر ، عراق اور ایران کی تہذیبوں کے پہلو بہ پہلو دراوڑی تہذیب بھی اپنی قدامت اور عظمت کی داستان کھنڈرات کی شکل میں دکھائی دیتی ہے۔ موہنجوداڑو اور ہڑپہ آریائوں کے آنے سے صدیوں پہلے شہرت حاصل کر چکے تھے ۔ سندھ اور پنجاب کا تمدن مصر اور عراق کے ہم عصر تمدن سے کسی طرح پیچھے نہیں تھا۔ ان شہروں کے لوگ سوتی کپڑا بننا جانتے تھے۔ گھروں میں غسل خانے تھے۔ شہریوں کے مکان بہت بلند اور صاف ہوتے تھے۔ ان کا مذہب مصریوں اور سومیریوں سے ملتا جلتا تھا۔
آریا تقریبا 1500قبل از مسیح یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے 1500سال پہلے شمالی ہند کی راہ سے ہندوستان میں داخل ہوئے۔ سوم رس پینے والے جو ایک قسم کی شراب تھی جس کے پینے سے آنکھیں چمکدار ہو جاتی تھیں۔ آریا وسط ایشیا سے ہندوستان میں پیدل ننگے پائوں چل کر آئے ۔ گورا رنگ ساتواں ناک دراز قد جو وسط ایشیا سے ہندوستان کی زرخیزی دیکھ کر وارد ہوئے۔ گھوڑے کا گوشت کھانے والے اور گھوڑی کا دودھ پینی والے آریا جفا کش دلیر اور بہادر تھے۔
قدیم ہند ( بر صغیر) کی تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ برصغیر کے قدیم باشندے چھوٹے قد کے اور سیاہی مائل رنگت کے تھے۔ وسطی ایشیا سے آریا اور راجپوت قبائل ان پر حملہ آور ہوئے اور ان کے مقابلے میں فتح سے ہمکنار ہوئے۔
اس کے بعد انہوں نے تمام مقامی باشندوں کو مذہبی جبر و تشدد کے ذریعے اپنے مذہب کو اپنانے پر مجبور کیا اور اس کے ساتھ ہی ذات پات کا نظام رائج کیا۔
آریائوں کی آمد کے ساتھ ساتھ یا ان سے پہلے شمالی مشرقی ہندوستان برما بنگال آسام کے درّوں سے منگولی قومیں بھی ہندوستان میں داخل ہوتی رہیں۔ آریا شمال مغربی ہندوستان کی راہ سے داخل ہوئے۔ شمالی ہندوستان میں وہ صدیوں تک دراوڑوں سے لڑنے کے بعد پنجاب پر قابض ہوئے۔ پنجاب سے وہ گنگا کی وادی میں پہنچے۔ جہاں آریائوں کی سیاست اور تہذیب اپنے عروج پر پہنچی۔ مگدھ میں ایک عظیم الشان آریہ سلطنت کی بنیاد پڑی۔ مگدھ کی سلطنت کے زمانہ میں گوتم بدھ کا ظہور ہوا۔ گوتم بدھ ہمالیائی ریاست کپل وستو میں پیدا ہوئے۔ بدھ نے اپنے زمانہ کی تمام مجلسی برائیوں کے خلاف بغاوت کی۔ اس کا مذہب عوام کی زبان میں عوام کے لئے تھا۔
گوتم بدھ کی تعلیمات میں سے ایک بات میٹرک 1965ء کی تاریخ میں لکھی ایک بات یاد ہے۔
’’ دنیا دکھوں کا گھر ہے ۔ دکھ خواہشات سے پیدا ہوتے ہیں‘‘
ایران کے بادشاہ سارا نے سندھ اور پنجاب کے کچھ علاقوں پر قبضہ کر لیا۔ سکندر نے بھی 336قبل از مسیح میں ہندوستان کا رخ کیا۔ پورس نے اس کا مقابلہ کیا۔ سکندر دل چھوڑ کر یونانی فوجیں جہلم اور بیاس کے کناروں سے واپس ہوئیں۔ پاٹلی پترافتح کرنے کی ہوس لے کر سکندر کو واپس جانا پڑا۔ یونانی تہذیب نے شمالی ہندوستان کو متاثر کیا۔ سکندر کے جانے کے بعد پنجاب سے چند رگپت موریا اُٹھا۔ اس کے وزیر چانکیہ کی ’’ ارتھ شاستر‘‘ نظم و نسق حکومت پر غالباً پہلی کتاب ہے۔ موریا خاندان کے شہنشاہ اشوک کا عہد حکومت رفاہ عامہ کے کاموں سے بھرا پڑا ہے۔ موریا سلطنت کی تباہی کے بعد پانچ سو سال تک ہندوستان میں کوئی مرکزی حکومت دکھائی نہیں دیتی۔ اس زمانہ میں ساکا او یوچی قوموں نے ہندوستان پردھاوا بولا۔ ساکا قوم کا سب سے مشہور بادشاہ کنشک تھا۔ اسی زمانہ میں بدھ مت اور برہمن مت میں کشمکش ہوئی۔ پُران بھی اسی زمانہ کی یادگار ہے۔ چوتھی صدی عیسوی میں گپت سلطنت قائم ہوئی۔ اب پاٹلی پترا کی جگہ اجین کو ہندوستان کی مرکزیت حاصل ہوئی۔ یہ زمانہ برہمن مت کے انتہائی عروج کا زمانہ ہے۔ بکر ما جیت اسی خاندان کا ایک حکمران تھا۔ گپت خاندان کے عہد حکومت میں ہندوستانی علوم و فنون اور صنعت وحرفت نے خوب ترقی کی ۔ ہندوستان اور روم میں تجارتی تعلقات قائم ہوئے۔ جنوبی ہندوستان کے لوگوں نے جاوا اور سماٹرا میں اپنی نوآبادیاں قائم کیں۔ گپت خاندان کے زوال کے بعد ہندوستان پھر بیرونی حملہ آوروں کا شکار ہوا۔ اب کے سفید ہن قوم نے شمالی ہندوستان کو تخت و تاراج کیا ٹیکسلا کو تباہ و برباد کیا آج بھی کھنڈرات موجود ہیں ۔ جاٹ اور گوجر اسی قوم کے مشہور قبائل تھے۔ مہر گل ہن قوم کا مشہور بادشاہ تھا۔ وہ ہاتھیوں کو پہاڑوں سے گرا کر ان کے مرنے کا تماشا کرتا اور خوش ہوتا۔ ساتویں صدی میں ہرش وردھن نے ہندوستان کو متحد کرنے کی کوشش کی۔ اس کے نظم و نسق کو ہیون سانگ ہم تک پہنچاتا ہے۔ ہرش وردھن اگر چہ بدھ مت کا پیرو کار تھا لیکن اس کے عہد میں شمالی ہندوستان میں برہمن مت نے زور پکڑ لیا تھا۔ لگ بھگ 600عیسوی ہرش وردھن کی موت کے بعد ہندوستان کی مرکزیت ختم ہو گئی۔۔ اسلام اس وقت عرب کے صحرائوں میں پھل پھول رہا تھا۔
712 عیسوی میں محمد بن قاسم دیبل کے راستے غالبا کراچی کی طرف سے سندھ میں داخل ہا ۔ راجہ داہر کو شکست دی اور ملتان تک پہنچا ۔ لیکن کوئی اسلامی ریاست نہیں بنائی لیکن سندھ کے لوگوں پر کافی اثر چھوڑا۔ سندھ کے لوگوں نے محمد بن قاسم کی مورتیاں بنا لیں۔ برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کی اکثریت ان افراد پر مشتمل ہے جنہوں نے ہندو مذہب چھوڑ کر اسلام کو اختیار کیا۔
اس کے بعد افغان اور غزنی سے محمود غزنوی نے ہندوستان پر سترہ حملے کئے۔
اس کے بعد محمد غوری نے لاہور کے راجہ جے پال اور پرتھوی راج کو شکست دے کر نئی سلطنت کی بنیاد ڈالی اور اپنے ایک غلام قطب الدین ایبک کو اس کا سربراہ بنایا۔ یہ پہلی اسلامی ریاست تھی جو خاندان غلاماں کے نام سے مشہور ہوئی ۔ التمش۔ رضیہ سلطانہ اور غیاث الدین بلبن۔ مشہور باد شاہ تھے۔
التمش اور رضیہ سلطانہ کو خلجیوں نے فتح کیا۔ علائوالدین خلیجی مشہور بادشاہ تھا۔ خلجیوں کو خاندان تغلق نے فتح کیا جونا خان محمد بن تغلق اور فیروز شاہ تغلق مشہور بادشاہ تھے۔
۔ جونا خان محمد بن تغلق کے زمانے میں مشہور سیاح ابن بطوطہ ہندوستان آیا۔ اور بہت معلومات اپنے سفر نامے میں لکھیں۔ فیروز تغلق اور غیاث الدین تغلو مشہور بادشاہ تھے
محمود شاہ تغلق کمزور بادشاہ تھا۔ امیر تیمور کے حملے نے تغلق خاندان کے وقت کو خاک میں ملا دیا دہلی کو تیمور لنگ نے تہس نہس کیا۔ اور دہلی میں خون کی ندیاں بہادیں۔ کھوپڑیوں کے مینار بنائے۔ امیر تیمور نے کوئی مستقل حکومت نہیں بنائی لوٹ مار کر کے چلا گیا۔ اور خضر خان نے خاندان سادات کی بنیاد ڈالی۔ سید خاندان کی کمزوری دیکھ کر بہلول لودھی نے دلی پر قبضہ کیا اور لودھی خاندان کی بنیاد ڈالی۔ سکندر لودھی اس خاندان کا مشہور بادشاہ تھا۔ سکندر لودھی نے آگرہ شہر آباد کیا اور آگرہ کو دارالحکومت بنایا ۔ سکندر لودھی کے بعد ایک کمزور حکمران ابراہیم لودھی بادشاہ بنا۔ جس کو بابر نے پانی پت کے میدان میں شکست دے کر مغلیہ سلطنت کی بنیاد ڈالی۔
بابر وسط ایشیا کی ریاست فرغانہ کے امیر عمر شیخ میرزا کا بیٹا تھا۔ والد کی وفات کے وقت بابر کی عمر بارہ سال تھی۔ بھائیوں اور چچا کی مخالفت کی وجہ سے فرغانہ کو چھوڑ کر در بدر پھرتا رہا۔ پتھریلے پہاڑوں پر ننگے پائوں چلتے ہوئے اس کے پائوں اتنے سخت ہو گئے کہ کانٹا چبھتے کا احساس بھی نہیں ہوتا تھا۔ اس نے بارہ ہزار فوج اکٹھی کی اور کابل پر قبضہ کیا ۔ ہندوستان کی زرخیزی اور دولت دیکھ کر اس نے بارہ ہزار فوج سے ہندوستان پر حملہ کر دیا۔1526عیسوی میں پانی پت کے میدان میں ابراہیم لودھی کی ایک لاکھ فوج کو شکست دی اور مغلیہ سلطنت کی بنیاد رکھی۔ رانا سانگا کو شکست دی اور اپنی سلطنت کو مضبوط کیا۔ بابر اتنا جفاکش تھا کہ دو آدمیوں کو اٹھا کر قلعے کی دیوار پر دوڑ لگاتا تھا۔
بابر بڑا مردم شناس تھا۔ ایک دفعہ بابر نے تمام حکومتی امرا کو دعوت دی ۔ دعوت میں شیرشاہ سوری بھی امرا میں شامل تھا۔ شیر شاہ سوری نے بابر کے سامنے پڑا گوشت کا ٹکڑا اپنا خنجر نکال کر کاٹ کر کھانے لگا۔ دعوت ختم ہونے پر بابر نے اپنے ولی عہد ہمایوں کو تنبیہ کی کہ اس شخص شیر شاہ سوری سے بچ کر رہنا۔
پھر ہمایوں کو شیر شاہ سوری نے شکست دی۔ ہمایوں ایران بھاگ گیا۔ جب شیر شاہ کے جانشین کمزور ہوئے تو ایرانی بادشاہ کی مدد سے دوبارہ سوری حکمران پر حملہ کیا اور اس کو شکست دے کر بادشاہ بنا۔ لیکن پانچ سال کے بعد فوت ہوا۔
ہمایوں کے بیٹے اکبر کی عمر بارہ سال تھی۔ اس کے استاد بیرم خان نے جلال الدین اکبر کے نام سے اکبر کو تخت پر بٹھایا اور خود اس کا سرپرست بن گیا۔
اکبر نے پچاس سال حکومت کی دیں الہی کے نام سے ایک نیا دین جاری کیا۔ ہندو عورتوں سے شادی کی جہانگیر ایک ہندو عورت کے بطن سے پیدا ہوا۔
اکبر کے بعد جہانگیر تخت پر بیٹھا ۔ تزک جہانگیری میں زنجیر عدل کا ذکر ملتا ہے۔ اس کے بعد شاہ جہاں بادشاہ بنا ۔ شاہ جہاں کو عمارتیں بنانے کا شوق تھا اس کو انجینئر بادشاہ بھی کہتے ہیں ۔ تاج محل۔ شالیمار باغ اور ٹھٹھہ کی مسجد شاہ جہاں قابل ذکر ہیں۔ شاہ جہان بیمار ہوا تو اس نے بڑے بیٹے دارا شکوہ کو ولی عہد بنایا۔ اورنگزیب عالمگیر دکن میں مرہٹوں سے لڑ رہا ٹھا ۔ اس کو پتہ چلا تو تخت نشینی کی جنگ چھڑی۔ جس میں اورنگ زیب فتح یاب ہوا۔ شاہجہاں کو قید کرکے بھائیوں کو شکست دی اور تخت پر بیٹھ گیا۔ اس نے بھی پچاس سال حکومت کی۔ لاہور کی بادشاہی مسجد اورنگزیب عالمگیر نے بنائی۔ اس کی وفات کے بیڈ جانشین کمزور ہوتے گئے تیمور اور مغل خون میں ملاوٹ کی وجہ سے سست ہو گئے۔ جس نی محمد شاہ رنگیلا جیسے بادشاہ پیدا کئے۔ نادر شاہ نے بھی دلی پر حملہ کیا خوب دولت لوٹی ۔ مشہور کوہ نور ہیرا اور تخت طائوس بھی ساتھ لے گیا۔
ہندوستان جس کی دولت کے افسانے سکندر کے زمانے سے یورپ جا رہے تھے۔
واسکوڈے گاما ایک عرب ملاح کی مدد سے راس امید جنوبی افریقہ کا چکر کاٹتا ہوا ہندوستان ( برصغیر) کے ساحلی مقام کالی کٹ پر پہنچا۔ ہندوستان کے لوگوںنے اپنی روایتی مہمان نوازی کے پیش نظر اس نووار د کا استقبال کیا۔ کالی کٹ کے راجہ زیمورن کو کیا خبر تھی کہ بدو کے افسانوی اُشتر کی طرح پرتگیز بھی اسے خیمہ سے باہر نکالنے کی فکر میں ہیں۔ پرتگیزوں نے کالی کٹ میں ایک فیکٹری قائم کی۔ تین سال بعد کالی کٹ کے سینہ پر ایک پرتگیزی قلعہ نظر آیا۔ تھوڑی مدت بعد پرتگیزی عَلم گواکی دیواروں پر لہرایا۔ کالی کٹ کے لزبنی مہمانوں نے زیمورن کے شاہی محلات کو نذر آتش کرنے سے گریز نہ کیا۔ میز بان کی خدمت میں مہمان کا ہدیہ تشکر! پرتگیزی آخر اس ملک کے ساحل پر پہنچ گئے۔
1492عیسوی میں کولمبس ہندوستان ڈھونڈتا ہوا امریکہ جا نکلا اور نیا بر اعظم امریکہ دریافت ہوا۔
آسٹریلیا بھی ایک جہاز ڈان جیمز کک نے دنیا کے گرد چکر پورا کرتے ہوئے ڈھونڈ نکالا۔
انگریز بھی تجارت کی غرض سے ہندوستان آئے۔ مغل بادشاہ جہانگیر کو کچھ تحفے تحائف دئیے اور تجارت کی اجازت مانگی۔ اجازت ملنے کے کچھ عرصے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی کلکتہ میں قائم کی۔ اور بڑھتی بڑھتے اسی ایسٹ انڈیا کمپنی نے مغلیہ سلطنت کو کھوکھلی کرنا شروع کر دیا۔ بالآخر 1858کی جنگ آزادی میں مغلیہ سلطنت کے آخری چشم و چراغ بہادر شاہ ظفر کو جلا وطن کر کے رنگوں بھیج دیا اور وہاں ہی وہ فوت ہو گیا۔ اور انگریز پورے ہندوستان کے مالک بن گئے۔ 14اگست 1947کو آزادی ملی۔
تاریخ میں بہت سے حملہ آور آتے رہے اور کچھ لاتے رہے۔ اور کچھ لے کر جاتے رہے۔
آج سے تین ہزار سال پہلے جو لوگ موجود تھے اب ان کی نسلوں میں بہت ملاوٹ ہو گئی ہے۔ جو بھی آیا اپنا نشان چھوڑ گیا۔ خالص کوئی نہیں۔ اسی طرح راجپوت بھی خالص نہیں رہے۔ سارے حملہ آور اپنا حصہ ڈالتے رہے۔
مغل بھی خالص نہیں رہے۔ بابر چنگیز اور تیمور کا مکسچر تھا۔ اس کے بعد اکبر اعظم نے ہندوئوں سے شادی کی تو جہانگیر تو مکسچر تھا۔ آگے والے اسے بھی زیادہ مکسچر تھے۔ انگریزوں نے بھی اپنا حصہ ڈالا۔ اور اینگلو انڈین کے نام سے نئی قوم وجود میں آئی۔
آج کے بر صغیر میں دیکھیں تو شمال مغرب کے لوگ گورے چٹے اور ساتواں ناک والے ہیں۔ شائد ہی کوئی پٹھان کالے رنگ کا ہو جو کراس نسل ہے۔ جوں جوں آپ جنوب کی طرف جائیں تو لوگ سانولی رنگت کے نظر آئیں گے ۔ گورے چٹے بھی ہیں۔ اور جنوبی ہندوستان میں کالے اور چپٹی ناک والے زیادہ نظر آئیں گے۔ شائد ہی کوئی گوڑا اور گندمی ہو ۔ جو کراس نسل سے ہو گا۔ بنگال میں زیادہ تر لوگ کالے چپٹی ناک والے ہونگے۔ لیکن کچھ خوبصورت اور گندمی رنگت والے بھی نظر آئیں گے۔ فلمسٹار شبنم اس کی ایک مثال ہے۔
کراچی میں بھی کچھ لوگ حبشی نسل کے گھنگریالے بالوں والے ملیں گے جن کو مکرانی کہتے ہیں۔ یوں بر صغیر میں تمام حملہ آوروں اور باہر سے آنے والوں نے اپنا اثر ڈالا۔
حملہ آور دورہ خیبر کے ذریعے آتے رہے۔ آریا آئے۔ سکندر آیا منگول آئے۔ افغان۔ لودھی سوری۔ مغل جس راستے سے گزرتے گئے اپنا بیج بوتے گئے۔ کون خالص ہے؟۔ جو آدمی جرمنی سے شادی کرے اور بچے پیدا کرے۔ کیا وہ خالص ہے ؟
اگر کوئی ناروے یا انگلینڈ سے شادی کرے۔ بچے پیدا کرے۔ کیا وہ خالص ہیں؟۔ نہیں مکس ہیں۔ بچے یہاں ایڈجسٹ نہیں ہو سکتے۔ ہم سب کراس ہو کر نئی نئی نسلیں نکل رہی ہیں۔ اصلی کوئی نہیں
صدیاں گزر گئیں ۔ اسلام تو 14سو سال پہلے آیا تھا۔
لیکن 3000سال پہلے آریا آئے اور سکندر بھی اسلام سے پہلے آیا بلکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے پہلے بھی کافی حملہ آور آئے۔ اس وقت نکاح کا کوئی conceptنہیں تھا۔ سب رل مل گئے۔ گڈ مڈ ہو گیا۔ کیا خیال ہے۔
ہمارے آبائو اجداد کوئی سعودی عرب سے نہیں آئے تھے۔ اسلام تو آیا 610عیسوی میں۔ اور ہمارے پاس دو تین سو سال بعد آیا اسے پہلے لوگ یا بدھ ازم یا ہندو ازم مانتے تھے۔ ابھی بھی ٹیکسلا ۔سوات۔ افغانستان میں مہاتما بدھ کی مورتیاں اور کھنڈرات موجود ہیں۔ ہم ہندوئوں سے مسلمان ہوئے ہیں۔
مغل بادشاہ تاج محل قلعے بنواتے۔ اور دال رو ٹی پکتی۔ اسی روٹی پر گزارا ہوتا۔ فوج میں جو سپاہی لڑتے وہ بھی روٹی دال کی خاطر۔ تنخواہ کا کوئی conceptنہیں تھا۔ اور نہ ہی اتوار کی چھٹی۔
یہ انگریز دور میں ملزمین کو ہر ماہ کی پہلی تاریخ کو تنخواہ ملتی تھی اور ہفتے میں ملازمین کو ایک اتوار کی چھٹی ہوتی۔
یہ سب میرے والد صاحب بتاتے تھے۔ کہ پہلے انگریزوں کے دور میں بھی کما کر کھاتے ہیں اور آزادی کے بعد بھی کما کر کھاتے ہیں۔ اور بزرگوں سے بھی یہی سنا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button