Ali HassanColumn

تحمل کا مظاہرہ وقت کا تقاضہ ہے

علی حسن
پاکستان کے عام انتخابات جو 8فروری کو ہوئے، تضادات اور تنازعوں کے باوجود جیسے تیسے کر کے قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیاں قائم ہو گئیں۔ اراکین کی حلف برداری ہو گئی۔ الیکشن کمیشن کے فارم 45اور فارم 47کے تحت منتخب اراکین نے حلف اٹھا لئے۔ لیکن تنازعہ بدستور اپنی جگہ موجود ہے۔ الیکشن کمیشن نے قوانین اور ضابطوں کو بنیاد بنا کر ایک سیاسی جماعت سے اپنی عداوت پوری کی۔ اگر الیکشن کمیشن کے ریکارڈ کی چھان بین کی جائے تو اکثر سیاسی جماعتوں کے انٹرا پارٹی الیکشن کے علاوہ درجنوں خامیاں سامنے آئیں گی لیکن کمیشن نے سب سے صرف نظر کیا۔ اگر قانون کے احتساب کا ملبہ پاکستان تحریک انصاف پر گرا۔ عمران خان کے نامزد امیدوار مصائب زدہ راستوں سے گزر کر عوام کے ووٹوں کی بھاری تعداد حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ ان کے مقابلے میں کم نشستیں حاصل کرنے والی جماعتوں نے بغلگیر ہو کر حکومت سازی کر لی۔ وفاقی سطح پر ن لیگ وزارت عظمیٰ حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔ صدارت کے لئے سابق صدر آصف علی زرداری امیدوار ٹھہرے۔ پاکستان کے آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبہ پنجاب میں حکومت کی باگ ڈور ن لیگ کے حوالے کر دی گئی۔ خیبر پختونخوا میں آزاد امیدوار جنہوں نے کونسل میں شرکت کر لی ہے، حکومت سازی کر لی ہے۔ وغیرہ۔ یہ مرحلہ مکمل ہوا۔ اب صبر و ضبط کے ساتھ برد باری کا تقاضہ ہے کہ حکومت کی اور حکومت کی جو بنیادی ذمہ داری ہوتی ہے اسے انجام دیا جائے۔ پاکستان کے عوام معاشی اور سماجی طور پر پریشانی کے جس درجے پر کھڑے ہیں، اس کا تقاضہ ہے کہ اراکین اسمبلی اور حکومتوں پر گرفت رکھنے والے افراد عوام کو پریشانیوں سے نجات دلائیں بجائے اس کے کہ حکومت کو لاٹری تصور کر کے لوٹ مار کو ذریعہ بنایا جائے۔
قومی اسمبلی اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں میں ابتداء میں جو کچھ دیکھنے میں آیا ہے وہ کسی ایسی صورت حال کو جنم نہ دے دے جو فساد کو سبب بن جائے۔ قومی اسمبلی میں نواز شریف کی طرف پانی کی بوتل پھینکی گئی، وہ انہیں تو نہیں لگ سکی لیکن یہ کیا عمل تھا۔ ایک دوسرے کے خلاف نعرے بازی کی گئی۔ ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے مخالفین کا خیال ہے کہ حکومت سازی ان کا حق تھا جسے مختلف حربوں سے چھینا گیا ہے۔ اسمبلی میں چور چور کے نعروں کے جواب میں گھڑی چور کے نعرے لگائے گئے۔ اسی وجہ سے وہ در عمل کا اظہار کر رہے ہیں۔ خیبر پختونخوا اسمبلی میں رکن ثوبیہ شاہد پہلے روز گھڑی لہراتی رہیں، بعض اراکین نے انہیں سمجھایا بھی لیکن پھر آپس میں نعرہ بازی ہو گئی۔ گھڑی لہرانے سے ان کی مراد کیا تھی انہیں ہی علم ہوگا۔ دوسرے روز انہیں نے جوتا لہرایا۔ بعض اراکین نے انہیں سمجھایا لیکن وہ جذبات میں مغلوب تھیں۔ محترمہ رکن کو یہ سمجھنا چاہئے کہ اسمبلی کے اندر جوتا دکھانا غیر قانونی ہونے کے ساتھ ساتھ غیر اخلاقی قدم ہے جس پر اراکین دست و گریبان بھی ہو سکتے ہیں۔ اس صورت حال کو سنبھالنا ، کسی کے لئے بھی آسان نہیں ہوگا۔ سابق مشرقی پاکستان اسمبلی میں پاکستان میں پہلے مارشل لا ء کے نفاذ سے قبل اراکین اسمبلی گتھم گتھا ہوئے، ایک رکن کے ہاتھ کرسی آگئی اس نے وہ اچھال دی جو اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر جواس وقت اجلاس کی صدارت کر رہے تھے جو جا کر لگی۔ وہ زخمی ہوگئے۔ اراکین کی اس کارروائی نے سب ہی کو چونکا دیا تھا۔
فوج کے سربراہ جنرل محمد ایوب خان نے پاکستان میں پہلے مارشل لاء کے نفاذ کے موقع پر جو تقریر کی تھی، وہ خصوصا سیاست دانوں کو بار بار پڑھنے کی دعوت دیتی ہے۔ انہوں نے اپنی تقریر میں کہا تھا ’’ جیسا کہ آپ کو علم ہے کہ یہ انتشار انگیز حالات ان خود غرض لوگوں کے پیدا کئے ہوئے ہیں جنہوں نے سیاسی لیڈروں کے روپ میں ملک کو تباہ کیا یا ذاتی فائدے کے لئے اس کا سودا کرنے کی کوشش کی۔ ان میں سے بعض نے اپنا حق سمجھ کر کیا، اور بعض سے جو پاکستان کے تصور ہی کے خلاف تھے اعلانیہ طور پر اسے ختم کرنے کی کوشش کی یا کم از کم اس کی مشکلات کو سنگین بنانے میں اپنا امکانی زور صرف کیا۔ اس کو مقصد خود غرضی یا ہوس اقتدار کے سوا کچھ نہ تھا۔ اس دوران کمزور اور کم ہمت حکومتیں انتہائی تغافل اور بزدلی سے تماشہ دیکھتی رہیں اور انہوں نے حالات بگڑنے اور ابتر ہونے اور نظم و ضبط کو تباہ ہونے دیا۔ قائد اعظمؒ اور لیاقت علی خان کی وفات کے بعد سے ہی ان سیاست دانوں کی کمینگی، فریب و دھوکے اور پستی کی کوئی حد نہ رہی۔ چونکہ ان کے پاس کوئی تعمیری چیز پیش کرنے کے لئے نہ تھی‘‘۔
تقریر تو طویل ہے۔ یہاں تو صرف ان کا حوالہ دینا مقصود تھا کہ قارئین کو بتایا جائے کہ پہلا مارشل لا ء کیوں نافذ ہوا تھا۔ اس زمانے کے سیاست دانوں نے بھی ایوب خان کی تقریر سے اتفاق نہیں کیا تھا لیکن مارشل لا ء تو نافذ کیا جا چکا تھا۔
سیاستدانوں کو بتانا یہ مقصود ہے کہ اگر جمہوریت جاری رہے گی تو انہیں بھی اقتدار مل ہی جائے گا۔ اس لئے صبر و ضبط کا مظاہرہ ہر حال میں کیا جانا چاہئے۔ جمہوریت کو موروثی اقتدار نہیں بنانا چاہئے۔ جمہوریت اور بادشاہت کے درمیان فرق رکھنا چاہئے۔ پاکستان میں جمہوریت ہے جسے برقرار رہنا چاہئے لیکن اسے خاندانی ورثہ نہیں بنانا چاہیے جیسا ن لیگ، پیپلز پارٹی یا کچھ اور جماعتیں کر رہی ہیں۔ جمہوریت کے لبادے میں بادشاہت سے شعوری طور پر اجتناب برتنا چاہئے۔ جنرل ایوب خان نے اپنی پہلی تقریر میں یہ بھی کہا تھا کہ جہاں تک ان کا ( سیاست دانوں) کا تعلق ہے اگر ملک و قوم جہنم میں چلی جاتی ہے تو ان کی بلا سے۔ بعض باعزت و حرمت افراد اس سے مستثنیٰ تھے لیکن ان اشخاص کا ضمیر مردہ ہو چکا تھا اور اسمبلیوں میں ان کے بے شمار حامیوں کی ہر روز بدلنے والی جماعتی وفاداریوں کی وجہ سے وہ بے اثر ہو چکے تھے۔ ایک آدمی کے لئے اگر وہ صاحب ضمیر ہے تو دو کام بہت مشکل ہیں۔ مذہب تبدیل کرنا اور جماعتی وفاداریوں کو بدلنا۔ لیکن اسمبلیوں میں ہمارے نام نہاد نمائندے بڑی آسانی کے ساتھ اپنی وفاداریوں کو تبدیل کرتے رہے اور ان کے ضمیر پر معمولی سا بھی اثر نہیں ہوا ہے۔ وہ بنیاد جس پر پاکستان مین جمہوریت چلائی گئی ہی اور یہ سب کچھ اسلام کے مقدس نام پر ہوا ہے اور اس دوران میں ہمارے مذہب اور ثقافت کے تمام اعلیٰ تصورات تباہ کئے جاتے رہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ملک میں مکمل انتظامی، اقتصادی، سیاسی اور اخلاقی ابتری پیدا ہو گئی ہے جسے ان خطرناک حالات میں برداشت نہیں کیا جا سکتا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button