ColumnImtiaz Aasi

آئی ایم ایف کو یقینی دہانی کے مطابق انتخابات ہوئے؟

امتیاز عاصی
یہ ان دنوں کی بات ہے جب ہمارا ملک گرے لسٹ سے بلیک لسٹ میں جارہا تھا۔ہماری عسکری قیادت اور خفیہ ادارے کے سربراہ نے بڑی محنت سے ملک کو بلیک لسٹ میںجانے سے روکنے میں اہم کردار ادا کیا۔مسلم لیگ نون کے سنیئر رہنما اور سابق وزیر دفاع خواجہ آصف کے اس بیان سے ہمیں یاد آیا ان کا کہنا ہے ایف اے ٹی ایف قانون سازی فوج کی مداخلت سے ہوئی اس مقصد کے لئے قانون سازی کیلئے وہ آئی ایس آئی میں جاتے رہے۔ہمیں خواجہ صاحب کی اس بات سے اتفاق ہے تاہم افسوس اس بات کا ہے انہوں نے ساری باتیں بتانے نے جانے کیوں گریز کیا۔ملکی افواج اور اس نے ملحقہ اداروں کی ملک وقوم کے لئے خدمات کا ہر کوئی معترف ہے ۔سرحدوں کی حفاظت ہو یا داخلی امن وامان ہو افواج پاکستان کی خدمات یقینی طور پر قابل تعریف ہیں۔ظاہر ہے عمران خان کے دور میں چیف آٗ ف آرمی جنرل آصف باجوہ اور آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل فیض حمید تھے۔دراصل ایف اے ٹی ایف کے دو بڑے مطالبے تھے ایک منی لانڈرنگ کے خلاف قانون سازی اور دوسرا ٹیرر فنانسنگ کو کسی طریقہ سے روکنا مقصود تھا۔ہماری عسکری قیادت کوشش نہ کرتی تو ہمارا ملک یقینی طور پر گرے لسٹ سے بلیک لسٹ میں چلا جاتا جس کے بعد جو کچھ ہونا تھا اسے روکنا کسی کے بس کی بات نہیں تھی۔عسکری قیادت ملک کو کسی طریقہ سے گرے لسٹ سے نکالنے کے لئے کوشاں تھی دوسری طرف اس وقت کی اپوزیشن عمران خان کی حکومت کے ساتھ اس معاملے پر تعاون کرنے کو بالکل تیار نہیں تھی۔ہم اس کڑے وقت میں اس وقت کے وفاقی وزیر خزانہ حماد اظہر کی شبانہ روز محنت کی تعریف نہ کریں تو بہت بڑی زیادتی ہوگی جنہوں نے دن رات ایک کرکے عسکری قیادت سے مل کر ملک کو معاشی لحاظ سے مشکلات سے دوچار ہونے سے بچایاتھا۔خواجہ آصف کو ایف اے ٹی ایف کے اس قضیے کی ساری تفصیلات پر روشنی ڈالنی چاہیے تھی۔درحقیقت اس وقت کی اپوزیشن کا ایف اے ٹی ایف بارے قانون سازی سے انکار کی اصل وجہ یہ تھی ان کا سب سے بڑا مطالبہ یہ تھا مسلم لیگ نون اور دیگر سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں کے خلاف قائم ہونے والے منی لانڈرنگ اور دیگر مقدمات ختم کئے جائیں۔قارئین کو یاد ہوگا ان دنوں آئی ایف ایم کی نائب صدر نے زمان پارک میں عمران خان سے بھی ملاقات کی تھی جس میں عمران خان نے کسی قسم کی رکاوٹ بنے بغیر صرف ایک شفاف انتخابات کا مطالبہ کیا تھا ۔چنانچہ عمران خان کو فیئر الیکشن کرانے کی یقین دہانی کے بعد ہی آئی ایف ایم کے ساتھ حکومت پاکستان کی انڈر سٹینڈنگ ہوئی جس کے بعد ہمیں آئی ایم ایف قرض ملاتھا۔اب سوال ہے کیا حالیہ انتخابات وعدے کے مطابق شفاف اور غیر جانبدارانہ ہوئے ہیں؟پی ڈی ایم کے دور میں اس وقت کے وزیراعظم شہباز شریف نے عوام کو اپنے کپڑے بیچ کر سستا آٹا فراہم کرنے کی بجائے اپنے خلاف منی لانڈرنگ کا مقدمہ ختم کرنے کو فوقیت دی جس میں وہ پوری طرح کامیاب ہوئے۔ چنانچہ شہباز شریف اور ان کے ہونہار بیٹے حمزہ شہباز کے خلاف منی لانڈرنگ کا مقدمہ ختم ہو گیا۔عوام اچھی طرح جانتے ہیں پی ڈی ایم کے دور میں نیب قوانین میں جس سطح پر ترامیم کی گئی وہ بھی سیاسی تاریخ کا سیاہ باپ ہے ۔پی ڈی ایم دور میں حکومت کو کسی اپوزیشن کا سامنا نہیں تھا لہذا حکومت نے نیب قوانین میں من پسند ترامیم کرکے اپنے اور ساتھیوں کو مقدمات سے بچا لیا۔جس روز سیاسی رہنما ذاتی مفادات کی خول نہیں نکلیں گے ہمارے ملک کے معاشی اور دیگر تمام مسائل حل ہو جائیں گے ۔سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے جو حکومت اقتدار میں آتی ہے اس کے رہنماوں کی اولین ترجیحی ذاتی مفادات کا حصول ہوتا ہے۔دور جانے کی ضرورت نہیں پی ڈی ایم کے سترہ ماہ کے دور میں ملک وقوم کے کون ساے مسائل حل ہوئے ہیں کسی دوست ملک نے قرض دیا وہ عسکری قیادت کی کاوشوں کا مرہون محنت ہے ۔ملک وقوم کی بڑی بدقسمتی ہے ہمیں جھوٹ بولنے والے سیاسی رہنمائوں سے واسطہ پڑا ہے جن کی زندگی کا مقصد عوام سے جھوٹ بول کر ووٹ لینے کے بعد ذاتی مفادات کی تکمیل ہے۔بھلا سوچنی کی بات ہے حکومت خواہ کسی جماعت کی ہو انہیں ملک کے معاشی مسائل حل کرنے کے لئے نہ کہ عسکری قیادت اور خفیہ اداروں کے پا س جانا چاہیے ۔اب ہر طرف عمران خان کے خط کا شورغوغا ہے اللہ کے بندوں اگر اس نے آئی ایم ایف کو کوئی خط لکھا بھی ہے تو اس میں زیادہ سے زیادہ اس نے آئی ایم ایف کو اس وعدے کی یاد دہانی کرائی ہو گی جس میں ملک میں شفاف اور غیر جانبدارانہ کرانے کا عہد کیاگیاتھا ۔عمران خان آئی ایم ایف کو قرض دینے سے تو نہیں روک سکتا اس نے تو اس وعدے کی یاد دہانی کرائی ہو گی جس میں متعلقہ لوگوں نے مملکت میں شفاف انتخابات کرانے کا وعدہ کیا ہوگا۔اگرچہ پی ٹی آئی ،جماعت اسلامی ،جے یو آئی ،اے این پی اور جی ڈی اے کے نزدیک الیکشن میں مبینہ طور پر دھاندلی ہوئی ہے تو اس کا فیصلہ اعلی عدلیہ نے کرنا ہے۔ہر طرف فارم 45 اور فارم47 پر بحث مباحثہ ہو رہا ہے ۔متاثرہ جماعتوں نے احتجاجی تحریک شروع کر رکھی ہے لیکن انتخابات میں ہونے والی مبینہ دھاندلی کو ثابت کرنا عدالتوںکا کام ہے ۔بعض جماعتوں نے احتجاج کو صوبوں تک محدود کر رکھا ہے جو اس امر کا غماز ہے الیکشن میں مبینہ دھاندلی کے خلاف احتجاج کرنے والی جماعتوں میں یکسانیت نہیں ہے ورنہ متاثرہ سیاسی جماعتوں میں انتخابی دھاندلی کے خلاف یک جہتی ہوتی وہ اسلام آبادکارخ کرتیں۔بہرکیف سیاسی رہنماوں کو عوام سے سچ بولنے کی عادت ڈالنی چاہیے۔خواجہ آصف کو اپنے بیان میںیہ بات بھی بتانی چاہیے تھی سیاسی رہنماوں کے خلاف منی لانڈرنگ کے مقدمات ختم کرانے کی شرط پر آئی ایم ایف نے تعاون کرنے کا وعدہ کیا تھا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button