ColumnTajamul Hussain Hashmi

واہ واہ میں گھرا انسان

تجمل حسین ہاشمی
روزانہ کی ہیر پھیر کس کام کی جب بندے کی زندگی کی کوئی گارنٹی نہیں، پھر ادھار پر کاروبار کس کام کا، جس میں انسان کی عزت ہی نہ رہے، جھوٹ ، فریب سے کمائی جانے والی روزی میں انسان اپنے اور فیملی کے لیے دونوں جہانوں کا عذاب سمٹ رہا ہے۔ حرام کے پیسے کی ریل پیل میں انسان خود عذاب سمٹ رہا ہوتا ہے۔ وہ لمبی چوڑی گاڑی، ہاتھ میں دو موبائل اور دو گن مین، امپورٹڈ سگریٹ، لمبے موٹے دوست جو اپنے قد کاٹ کی دہشت رکھتے ہوں لیکن جیبیں ان کی بھی خالی، کسی کے پیسے سے اپنے وزن کو سہارا دیتے، تہذیب کس بلا کا نام ہے ان کو کیا پتہ کہ رشتے، احترام اور تعلیم کیا ہوتی ہے۔ ان کو قریب سے دیکھنے کی چاہت ہوئی، لمبی گاڑی، دو موبائل اور چار گن مین رکھنے کی چاہت ہوئی، اس کے روزانہ بھرم دیکھتا تھا۔ علاقہ میں اس کی واہ واہ سنتا۔ ویٹر کی 500روپے ٹپ، فقیر کو 500کا نوٹ، پسٹل اور سگریٹ کا کش، ابھی بھی یاد ہے لیکن وہ اب اس دنیا میں نہیں رہا۔ موت نے اس کو گھیر لیا اور وہ دنیا سے چلا گیا، میں سمجھتا تھا کہ اس کے پاس بڑا پیسہ ہو گا، اس کے بچے آرام دہ اور پر سکون زندگی گزار لیں گے لیکن ایسا نہیں تھا، سگریٹ کے پیکٹ اور ہوٹل پر بیٹھنے والے سب دوست بھاگ گئے، اس کی زندگی اور مال کو سلام تھا، لیکن مرنے کے بعد قبر کا حساب تو اس کا ہے۔ قبر کے حالات کیسے ہوں گے، دنیا والوں کو کیا خبر، اس کی گاڑی اور مال تو اوروں کا تھا۔ اس کے دروازے پر کھڑے لوگ جب آوازیں دیتے ہوں گے۔ وہ اب اس دنیا میں نہیں جس کو اپنے گھر کے پردے کا بڑا خیال تھا۔ ایک مخلص دوست نے خوب کہا ’’ اس نے اپنی زندگی میں موت کو شامل نہیں کیا ، اگر موت کو شامل کرتا تو آج گھر کا پردہ سلامت اور کوئی دستک بھی نہیں دیتا ‘‘۔
یہی سچ ہے جس کو دور حاضر میں لوگ نہیں سمجھ رہے لیکن آج کل لوگ سچے کم جھوٹے زیادہ ہیں، بس پیسہ آ جائے بھلے کہیں سے اور کسی کا بھی ہو۔ دوسرے کے مال پر ہاتھ صاف اور اعتبار کی کوئی فکر نہیں۔ اسی لیے بے حس انسانوں کی تعداد زمین پر زیادہ ہو چکی ہے۔ اسی لیے تو نفسا نفسی ہے۔ اب صاف گو کو کڑوا اور منافق کو مصلحت پسند سمجھا جاتا ہے۔ ہر کوئی دوسرے کی طرف دیکھ رہا ہے لیکن اپنی طرف کسی کی نظر نہیں۔ میری فکر اس لیے تھی کیوں کہ میں بھی لمبی گاڑی، دو موبائل اور دو گن مین رکھنا چاہتا تھا۔ میں بھی دوسروں کے پیسے سے کاروبار کرنا چاہتا تھا۔ لیکن اس مخلص دوست کے الفاظ کے بعد سمجھ آئی۔ جب اپنی زندگی کے لمحات میں موت کو شامل کرو گے تو پھر دنیا کے معاملات میں بہترین رہو گے۔ اس کے بعد کسی میں ہمت نہیں رہے گی کہ وہ دوسروں کے مال پر عیاشی، لمبی گاری اور دو گن مین رکھے۔ ہر کسی کے قرب و جوار میں اس کے اپنے دنیا سے چلے گئے، ہر جانے والا اس فانی نظام کی واضح حقیقت ہے۔
وہ بھی اس طرح دنیا سے تو چلا گیا اور جانا تو سب کو ہے لیکن وہ یہ سبق دے گیا کہ سب فانی ہے لیکن محنت کرنا، حلال کمانا افضل ہے، چوری ڈکیتی اور فراڈ سے کمایا جانے والا مال، کسی بھی صورت راحت تسکین کا باعث نہیں ہو گا۔ رزق کا وعدہ تو رب کا ہے جو اس کائنات کا مالک ہے۔ جس نے دنیا بنائی اس نے ہر انسان کو دوسرے سے مختلف بنایا ، انسان کو کمزور بھی اور طاقتور بھی بنایا۔ طاقتور جب رضا اللّہ کے لیے کھڑا ہوتا ہے تو ولیوں کا درجہ پاتا ہے اور اس کو خوف خدا نہ ہو تو پھر اس منافقت سے عوام بے حال ہی ہوں۔ ان 76سالوں میں عوام کہاں خوشحال ہوئے، دن بدن نفرتیں اور معاشی صورتحال خراب ہے۔ معاشی تحقیق کے ادارے پائیڈ میں کی گئی ریسرچ کے مطابق پاکستان حکومت کو گزشتہ 76 برسوں میں 155ارب ڈالر کا بیرونی قرض مل چکا ہے۔ ان قرضوں کا بیشتر حصہ حکمران اشرافیہ کی مراعات اور کرپشن کی نذر ہوگیا اور عوام ٹیکسوں اور مہنگائی کی شکل میں یہ قرضے سود سمیت ادا کر رہے ہیں۔ طاقتور انسان خوفناک جانور کی طرح ہوتا ہے وہ اپنے مفاد کے لیے آئین تک کو پامال کرتا ہے۔ اللّہ پاک کے واضح احکامات ہیں کہ کسی کے حق پر ڈاکہ مت ڈالو، خالی زمینوں پر قبضہ مت کرو۔ زندگی کی دوڑ کی حقیقی منزل موت ہے۔ مال کی کثرت کے بعد کا انجام بھی موت ہے۔ ہر فرد کو حقیقی منزل تک ضرور جانا ہے، اپنی اپنی باری کا انتظار ہے، بس خیال کرو، الزام ترشی اور حق تلفی انسان کی حقیقی منزل کے لیے سخت امتحان کا موجب بنے گی۔ انصاف کا دن مقرر ہے جتنا جھوٹ بولنا ہے بول لو۔ چند روپوں اور وقتی مفاد کے لیے کسی کی عزت محفوظ نہیں، دوسروں کے پیسوں پر نظر رکھنے والوں منافقوں کے لیے اللّہ کے ہاں سخت حساب ہو گا۔ حقیقت میں ریاست ناکام ہو چکی ہے، جب لوگوں کو کیلئے روزگار کا حصول نہیں ہو گا تو پھر افراتفری اور بد امنی ہی ہو گی۔ لوگوں کا امان کمزور ہو گا۔ غیر معاشی و پیداواری صورتحال معاشرہ میں شدت اختیار کر چکی ہے۔ نئی حکومت کے شہزادے کیا معاہدے کرتے ہیں اس کا انجام بھی عوام کو ہی برداشت کرنا ہو گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button