Ali HassanColumn

سیاستیں کیا کیا ۔۔۔( حصہ اول )

علی حسن
پاکستان میں آج جس قسم اور طریقہ کی سیاست پر عمل ہو رہا ہے، اس میں دروغ گوئی کے علاوہ ایک اور بہت ہی فکر انگیز تبدیلی آئی ہے اور ہو ہے جمہوریت کے لبادے میں بادشاہت پر تیزی کے ساتھ فروغ دیا جارہا ہے۔ ان سیاست دانوں کو کوئی سمجھانے والا نہیں ہے کہ سیاست داں ملک کی کسی طرح بھی خدمت نہیں کر رہے ہیں بلکہ ملک کو ناقابل بیان نقصان پہنچانے کے ذمہ دار ٹھہریں گے۔ چودھری شجاعت حسین گجرات کے بادشاہ گر کہلاتے ہیں لیکن2024 کے انتخابات نے گجرات کے چودھریوں کو تقسیم کر دیا ہے۔ ان کے بہنوئی چودھری پرویز الٰہی جنہیں وہ اپنی کتاب ’’ سچ تو یہ ہے‘‘ کا انتساب پرویز الٰہی کے نام منسوب کرتے ہوئے انہیں اپنا بھائی قرار دیتے ہیں، عمران خان کی جماعت کے اتنے قریب ہوئے کہ شجاعت اور پرویز الٰہی کے تعلقات میں گہری دراڑ پڑ گئی۔ شجاعت کی دو بہنیں پرویز الٰہی کی اہلیہ قیصرہ الٰہی اور ان کے بہن سمیرا الٰہی عمران خان کی نامزد امیدوار تھیں۔ انہوں نے پہلی بار انتخابات میں حصہ لیا تھا۔ پرویز الٰہی اور ان کی اہلیہ قیصرہ ان کے بیٹے مونس الٰہی کی وجہ سے عمران خان کی طرف جھکنے پر مجبور ہوئے۔ چودھری شجاعت حسین نے لاکھ جتن کئے کہ پرویز الٰہی ان سے آن ملیں لیکن پرویز الٰہی نے تمام صعوبتیں برداشت کرنا گوارہ کیا لیکن اپنے بیٹے کی بات کی لاج رکھی۔ چودھری شجاعت حسین کی کتاب سے کچھ اقتباس قارئین کی آگاہی کے لئے پیش خدمت ہیں تاکہ لوگوں کو معلوم ہو سکے کہ پاکستان اور اس کے سیاست دان پاکستان بنانے والے سیاست دانوں کی فکر، سوچ، رویہ ، امیدوں ، توقعات سے بہت زیادہ مختلف ہو گئے ہیں۔ زیر نظر مضمون کو پڑھ کر اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ کس کس سطح کے لوگ کس کس قسم کا جھوٹ بولتے ہیں۔
’’ وزیر اعلیٰ بننے کے بعد نواز شریف کی مسلسل عہد شکنی1985ء تا 1988ئ‘‘ کے عنوان سے لکھتے ہیں ’’ 1985ء کے الیکشن غیر جماعتی بنیادوں پر ہوئے تھے۔ تمام ارکان اسمبلی اپنی آزاد حیثیت میں منتخب ہوکر آئے تھے، لیکن پنجاب اسمبلی میں ہمارے گروپ نے سب سے زیادہ کامیابی حاصل کی۔ الیکشن کے بعد وزیر اعلیٰ کے انتخاب کا مرحلہ آیا تو ابتدائی طور پر تین کام سامنے آئے۔
1۔ ملک اللہ یار خان، جن کو جنرل ضیاء الحق پسند بھی کرتے تھے۔
2۔ چودھری عبدالغفور، ان کا تعلق بہاولنگر سے تھا۔
3۔ مخدوم زادہ حسن محمود، یہ رحیم یار خان سے تھے۔
یہ تین نام سامنے آئے اور ان پر مشورے شروع ہی ہوئے تھے کہ میاں نواز شریف نے بھی اپنا نام فلوٹ(Float)کر دیا۔ اب چہ میگوئیاں ہونے لگیں کہ ان کا نام بار بار کیوں آرہا ہے، حالانکہ ان کے پاس مطلوبہ اکثریت ہے، نہ ان کا کوئی سیاسی پس منظر ہے۔ صلاح مشورے کیلئے میٹنگز کا سلسلہ شروع ہوا تو ہم نے بھی اپنے گھر میں دوستوں اور ساتھیوں کو مدعو کیا۔ سب سے زیادہ ارکانِ اسمبلی ہماری میٹنگ میں آئے، جن میں خواجہ سعد رفیق کی والدہ محترمہ بھی تھیں۔ سب کا یہی مشورہ تھا ہ ہماری طرف سے پرویز الٰہی کا نام بطور وزیر اعلیٰ آنا چاہیے۔ مخدوم حسن محمود کا میرے والد سے بڑا قریبی تعلق رہا تھا۔ وہ دو تین مرتبہ آئے اور کہنے لگے کہ ہم ان سے تعاون کریں۔ ہم نے کہا، ہمارے لوگ کہتے ہیں کہ پرویز الٰہی کو وزارت اعلیٰ کے لیے نامزد کیا جائے۔
’’ نواز شریف کا پہلی بار وزیر اعلیٰ بننا‘‘ کے عنوان سے لکھتے ہیں ’’ ملاقاتوں کا یہ سلسلہ جاری تھا کہ بریگیڈئیر ( ر) قیوم اور گورنر پنجاب غلام جیلانی نے ہم سے رابطہ قائم کیا اور ہمیں گورنر ہائوس مدعو کیا۔ ہم وہاں پہنچے تو بریگیڈئیر ( ر) قیوم بھی وہاں تشریف فرما تھے۔ جنرل جیلانی کہنے لگے، چونکہ پنجاب میں آپ کا گروپ سب سے بڑا ہے، اس لیے صوبہ کی اہم وزارتیں آپ رکھ لیں۔ سپیکر، ڈپٹی سپیکر بھی اپنی مرضی کا منتخب کر لیں، لیکن وزیر اعلیٰ ، نواز شریف کو بنا دیں۔ اس طرح ایک مضبوط اتحاد قائم ہو جائے گا اور کا بینہ بھی بن جائے گی، جس میں رہنمائی آپ کی ہو گی۔ ہم نے اپنے ساتھیوں سے مشاورت کے لیے دو دن کا وقت مانگا۔ انہوں نے کہا، ٹھیک ہے، دو دن بعد نواز شریف اور شہباز شریف کو بھی بلا لیتے ہیں اور سب مل بیٹھ کر فیصلہ کر لیں گے۔ اس کے بعد ہم دونوں گروپوں کی مشترکہ میٹنگ نواز شریف کے والد محترم میاں محمد شریف کے دفتر واقع ایمپریس روڈ ہوئی، جس میں نواز شریف، شہباز شریف، بریگیڈئیر قیوم، پرویز الٰہی اور میں شریک تھے۔ طے پایا کہ نواز شریف، وزیر اعلی کے مشترکہ امیدوار کے اور ہوں گے، جب کہ سپیکر اور صوبائی وزراء کا فیصلہ باہمی مشاورت سے ہوگا۔
’’ شہباز شریف بطور ضمانت قرآن لانے کے لیے اٹھے‘‘ کے عنوان سے لکھتے ہیں ’’ یہ سارے فیصلے ہو گئے تو میاں شہباز شریف جلدی سے اٹھے اور کہا۔ اگر چہ سب کچھ طے ہو گیا ہے لیکن پھر بھی آپ کی تسلی کے لیے قرآن مجید لے کر آتا ہوں تا کہ ضمانت رہے کہ ہماری طرف سے کوئی وعدہ خلافی نہ ہو گی۔ اس پر پرویز الٰہی اور میں نے کہا۔ دیکھیں، سیاست میں نہ ہمارے بزرگ قرآن کو بیچ میں لائے تھے، نہ ہم نے بھی اس کی جسارت کی ہے‘‘۔ میں نے کہا۔’’ پرویز الٰہی صرف ایک ووٹ کی برتری سے چیئر مین ضلع کونسل منتخب ہو کر آئے ہیں۔ گجرات میں ہمارے مخالفوں نے ہمیں ہرانے کے لیے اپنے ارکان سے قرآن پر حلف لیے، مگر ہم نے اپنے کسی ساتھی سے قرآن پر حلف نہیں لیا‘‘۔
یہ کہہ کر ہم نے قرآن مجید لانے سے منع کر دیا۔ اگلے روز گورنر جیلانی نے ہم سے پوچھا کہ میٹنگ کیسی رہی۔ ہم نے سارا احوال سنا دیا، بلکہ شہباز شریف کے قرآن مجید ضمانت کے طور پر لانے کے بارے میں بھی بتایا۔ جنرل جیلانی نے کہا، اس معاملی میں، میں اپنی ضمانت دیتا ہوں اور ویسے بھی زبان ہی اصل ضمانت ہوتی ہے۔ پھر انہوں نے کہا، اگلی میٹنگ تین چار روز بعد ہوگی ، تب تک آپ سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے نام تجویز کر لیں۔
’’ شہری اور دیہاتی کی بحث‘‘ کے موضوع پر وہ لکھتے ہیں ’’ تین چار روز بعد جب ہم نے نواز شریف کو بطور وزیر اعلیٰ نامزد کیا تو ہر طرف شور مچ گیا کہ نواز شریف شہری بابو ہیں، ایک ایسی اسمبلی جس میں ستر فی صد ارکان کا تعلق دیہاتی حلقوں سے ہے، شہری وزیر اعلی اس کو کس طرح چلا سکے گا۔ نواز شریف کے خلاف ایک مہم شروع ہو گئی۔ اس پر میں نے ایک پریس کانفرنس کی اور کہا جو لوگ دیہی اور شہری کی بحث میں الجھ رہے ہیں، وہ یہ بتائیں کہ قائد اعظم دیہاتی تھے یا شہری۔ کسی نے ملک و قوم کی خدمت کرنی ہے تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ وہ دیہاتی ہے یا شہری‘‘۔
میرے اس بیان کے چند دن بعد گورنر جیلانی نے ہمارے ساتھ ایک میٹنگ میں کہا ’’ شجاعت صاحب! میں خود بھی یہ بات واضح کرنا چاہتا تھا لیکن آپ نے قائد اعظمؒ کی مثال دے کر یہ بات زیادہ بہتر انداز میں واضح کر دی ہے‘‘۔ اس میٹنگ میں ہی ہم نے میاں منظور وٹو کا نام بطور سپیکر پیش کیا، جس پر گورنر جیلانی نے کہا آپ کی بات ٹھیک ہے، اور چونکہ وہ آپ کے کولیگ ( ساتھی) بھی ہیں، اس لیے آپ ہی ان سے بات کر لیں ۔ یہ ساری باتیں ہو چکیں تو کہنے لگے کہ نواز شریف کا دیہاتی حلقوں سے آنے والے ارکان اسمبلی سے کوئی تعارف نہیں، آپ مہربانی کریں اور ان کو متعارف کروا دیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button