CM RizwanColumn

حلوہ، بلوہ اور پولیس کا بہادر جلوہ

سی ایم رضوان
ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ ہماری اکثریت نے مستقل طور پر صرف اور صرف برائی دیکھنے والی عینک پہن رکھی ہے اور اس عینک کو ہم کبھی بھی اتارنے کے لئے تیار نہیں ہوتے اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ پچھلے 76سالوں میں ہمیں سیاست، مذہب اور کسی بھی دیگر شعبہ حیات میں کوئی اچھا کردار ملا ہی نہیں لیکن یہ یاد رہے کہ یہ نظام دنیا اور نظام قدرت اچھے لوگوں کی وجہ سے ہی چل رہا ہے مگر افسوس کہ ہمارے ساتھ دھوکے اتنے ہوئے ہیں کہ ہم ہر چہرے اور ہر لباس میں برائی ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پولیس کو ہی لے لیجئے اس میں بڑے بڑے اچھے، قابل، دیانتدار اور نیک خو لوگ موجود ہیں لیکن ہمارے ملک کی اکثریت کو صرف پولیس کی خامیاں ہی نظر آتی ہیں خوبیاں نہیں۔ وجہ وہی ہے کہ ہم نے اپنی خامیاں دیکھنے والی آنکھ کو اتنا کھلا رکھا ہوا ہی کہ ہم ہر اچھے کام سے چاہے وہ جو بھی کرے اس سے صرف نظر کر جاتے ہیں اور برائی چاہے کسی اور نے بھی کی ہو وہ ہم سامنے والے کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں۔ پولیس میں بھی کسی دوسرے سرکاری ادارے کی طرح اچھے یا برے لوگ موجود ہیں لیکن عموماً پولیس کے اچھے کام کو اتنا سراہا نہیں جاتا جتنا کہ وہ حقدار ہوتے ہیں البتہ ان کی ذرا سی بھی دانستہ یا غیر دانستہ غلطی میڈیا کی بریکنگ نیوز بن جاتی ہے۔ اخبارات اور میڈیا میں مصالحے دار سرخیاں لگائی جاتی ہیں۔ پولیس پر تعمیری تنقید عوام کا حق ہے لیکن بلاجواز تنقید سے ایسے بہت سے کاموں کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے جو پولیس دن رات کررہی ہے۔ گزشتہ دنوں ایک لڑکے کی موٹر سائیکل پر جاتے ہوئے پولیس اہلکار کو تھپڑ مارنے اور ایک خاتون کی ایک پولیس کے ایک اے ایس آئی کو تھپڑ مارنے کی ویڈیوز وائرل ہوئیں لیکن دیگر ویڈیوز بھی آئیں کہ ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کس طرح ایک اے ایس آئی چپ کر کے مار کھا رہا ہے حتیٰ کہ اس کے ساتھی بھی اس خاتون کو روک نہیں رہے۔ اس کے پیچھے سوشل میڈیا بریگیڈ کا ڈر ہے۔ یہ سوشل میڈیا جان بوجھ کر خاتون کی بدتمیزی کو نہیں دکھا رہا تھا اگر دکھاتا بھی تھا تو صرف اپنی مرضی کا مخصوص حصّہ جس میں پولیس والے اس کو روک رہے ہیں۔ اس کے بعد سب کو پتہ ہے آگے کیا ہونا تھا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہم سب کا رویہ پولیس کے ساتھ کیسا ہے۔ ہمارے معاشرے کی بے نیازی یہ بھی ہے کہ 24گھنٹے مسلسل ڈیوٹی کرنے والے کے لئے کبھی کسی نے شکریہ بھی نہیں بولا۔ ابھی یہ ویڈیوز چل ہی رہی تھیں کہ ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر یہ گردش کرنے لگی کہ ایک خاتون اچھرہ بازار لاہور میں ایک عربی لکھے لباس میں ملبوس پھر رہی ہے ویڈیوز بنا کر شیئر کرنے والے نے بڑی مہارت سے یہ تاثر دے دیا کہ یہ دیکھو قرآنی آیات کی بے حرمتی ہو رہی ہے۔ اس پر سوشل میڈیا پر موجود ہر شخص نے بغیر سوچے سمجھے بلاتاخیر اور جی بھر کر لعنتیں بھیجیں اور ہر جنونی مذہبی نے اپنے جذبات کی خوب تسکین کی لیکن تب ان جنونیوں کو گویا سانپ سونگھ گیا جب اسی سوشل میڈیا پر یہ تصحیح گردش کرنے لگی کہ اس خاتون نے جو لباس پہن رکھا تھا اس پر عربی لفظ حلوہ لکھا ہوا تھا جس کا مطلب میٹھا یا خوب صورت ہے اور بس، اور موقع پر اکٹھے ہو کر جنونیوں کے ایک جتھے نے غیر قانونی اور غیر انسانی طور پر اس خاتون کی جان لینے کی کوشش کی تو پولیس نے بروقت مداخلت کر کے ایک انسانی جان کو ان مذہبی جنونیوں کے جتھی سے بچا لیا ہے۔ پھر یہی سوشل میڈیا کے مجاہد پولیس کو خراج تحسین اور خاتون پولیس آفیسر کو شاباشیں دینے لگے اور یہاں تک کہ اس خاتون کو میڈل دیئے جانے اور ترقی دیئے جانے کی سفارش کرنے لگے۔ بغیر تصدیق کیے اور عجلت میں فتوے اور حکم صادر کر دینے والی ذہنیت کی چند لمحوں میں یہ یکسر تبدیلی دیدنی تھی کہ ہم پروپیگنڈے اور یک طرفہ محبت و نفرت کی کس قدر بھیڑ چالی انداز میں پیروی کرنے لگ جاتے ہیں۔ مطلب یہی کہ ہماری رائے کس طرح گرگٹ کی مانند بدل جاتی ہے۔
بلاشبہ اے ایس پی گلبرگ لاہور شہر بانو نقوی نے بہادری کی اعلیٰ مثال قائم کرتے ہوئے گزشتہ روز لاہور کے اچھرہ بازار میں شوہر کے ہمراہ شاپنگ کے لئے آئی ایک خاتون کو اس کے لباس پر منقش عربی حروف حلوہ کے باعث مشتعل ہجوم کی جانب سے ہراساں کیے جانے اور جان سے مار دینے تک کے اقدام کا تدارک کرتے ہوئے خاتون کو بحفاظت اس کے لواحقین کے حوالے کر دیا۔ اس واقعہ کی وائرل ویڈیو میں ایک خاتون کو خوف کے عالم میں اپنا چہرہ چھپاتے اور مشتعل ہجوم کو اس کو مار دینے کے درپے دیکھا جا سکتا تھا۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ اس خاتون نے عربی خطاطی کے لفظ حلوہ سے منقش قمیض پہنی ہوئی تھی اور سرسری نظر میں دیکھنے سے یوں ہی نظر آتا تھا جیسے کوئی عربی عبارت اس کے لباس پر لکھی گئی ہے۔ یاد رہے کہ سعودی عرب اور دیگر عربی ممالک میں ایسے لباس عام طور پر خواتین پہن کر بازاروں میں آتی جاتی ہیں اور کسی کو کسی بھی قسم کے اعتراض کی نہ جرات ہوتی ہے، نہ ضرورت لیکن پاکستان جیسی متعصب معاشرے کا حال دیکھئے کہ پہلے پہل تو اس اچھرہ بازار میں موجود لوگوں نے غور نہ کیا پھر بعدازاں کسی مہم جو جنونی نے چند دیگر مذہبی جنونیوں کو اپنے ساتھ اکٹھا کر لیا ہو گا اور یہ مشورہ دیا گیا ہو گا کہ اس گستاخ عورت کو موقع پر ہی جہنم واصل کر دیا جائے۔ پھر اس کی ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کی ہو گی قریبی جنونی بھی پہنچ گئے اور یوں وہ لوگ ہجوم کی صورت میں اکٹھے ہو کر اس خاتون پر حملہ آور ہو گئے ہوں گے۔ بتایا گیا ہے کہ جس وقت یہ جتھہ اس خاتون پر حملہ آور ہونے کی کوشش میں تھا اس وقت یہ دونوں میاں بیوی بازار میں موجود ایک چھوٹی سی دکان پر بیٹھ کر دہی بھلے وغیرہ کھا رہے تھے۔ اس دوران اس دکان کے مالک نے ہجوم کے تیور دیکھ کر دکان کا شٹر بند کر دیا اور پولیس تھانہ اچھرہ کو فون کر کے معاملے کی نزاکت کا بتا دیا تھا جس پر خاتون اے ایس پی شہر بانو نقوی نہ صرف موقع پر پہنچی بلکہ معاملہ کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے اپنی جان خطرے میں ڈال کر خاتون کو مشتعل ہجوم سے بحفاظت بچانے میں کامیاب ہوئی تھی۔ اس دوران خاتون پولیس افسر کی مشتعل ہجوم سے بات کرتے ہوئے ویڈیوز بھی سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہیں، ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہی کہ خاتون پولیس افسر مشتعل ہجوم کو یقین دلا رہی ہیں کہ اگر اس خاتون کی جانب سے توہین مذہب کا ارتکاب کیا گیا ہے تو وہ خاتون کے خلاف قانون کے تحت کارروائی کریں گی لیکن اگر ایسا نہیں ہے تو پھر کسی کو بھی اس خاتون کو کوئی نقصان پہنچانے یا ہراساں کرنے کا کوئی حق نہیں۔ واضح رہے کہ اس موقع پر جمع ہو جانے والے ہجوم میں متعدد بااثر علماء بھی آ شامل ہوئے تھے اور وہ ہر حال میں موقع پر ہی فیصلہ کرنے پر مصر تھے مگر اے ایس پی شہر بانو نے کمال دانش اور جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کا اشتعال اس طرح کم کیا کہ مذکورہ خاتون سی بیان دلوایا جس میں اس نے بغیر کسی دبائو اور بناوٹ کے یہ بیان دیا تھا کہ وہ خود ایک مذہبی خاندان سے تعلق رکھتی ہے اور یہ لباس اس نے کسی قسم کی توہین کی نیت سے نہیں پہنا اور اگر پھر بھی کسی کے مذہبی جذبات مجروح ہوئے ہیں تو وہ معذرت چاہتی ہے۔ اس طرح یہ معاملہ حل ہوا۔ اے ایس پی شہر بانو کا کہنا ہے کہ جب وہ جائے وقوعہ پر پہنچی تو دیکھا کہ ہجوم کے تیور کچھ امن پسند نہ تھے وہ ہر حال میں انتہائی قدم اٹھانے پر آمادہ نظر آ رہے تھے لیکن ہماری یہ کوشش تھی کہ کوئی بھی انسان کسی بھی قسم کے ضرر سے محفوظ رہے۔
دکان جس میں خاتون موجود تھی وہ سڑک سے کچھ فاصلے پر تھی اور اس کو دکان سے گاڑی تک محفوظ حالت میں لانا ایک بڑا معرکہ تھا مگر ہجوم کے ساتھ میری گفتگو اور اس خاتون کو اپنے ساتھ لگا کر گاڑی تک لانا میری سب سے بڑی حکمت عملی ثابت ہوئی۔ یوں نہ صرف وہ خاتون قتل ہونے سے بچ گئی بلکہ وطن عزیز ایک مزید ایسا داغ لگنے سے بچ گیا جس نے ثابت کرنا تھا کہ ہمارے ملک میں مذہبی جنون کے تحت انسانی جانوں کے ضیاع سے بھی گریز نہیں کیا جاتا۔
اس حوالے سے انسپکٹر جنرل ڈاکٹر عثمان انور کا بھی سوشل میڈیا پر بیان سامنے آیا ہے جس میں ان کا کہنا ہے کہ لاہور کے ایک علاقے میں پیدا ہونے والی اس ناخوش گوار صورتحال کے دوران اپنی جان خطرے میں ڈال کر ایک خاتون شہری کو مشتعل ہجوم سے بحفاظت بچا کر لے جانے والی اے ایس پی شہر بانو نقوی کو پنجاب پولیس کی طرف سے بے مثال جرات اور بہادری کا مظاہرہ کرنے پر قائد اعظم پولیس میڈل سے نوازنے کے لئے حکومت کو سفارشات بھجوائی جا رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ شہر بانو آپ کا شکریہ آپ پر ہم سب کو فخر ہے۔ دوسری جانب نو منتخب وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے بھی پنجاب اسمبلی میں اپنی پہلی تقریر میں اس خاتون پولیس افسر کو خراج تحسین پیش کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ شہر بانو نے بہادری، عقلمندی اور فرض شناسی کا مثالی مظاہرہ کیا ہے شہر بانو بروقت نہ پہنچتی تو بڑا حادثہ ہونے کا خطرہ تھا۔ مریم نواز نے بھی یہ کہا کہ شہر بانو آپ کا شکریہ، آپ پر ہم سب کو فخر ہے، دبا?، ہجوم کی تعداد اور تیور اور کشیدہ حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے آپ نے قانون اور انسانیت کا سر اونچا کیا، مریم نواز نے توقع ظاہر کی کہ آئندہ بھی پولیس فورس کا ہر فرد اسی جذبے سے عوام کے جان و مال کے تحفظ میں کردار ادا کرے گا۔ ادھر مسلم لیگ ن کے رہنما احسن اقبال نے واقعے پر بیان دیتے ہوئے کہا کہ ویل ڈن اے ایس پی شہر بانو! مذہبی جنونیت سے معاشرے کو بچانا ہم سب کا فرض ہے۔ احسن اقبال نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ عربی خطاطی کا لباس قرآن پاک سے منسوب کرنے والے ہجوم کے ہاتھوں ایک جان ضائع ہونے سے بچ گئی۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ خاتون سے معافی کا کہنا بلا جواز تھا لیکن یہ معافی اگر ایک انسانی جان بچانے کے لئے مانگی گئی ہے تو یہ گھاٹے کا سودا نہیں۔ پاکستان علما کونسل کے چیئرمین حافظ طاہر اشرفی نے لاہور میں خاتون کو لباس پر عربی الفاظ پرنٹ ہونے کی وجہ سے ہراساں کرنے کی شدید مذمت کی ہے۔ طاہر اشرفی کا کہنا تھا کہ پاکستان علما کونسل اس واقعے کی شدید مذمت کرتی ہے۔ اس موقع پر اچھرہ پولیس کی کوششیں قابل تعریف ہیں تاہم خاتون کی بجائے معافی ہراساں کرنے والوں کو مانگنی چاہیے تھی۔ ادھر سوشل میڈیا صارفین بھی اپنے ملے جلے ردعمل کا اظہار کر رہے ہیں۔ کچھ لوگ خاتون پر تنقید کر رہے ہیں تو کچھ لوگ ہجوم کو برا بھلا کہہ رہے ہیں لیکن سب لوگ پولیس آفیسر کی بہادری کو سراہا رہے ہیں اور کچھ لوگ تو اے ایس پی گلبرگ شہر بانو کو ستارہ جرات دینے کی سفارش بھی کرتے نظر آئے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button