Column

پائوں پھیلاوں تو دیوار میں سر لگتا ہے

صفدرعلی حیدری
’’ روٹی کپڑا اور مکان‘‘ ملکی سیاسی تاریخ کا ایک ایسا انقلابی نعرہ تھا جس کی گونج ہر غریب کی صدائے دل سے کچھ یوں ’’ رل مل‘‘ گئی کہ دیکھتے ہی دیکھتے یہ نعرہ پسے ہوئے طبقے کے ہر فرد کا ہر دل عزیز نعرہ ہی نہیں واحد مطالبہ بھی بن گیا۔
یہ بات بلا خوف و تردید کہی جا سکتی ہے کہ مقبولیت و محبوبیت میں اس کا مقابل دور دور تک کوئی نہیں۔ کیسی عجیب بات ہے کہ آج تک اس دل فریب نعرے کی صدا سنائی دیتی ہے اور یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ اس پر فریب نعرے سے اب بھی بہت سوں کو بیوقوف بنانا ممکن ہے۔
مجھے کہنے دیجئے کہ یہ پاکستان کی تمام’’ دائیں بائیں اور آئیں بائیں شائیں‘‘ پارٹیوں کا مشترکہ ( مگر غیر علانیہ) نعرہ ہے اور ہر پارٹی اپنے اپنے انداز میں اسے ایک سیاسی ہتھکنڈے کے طور پر ہر الیکشن میں استعمال کر کے غریبوں کا ہر ممکن استحصال کرتی ہے۔ یہ بھولی بھالی قوم اس نعرے کے سحر میں کچھ یوں جکڑی کہ کبھی اس کے مفہوم پر غور کرنے کی زحمت ہی سے محروم رہی۔
کیا ہم نے کبھی یہ غور کیا کہ دنیا میں کون سا ایسا ملک ہے جو اپنے عوام کو روٹی کپڑا اور مکان فراہم کرنا تو رہا ایک طرف ایسا کوئی دعویٰ بھی کیا ہو ۔ ترقی پذیر ممالک تو رہے ایک طرف کسی ایک ترقی یافتہ ملک کا نام بتائیں جس نے اپنی قوم کو ان سب چیزوں کی فراہمی کا کبھی ذمہ لیا ہو ( ہاں کچھ مخصوص طبقات کے لئے امداد فراہم کرنا اور بات ہے جیسے بوڑھوں اور بے روزگاروں کو الائونسز دینا )۔ بلکہ اکثر ممالک میں تو آمدنی کا ایک خاصا بڑا حصہ ٹیکس کی مد میں وصول کر لیا جاتا ہے۔
ہاں وہاں یہ احتیاط ضرور کی جاتی ہے کہ جو جتنا کماتا ہے اسے اتنا زیادہ سرکار کے اکائونٹ میں ٹیکس کے طور پر جمع کرانا پڑتا ہے۔ اور یہ بھی کہ ٹیکس کا روپیہ عوام کی فلاح و بہبود خرچ ہوتا نظر بھی آتا ہے۔
ہم یہ بات کیوں کر بھلا سکتے ہیں کہ ہم نے یہ ملک اسلام کے نام پر حاصل کیا تھا ۔ بانی پاکستان اسے ایک ایسی تجربہ گاہ بنانا چاہتے تھے کہ جہاں اسلامی قوانین کا تجربہ کیا جائے۔ یہ تجربہ گاہ تو ضرور بنی لیکن اسلامی قوانین کی بجائے نفرتوں کی آبیاری اور شجرکاری کی گئی جس کا پھل کڑوا پھل آج سب کو چکھنا ہی نہیں کھانا بھی پڑا رہاہے۔ ہم نے جس فلاحی ریاست کا خواب دیکھا تھا وہ عرصہ ہوا کسی دیوانے کا خواب بن چکا ہے ۔ جس کا مقدر شرمندہ تعبیر ہونا نہیں، شرمندہ کرنا ہوتا ہے۔
روٹی کپڑا اور مکان ‘‘ جیسے گمراہ کن نعرے کی تخلیق اور مقبولیت بتاتی ہے کہ یہاں پسے ہوئے طبقات کو ’’ لالوں ‘‘ نے ایسا ماحول فراہم کیا کہ انہیں جان کے لالے ، زبان پر تالے ، پائوں میں چھالے پڑگئے لیکن زندگی کی بنیادی ضروریات ہیں کہ محفوظ فاصلے پر موجود رہیں ۔ آج نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ آدھی آبادی کو پینے کاصاف پانی ہی میسر نہیں۔
چالیس فیصد آبادی غربت کی لکیر عبور نہیں کر پائی ۔
لاکھوں لوگ چھت سے محروم ہیں ۔ توانائی کے بحران کے سبب چھوٹی صنعتوں کا پہیہ جام ہو کر رہ گیا ہے اور ناجانے کتنے گھروں کے چولہے ٹھنڈے ہو گئے ہیں۔ کسان بے چارہ الگ بھوک اگاتا اور محرومی کی فصل کاٹتا دکھائی دیتا ہے ۔
باقی رہے تنخواہ دار افراد تو مہنگائی کے تناسب سے آمدنی میں اضافہ نہ ہونے کی وجہ سے انکی زندگی بھی قابلِ رحم ہے ۔ رہی سہی کسر دہشت گردی نے معاشی سرگرمیوں کی کمر توڑ کر پوری کر ڈالی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کا کچھ مضبوط ہوجانا ایک بھی غریب کے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ تک نہیں لا سکا ۔ ( ہاں حکومتی افراد ضرور پھدکتے پھر رہے ہیں)۔
خوش تو تب ہوتے جب اشیاء خور و نوش کی قیمتوں میں کچھ نہ کچھ کمی دیکھنے میں آتی۔ کسی نے سچ کہا ہے کہ سماج کو اس میں بسنے والے عام افراد زندہ رکھتے ہیں۔ پاکستان میں مگر بد قسمتی سے انہی افراد کا جینا دو بھر ہو کر رہ گیا ہے ۔ انھیں زندگی کی بنیادی ضروریات کے لئے لمحہ لمحہ سسکنا اور روز مرنا روز جینا پڑتا ہے۔ مانا غربت کسی ایک ملک کا مسئلہ ہرگز نہیں اور نہ ہی اس کو لمحوں میں ختم کرنا ممکن ہے ۔اقوامِ عالم میں مگر غربت کے خاتمے اور ان کے مسائل کم کرنے کی بڑی سنجیدہ کوششیں کی جاتی ہیں۔ طرح طرح کی مراعات اور سبسڈیز سے اس میں خاطر خواہ بہتری بھی لائی جاتی ہے۔ مگر بدقسمتی سے ہمارا یہاں غریب کی بجائے اس کا ووٹ اہمیت کا حامل ہوتا ہے ۔لہذا’’ روٹی کپڑا اور مکان‘‘ کے خواب دکھا کر ووٹ ہتھیانے کے بعد مڑ کر ان کی خبر لینا بھی گناہ سمجھا جاتا ہے ۔ اسی لئے کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے ہاں غربت صرف اپوزیشن کا ایشو ہے۔ عوام کو اپنے ساتھ ملانے اور اپنی سیاست چمکانے کے لئے یہ کارڈ خوب خوب استعمال کیا جاتا ہے اور ہماری بھولی بھالی عوام کو چند ہی مہینوں میں موجودہ حکومت کانسی اور گزشتہ سونا لگنے لگتی ہے ۔
ہر ’’ تیز رو ‘‘کو راہبر سمجھنے کی روش جانے کب تک چلے گی۔
مہنگائی نے غریب طبقے کی زندگی اجیرن کر دی ہے۔
صاحبانِ اختیار کو یقینا اس پر سوچنے اور عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ کیا قیامت ہے کہ اسلام کے نام پر بننے والی فلاحی ریاست کی عوام کی حالتِ زار پر یہ شعر صادق آتا ہے ۔
زندگی تو نے ہمیں قبر سے کم دی ہے زمیں
پائوں پھیلاوں تو دیوار میں سر لگتا ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button