Editorial

تاریخ رقم: مریم نواز پہلی خاتون وزیراعلیٰ

تاریخ رقم: مریم نواز پہلی خاتون
وزیراعلیٰ بن گئیں، مُراد علی شاہ بھی منتخب
عام انتخابات کے بعد حکومت سازی کے حوالے سے پیش رفت جاری ہیں۔ دو صوبوں پنجاب اور سندھ میں وزرائے اعلیٰ کا انتخاب عمل میں آچکا ہے۔ مریم نواز نے تاریخ رقم کردی، وہ پہلی خاتون وزیراعلیٰ بن گئی ہیں، انہوں نے پنجاب کی وزیراعلیٰ کی حیثیت سے اپنے عہدے کا حلف بھی اُٹھا لیا ہے۔ اسی طرح سندھ کے وزیراعلیٰ کا انتخاب بھی عمل میں آچکا۔ مُراد علی شاہ تیسری بار وزارت اعلیٰ کے منصب پر فائز ہوئے ہیں۔ اُمید کی جاسکتی ہے کہ دونوں وزرائے اعلیٰ اپنے صوبوں اور اُن کے عوام کو لاحق مسائل اور مشکلات کے حل لیے سنجیدہ اقدامات یقینی بنائیں گے۔ دوسری جانب وفاق میں حکومت کے قیام کے لیے معاملات طے پا چکے ہیں۔ حکومتی اتحادی جماعتوں میں مسلم لیگ ن سمیت پی پی، ایم کیو ایم ( پاکستان)، مسلم لیگ ( ق)، آئی پی پی وغیرہ شامل ہیں۔ وزارتِ عظمیٰ کے لیے میاں شہباز شریف امیدوار ہیں جبکہ پی پی کے رہنما آصف علی زرداری کو صدر مملکت کے عہدے کے لیے نامزد کیا گیا ہے۔ چند روز میں وزیراعظم کا انتخاب بھی عمل میں آسکتا ہے۔ آج کے پی کے اور بلوچستان اسمبلیوں کے اجلاس بھی طلب کیے گئے ہیں، جہاں صوبائی اسمبلیوں کے نومنتخب ارکان حلف اُٹھائیں گے۔ گزشتہ روز تاریخ رقم ہوئی۔ بے نظیر بھٹو جہاں اسلامی دُنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم ہونے کا منفرد اعزاز رکھتی ہیں، وہیں مسلم لیگ (ن) کی رہنما مریم نواز بھی ایک بڑے اعزاز کی حامل بن گئی ہیں۔ وہ ملک کے کسی بھی صوبے کی پہلی خاتون وزیراعلیٰ منتخب ہوچکی اور حلف بھی اُٹھاچکی ہیں ۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق نومنتخب وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے گورنر ہائوس لاہور میں وزارت اعلیٰ کے منصب کا حلف اٹھالیا۔ گورنر محمد بلیغ الرحمان نے مریم نواز سے وزیر اعلیٰ کا حلف لیا۔ چیف سیکرٹری پنجاب زاہد اختر زمان نے تقرری سے متعلق نوٹیفکیشن پڑھ کر سنایا۔ تقریب حلف برداری میں مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف، شہباز شریف، حمزہ شہباز، سینیٹر اسحاق ڈار، آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور، یو ایس قونصل جنرل کرسٹین کے ہاکنگ، چائنیز قونصل جنرل عاؤ شیریں، قونصل جنرل ترکیہ درمس بستوگ، اسلامی جمہوریہ ایران کے قونصل جنرل مہران موحد فر، بیگم گورنر پنجاب، مسلم لیگ (ن) کے رہنمائوں، عہدیداران، کارکنوں، ارکان صوبائی اسمبلی اور اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔ تقریب میں شریک شخصیات نے مریم نواز کو پہلی خاتون وزیراعلیٰ کا حلف اٹھانے پر مبارک باد دی۔ اس سے قبل پنجاب اسمبلی کا اجلاس سپیکر ملک احمد خان کے زیر صدارت ہوا، اس موقع پر وزیراعلیٰ کا انتخاب کیا گیا، جس میں مریم نواز 220ووٹ پہلی خاتون وزیراعلیٰ منتخب ہوئیں۔ اسپیکر نے سنی اتحاد کونسل کے ارکان کے بغیر ہی سیکریٹری کو کارروائی شروع کرنے کی ہدایت کی۔ رائے شماری مکمل ہونے پر اسپیکر نے نتائج کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ مریم نواز نے 220ووٹ حاصل کیے جبکہ ان کے مدمقابل آفتاب احمد خان کوئی ووٹ نہ لے سکے۔ اعلان کے بعد مریم نواز وزیراعلیٰ کی نشست پر بیٹھ گئیں، اس موقع پر اسپیکر نے مریم نواز کو وزیراعلیٰ منتخب ہونے پر مبارکباد پیش کی۔ نومنتخب وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے کہا کہ میں ووٹ دینے اور نہ دینے والوں کی وزیراعلیٰ ہوں، ہم سب جمہوری و سیاسی کارکن ہیں، ایوان جمہوریت کا پرچم سر بلند رکھے گا، امید ہے اسپیکر، ڈپٹی اسپیکر جمہوری عمل کو برقرار رکھیں گے۔ میرے چیمبر کے دروازے حکومتی و اپوزیشن ارکان کیلئے کھلے رہیں گے، میرے دل میں انتقام اور بدلے کا کوئی جذبہ نہیں۔ وزیراعلیٰ منتخب ہونے کے بعد پنجاب اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے مریم نواز کا کہنا تھا کہ منصب ملنے پر سر جھکا کر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتی ہوں، قدرت کا نظام پہلے انسان کو مشکلات سے گزارتا پھر عزت سے نوازتا ہے، میرا وزیراعلیٰ منتخب ہونا ہر ماں، بہن اور بیٹی کیلئے اعزاز ہے۔ انہوں نے کہا کہ اپوزیشن ارکان کو جمہوری عمل میں شامل ہونا چاہیے تھا، اسمبلی میں اپوزیشن ارکان کے نہ ہونے پر افسوس ہے، اپوزیشن کیلئے میرے دفتر کے دروازے ہر وقت کھلے رہیں گے، منصب کیلئے نامزد کرنے پر قائد نوازشریف، صدر شہباز شریف کا شکریہ ادا کرتی ہوں۔ دوسری جانب پیپلز پارٹی کے مراد علی شاہ وزیراعلیٰ سندھ منتخب ہوگئے۔ مراد علی شاہ 112ووٹ لے کر تیسری بار وزیراعلیٰ سندھ منتخب ہوئے، ایم کیو ایم کے علی خورشیدی کو 36ووٹ ملے، جماعت اسلامی اور آزاد امیدواروں نے ایوان میں شدید احتجاج کیا اور نعرے بازی بھی کرتے رہے۔ سندھ اسمبلی کا ایوان 168ارکان پر مشتمل ہے، 158نومنتخب ارکان حلف اٹھا چکے، پیپلز پارٹی کے 112، ایم کیو ایم کے 36ارکان نے حلف لیا، 9آزاد ارکان اور جماعت اسلامی نے وزیراعلیٰ سندھ کے انتخاب میں حصہ نہیں لیا۔ وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ انا کیلئے ملکی سالمیت سے نہیں کھیلیں گے۔ مراد علی شاہ نے کہا کہ سیاست میں آنا نہیں تھا، مجھے بینظیر بھٹو نی انتخابات کے لیے چنا تھا، مجھے کہا جارہا تھا کہ تم آج یا کل گرفتار ہو جائو گے، بلاول بھٹو نے کہا اگر مراد علی شاہ گرفتار ہوا بھی تو ہمارا چیف منسٹر ہوگا۔ مراد علی شاہ نے کہا کہ بہت کٹھن وقت تھا جو گزر گیا، ذمے داری سنبھالنے کے لیے بہت کچھ سوچنا پڑتا ہے، اسمبلی میں موجود تمام پارٹیوں کے کارکنوں سے کہوں گا مل کر مثبت کردار ادا کریں، تنقید نہیں کریں گے اپنی اصلاح کریں گے۔ وزیراعلیٰ سندھ نے مزید کہا کہ ہماری غلطیوں کو مثبت سے نوٹ کرکے بتائیں اس پر عملدرآمد ہوگا، ہم لوگوں کی نبض کو جانتے ہیں، ہم نے 2018ء میں 2013ء سے زیادہ سیٹیں لیں، ہم نے 2024ء کے الیکشن میں 2018ء کے الیکشن کے تمام ریکارڈ تو ڑ دیے۔ دونوں وزرائے اعلیٰ نے اپنے خطاب میں مثبت گفتگو کی اور صوبوں کی بہتری کے لیے اپنے منصوبوں سے آگہی دی۔ عوام کی حالتِ زار بہتر بنانے کے عزائم کیے۔ صوبوں کی بہتری کے لیے اقدامات کرنے کے اعلانات کیے۔ پنجاب اور سندھ کے وزرائے اعلیٰ کو صوبوں کی بہتری کے لیے بڑے فیصلے کرنے ہوں گے۔ اُن کے لیے اقتدار کسی طور آسان نہ ہوگا۔ اس میں سنگین چیلنجز درپیش ہوں گے۔ پوری جانفشانی سے کوششیں کرنی ہوں گی، تب جاکر کامیابی قدم چومے گی۔ اُمید کی جاسکتی ہے کہ ان شاء اللہ ان دونوں صوبوں میں حکومتوں کا قیام خوش آئند ثابت ہوگا اور ان کے دور میں نمایاں بہتری دِکھائی دے گی۔
بھارت انتہاپسند ریاست، اقلیتیں غیر محفوظ
ماضی میں شائننگ انڈیا کے بڑے بڑے دعوے کیے جاتے تھے، سیکولر بھارت کا ڈھول پیٹا جاتا تھا، دُنیا کی سب سے بڑی نام نہاد جمہوریت کا واویلا کیا جاتا تھا، لیکن پچھلے دس سال میں بھارت بُری طرح دُنیا کے سامنے بے نقاب ہوچکا ہے، مودی کے برسراقتدار آنے کے بعد یہ ملک اقلیتوں کے لیے جہنم سے بھی زیادہ خوف ناک شکل اختیار کرگیا ہے۔ بھارت انتہاپسند ریاست میں تبدیل ہوگئی ہے، جہاں ہندو انتہاپسندی کے واقعات ہولناک حد تک بڑھے ہیں، اقلیتوں کے کتنے ہی لوگوں سے جینے کا حق چھینا گیا ہے، عصمت دری کی گئی ہے، استحصال کیا گیا ہے، کوئی شمار نہیں۔ انتہاپسند ہجوم کا جب دل چاہتا ہے، کسی مسلمان پر گائے کا گوشت کھانے کا الزام لگاکر اُس سے زندگی چھین لیتا ہے۔ اس ضمن میں کئی واقعات میڈیا پر سامنے آچکے ہیں۔ مسلمان لڑکیوں کے جنسی استحصال کے ڈھیروں واقعات ہیں۔ تعلیم، ملازمتوں اور دیگر شعبوں میں ان کے ساتھ بدترین تعصب برتا جاتا ہے۔ دوسری اقلیتوں کے ساتھ بھی سلوک کچھ اچھا نہیں۔ عیسائی، سکھ، پارسی اور دیگر برادریوں کے لیے حالات خاصے کٹھن ہے۔ سکھ برادری کی جانب سے تو مسلسل علیحدہ وطن کے مطالبات سامنے آرہے ہیں۔ خالصتان کے حوالے سے بیرون ممالک ریفرنڈمز ہوچکے ہیں۔ عیسائیوں، پارسیوں کو بھی تعصب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس تناظر میں بھارت کو اقلیتوں کے لیے جہنم قرار دیا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ بھارت تو خالصتان تحریک کو کچلنے کے لیے کوشاں ہے اور اس تحریک کے اہم رہنما کو پچھلے مہینوں کینیڈا میں قتل کیا گیا، جس پر بھارت اور کینیڈا کے تعلقات میں کشیدگی پیدا ہوئی جب کہ امریکا میں بسنے والے خالصتان تحریک کے اہم رہنما کو قتل کرنے کا بھارتی منصوبہ امریکا نے بے نقاب کیا۔بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ برتے جانے والے انسانیت سوز سلوک کا انکشاف بین الاقوامی میڈیا بھی کررہا ہے۔ اس ضمن میں تازہ رپورٹ کے مطابق بھارت میں بی جے پی کے مسلسل 2014سے برسراقتدار آنے کے بعد سے بھارت کی شناخت جہاں سیکولر کے بجائے انتہاپسند ریاست کے طور پر راسخ ہوئی، وہیں ہندوتوا کے زور بڑھنے سے اقلیتوں کو کئی طرح کے مسائل کا سامنا رہا، بھارت کی سب سے بڑی اقلیت مسلمانوں کو بدترین نفرت کا شکار بننا پڑرہا ہے۔ امریکا میں قائم ادارے کی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق سال 2023کے دوران بھارت میں مسلمانوں کے خلاف نفرت پر مبنی واقعات میں 62فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے، رپورٹ کے مطابق سال 2023کی پہلی ششماہی کے مقابلے میں دوسری ششماہی میں ان نفرت کے واقعات میں بھی اضافہ ہوا ہے، رپورٹ کے مطابق سال کی پہلی ششماہی کے دوران 255ایسے واقعات ریکارڈ پر آئے جبکہ سال کی دوسری ششماہی میں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیزی پر پیش آنے والے واقعات کی تعداد 413رہی، رپورٹ کے مطابق ان بڑھے ہوئے مسلم دشمنی کے واقعات کی بڑی وجہ غزہ میں اسرائیلی جنگ بھی بنی، تاہم رپورٹ کے مطابق بھارت کے عمومی روایتی انتخابی عمل کے قریب آنے کی وجہ سے بھی اقلیتوں کے خلاف واقعات میں خود ہی اضافہ ہوجاتا ہے، بھارتیہ جنتا پارٹی کا شروع سے یہ یقین ہے کہ اقلیتوں کو سیاسی، سماجی، قانونی اور غیر قانونی ہر طرح کے اقدامات سے تنگ کرنے سے ہندو ووٹ زیادہ متحرک ہوجاتا ہے۔ اس بار پھر عام انتخابات کا انعقاد بھارت میں ہونے جارہا ہے۔ اقلیتوں کے ساتھ برتے گئے تعصب کی بناء پر بی جے پی اپنے ووٹ بینک میں اضافہ کرتی ہے۔ الیکشن میں عوامی ہمدردی حاصل کرنے کے لیے پاکستان کے حوالے سے پروپیگنڈا کیا جاتا اور ڈرامے رچائے جاتے ہیں۔ بھارت کے پچھلے عام انتخابات سے قبل اسی طرح کا ڈرامہ رچا کر بی جے پی نے اقتدار حاصل کیا۔ اگر یہی روش رہی تو بھارت جلد تباہی کے دہانے پر پہنچ جائے گا کہ اقلیتیں مسلسل استحصال کا شکار ہیں اور اس باعث بھارت کے اندر علیحدگی کی ڈھیروں تحاریک تیزی سے پنپ رہی ہیں۔ بھارتی عوام کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں اور ایسے عناصر کو اقتدار سے دُور رکھنا چاہیے جو تعصب کا ہتھیار استعمال کرکے مفادات سمیٹتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button