Column

آخری موقعہ غنیمت سمجھیں

تحریر : سیدہ عنبرین
ستر برس میں الیکیڈ سے شروع ہونے والا سیاسی سفر سلیکیڈ کی منزل سے ہوتا ہوا ریجکٹڈ کی منزل پر آ رکا ہے، آئندہ منزل کونسی ہے کسی کو اس کی کوئی خبر نہیں ہماری جمہوریت میں ایک شخص پانچ مختلف جگہوں سے الیکشن لڑ سکتا ہے یہ بات ممکنات میں ہے کہ جس شہر کے جس علاقے کا وہ رہائشی ہے اور اسے وہاں کی نمائندگی کا دعویٰ ہے ، وہ شخص وہاں سے مسترد کیا جائے الیکشن ہار جائے اور جس شہر میں وہ زندگی میں کبھی گیا ہی نہیں زندگی کا ایک دن وہاں بسر کیا نہیں وہاں سے الیکشن جیت جائے یہ نظام اس بات کی راہ ہموار کرتا ہے کہ جس شخص کو جس قیمت پر جس بھی ایوان میں پہنچانا مقصود ہوا سے وہاں پہنچایا جاسکتا ہے، وہ اس کا اہل ہے یا نہیں اس بات کی کوئی اہمیت نہیں۔ ایسے لوگ ایک ووٹ سے الیکشن جیتیں یا ایک لاکھ ووٹ سے کامیاب قرار دئیے جائیں ان کی حیثیت کے سامنے سوالیہ نشان ہی رہیں گے۔
حالیہ انتخابات میں درجنوں شخصیات ایسی ہیں جنہیں ان کے آبائی حلقوں میں عوام نے مسترد کر دیا وہ زندگی میں پہلی مرتبہ الیکشن لڑنے ولے گمنام نوجوانوں سے شکست کھا گئے لیکن ایک سے زائد حلقوں سے الیکشن لڑنے والوں کی خالی کردہ نشستوں پر انہیں ایک اور موقعہ دیا جائے گا کہ وہ اپنے حلقے سے ہارنے کے بعد کہیں اور سے جیت کر ایوان میں پہنچ جائیں۔ جمہوریت کی روح کا تقاضا تو یہ ہے کہ جو شخص اپنے حلقے سے شکست کھا چکا ہے مسترد کیا جا چکا ہے وہ گھر بیٹھے آرام کرے اسے قوم کے سر پر مسلط نہ کیا جاتے لیکن ایسا ہو گا نہیں، مسترد کئے گئے مسلط کئے جائیں گے اور اپنی پشت پر عوامی اعتماد نہ ہونے کے سبب معاشرے میں کوئی مثبت کردار ادا نہ کر سکیں گے۔
خواتین کی مخصوص نشستوں پر نامزد ہونے والی خواتین کا معاملہ بھی دنیا بھر سے نرالا ہے ہر سیاسی جماعت کا معیار ایک ہی ہے اول ترجیع خاندان دوسری ترجیع برادری جبکہ تیسری اور آخری جو دراصل ترجیع اول ہے قابل تحریر نہیں قابلیت نام کی کسی چیز کی کوئی ضرورت کبھی محسوس نہیں کی گئی حالانکہ مخصوص نشستوں پر نامزدگی کے پیچھے فلسفہ یہ تھا کہ زندگی کے شعبوں میں نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والی یا کسی بھی شعبے میں غیر معمولی مہارت و تجربہ رکھنے والے خواتین کو آگے لایا جائے اور ان کے تجربے تعلیم سے معاشرے کو فائدہ ہو سکے۔ ملک بھر میں مختلف اسمبلیوں میں اگر مجموعی طور پر ایک سو خواتین مخصوص نشستوں کے حصول کے بعد مختلف اسمبلیوں میں پہنچتی ہیں تو ان میں شاید پانچ بھی اسی نہ ہونگی جو اپنی تعلیم یا تجربے کی بنیاد پر علاقائی یا قومی شناخت رکھتی ہوں۔ ان کی نامزدگی کی بنیاد وہی ہو گی جو قابل تحریر نہیں پس ایسی خواتین معاشرے کو کچھ نہ دے سکیں گی اور ملکی خزانے پر بوجھ کے علاوہ کچھ نہ ہونگی۔
خواتین کیلئے مخصوص نشستوں کے قانون میں تبدیلی ہماری اشد ترین ضرورتوں میں سے ایک ہے ان نشستوں پر تعلیم صحت قانون سوشل ورک فنانس اور دیگر شعبوں سے تجربہ کار خواتین کو آگے لانے کی پابندی ہونی چاہیے بصورت دیگر ہمیں ہر اسمبلی کے اجلاس کے موقعہ پر فیشن پریڈ تو دیکھنے کو مل جائے گی اس کے سوا کچھ حاصل نہ ہو گا۔ اس حوالے سے پنجاب اسمبلی کے ممبران اسمبلی کی تعداد دیگر صوبائی اسمبلیوں سے زیادہ ہے لہذا یہاں خواتین نشستوں کی تعداد بھی زیادہ ہے۔ پنجاب اسمبلی میں فیشن پریڈ سب سے زیادہ دیکھنے میں آئی اب جبکہ پنجاب میں ایک خاتون وزیر اعلیٰ کا انتخاب ہوا ہے جن کی اپنی شہرت ایک پارلیمنٹرین سے زیادہ خوش لباسی، خوش پوشاکی اور برینڈز کی اسیر شخصیت کے حوالے سے زیادہ ہے تو اس فیشن پریڈ میں اضافہ دیکھنے میں آئے گا۔
یہ سب کچھ ہم عرصہ دراز سے اس صوبے میں دیکھ رہے ہیں جس کے بسنے والے صاف پانی اچھے سکولوں اور ڈھنگ کے ہسپتالوں سے محروم چلے آ رہے ہیں مسلم لیگ ن کا متعدد مرتبہ کا اقتدار زندگی کے کسی شعبے میں کوئی تبدیلی نہیں لا سکا کیونکہ ان کے نزدیک پلوں اور انڈر پاسز کا نام ترقی ہے انسان اور جانور اگر ایک جوہڑ سے پانی پینے پر مجبور ہیں تو یہ ان انسانوں ان جانوروں کا قصور ہے حکومت کا نہیں۔
جمہوریت کی سب سے زیادہ بات کرنے والی جماعت کی جمہوریت اپنے خاندان سے شروع ہوتی ہے اور اپنے خاندان پر ختم ہوجاتی ہے۔ جناب نواز شریف لٹے پٹے ملکی خزانے سے سابق وزیر اعظم کی مراعات ان کے بھائی وزیر اعظم، بیٹی وزیر اعلیٰ پنجاب اور بھتیجے مرکزی میں وزیر ہو نگے شاید اعلان
ہو جائے کہ ان میں سے کوئی بھی اپنے منصب کی تنخواہ نہیں لے گا یا قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی طرح ایک روپیہ تنخواہ لے گا تو پھر بھی ان سے گزارش کریں گے کہ آپ قوم پر یہ احسان نہ کریں۔ قانون کے مطابق تنخواہ ضرور لیں لیکن اربوں روپے سالانہ کی مراعات ختم کریں۔ ایک وزیر اعظم کا ایک دفتر ہونا چاہیے اس کے چار کیمپ آفس نہیں وزیر اعلیٰ کا ایک دفتر ہونا چاہیے، چار کیمپ آفس یا چار رہائش گاہیں نہیں جن کی تزئین و آرائش سے لیکر سیکڑوں سکیورٹی پر مامور افراد کو قومی خزانے سے تنخواہیں ملتی رہیں۔ اسی طرح گھر سے دفتر آنے کیلئے سڑک کا استعمال کریں ہیلی کاپٹروں والی عیاشیاں تو عرب ملکوں کے بادشاہ بھی نہیں کرتے۔ ہر مرتبہ حکومت بناتے ہوئے بتایا جاتا کہ سادگی کو فروغ دیا جائے گا لیکن سادگی کے نام پر اللے تللے آج تک ختم نہیں ہوئے۔ ممبران اسمبلی کیلئے بنائے گئے کیفے ٹیریا کی سبسڈی بند کی جائے کروڑوں روپیہ خرچ کرکے آنے والے غریب مسکین نہیں کہ انہیں سرکار کے پلے سے سیون سٹار مینو دیا جائے اور وہ اس کی ادائیگی فقط چند روپے کریں ۔ برطانیہ کا وزیر اعظم تین بیڈ روم کے گھر میں سادہ ترین انداز میں رہتا ہے ہمارا وزیر اعظم یہ کیوں نہیں کر سکتا، یہی حال ایوان صدر کا ہے جس کا سٹاف سیکڑوں افراد پر مشتمل اس کا بجٹ کئی ارب روپے سالانہ ہے۔ سالانہ اسی طرح گورنر ہائوس ہیں جن کا سٹاف سیکڑوں میں اور اخراجات اربوں روپے سالانہ ہیں جن کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں، ہمیں نمائشی عہدے فی الفور ختم کرنے ہونگے بصورت دیگر سادگی اختیار کرنے کے کھوکھلے نعرے تو ہم برسوں سے سن رہے ہیں وزیر اعظم، صدر، گورنر اور وزراء صاحبان کی پروٹوکول ڈیوٹیاں گاڑیاں ختم کر کے مزید بچت کی جاسکتی ہے۔ پانچ سے سات سال کی نوکری کے بعد پندرہ، پندرہ لاکھ روپے ماہانہ پینشن لینے والوں کی پینشن بھی بند کی جائے تضاد ملا خطہ فرمائیں ایک شخص تیس برس کی ملازمت کے بعد تیس ہزار پینشن کا حق نہیں۔ دوسری طرف پینشن کے نام پر لوٹ مار کا بازار گرم ہے اسے بند ہونا چاہیے ۔ ارکان اسمبلی کی تنخواہیں اور مراعات بھی حیران کن ہیں یہ طبقہ بغیر تنخواہ کے بھی گزارا کر سکتا ہے۔ وہ کہتے ہیں ہم سیاست عبادت سمجھ کر کرتے ہیں۔ عجب عبارت ہے جس کا معاوضہ ہمارا لہو نچوڑ کر دیا جاتا ہے۔ حکومت نے نظام نہ بدلا تو پھر عوام یہ نیک کام خود کریں گے۔ عام انتخابات میں ایک ٹریلر چل چکا ہے فلم خوفناک ہو گی کوئی جائے پناہ نہ ملے گی۔ آخری موقعے کو غنیمت سمجھیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button