Column

اسلام کا تصور عدل و انصاف

تحریر: ایم فاروق قمر
حکومت مملکت کی فلاح و بہبود اور غیر ذمے دار حکومت ملک کی تباہی و بربادی کا موجب ہوتی ہے۔ مملکت کی طاقت اور کمزوری کا اندازہ بھی اس کی حکومت سے لگایا جا سکتا ہے۔ دنیا میں کئی قسم کی حکومتیں قائم ہیں جو علاحدہ علاحدہ طریق سے چلتی ہیں۔ مثلاً شخصی حکومت، اعیانی یا اشرافی حکومت، جمہوری حکومت، واحدانی حکومت اور وفاقی حکومت۔ عام طور پر ہر حکومت کے پیش نظر مندرجہ ذیل اغراض و مقاصد ہوتے ہیں۔
1۔ شہریوں کی جان و مال کی حفاظت کرنا۔
2۔ ملک کو بیرونی دشمنوں کے حملے سے بچانا اور اندرونی جھگڑے طے کرنا۔
3۔ ملک میں عدل و انصاف اخلاقی اور اجتماعی ترقی کے لیے قوانین بنانا اور رائج کرنا۔ ( محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سیرت مبارک اور امن امان کے قانون کے مطابق)
4۔ رعایا کی تعلیم قرآن مجید سے صحیح حدیث مبارک سے جس سے سائنس بھی ترقی کر رہی ہے و ترقی اور معاشرتی حالت کی اصلاح کے لیے کوشاں رہنا وغیرہ۔
حضرت عمر بن خطابؓ کا دور خلافت ہر پہلو سے مثالی تھا۔ہر معاملے میں خلیفہ راشد اپنے آپ کو جواب دہ اور ذمہ دار گردانتے تھے اور رعایا کی ہر ضرورت کا خیال رکھتے تھے۔ نظمِ حکومت مضبوط بنیادوں پر قائم تھا۔ ادارے منظم تھے۔ مواصلات کا نظام بہترین تھا، راستے محفوظ اور بہترین انداز میں بنائے گئے تھے۔
مصر اور مدینہ کا فاصلہ خاصا طویل تھا مگر حضرت عمرؓ کے دُور اندیش ذہن نے یہ فاصلہ پاٹ دیا۔ وہ اس طرح کہ مصر سے غلہ لانے کے لیے بحری جہاز استعمال کیے۔ جہازوں کی ذریعے غلہ جار کی بندرگاہ تک لایا جاتا تھا۔ وہاں سے پھر اُونٹوں پر لاد کر محفوظ راستے کے ذریعے ایک دن اور ایک رات میں کارواں مدینہ پہنچ جاتا تھا۔ جار، بحر احمر پر بندرگاہ تھی۔
عزّت افزائی اور قدر کا معیار: حاجت مندوں کے لیے حضرت عمرؓ کا دروازہ ہر وقت کھلا رہتا تھا۔ جو شخص آتا اس کی داد رسی کی جاتی تھی۔ کسی کو کسی دوسرے پر فضیلت نہ تھی۔ ایک اصول تھا کہ جس سے ہر خاص و عام واقف تھا۔ وہ یہ کہ جو زیادہ نیک اور متقی تھا، وہی زیادہ معزز و محترم تھا۔ جس نے اعمالِ خیر اور جہادِ اسلامی میں زیادہ خدمات سرانجام دی تھیں، وہی دوسروں پر فوقیت رکھتا تھا۔ اس کے علاوہ کوئی دوسرا معیار نہ تھا، جس سے لوگوں کا مرتبہ متعین کیا جاتا۔
جب حق داروں کو ان کا حق نہ ملے اور صاحب ِ استحقاق کے مقابلے میں بااثر لوگوں کو ترجیح دی جانے لگے تو فساد پھیل جانا فطری امر ہے۔
خلیفہ ثانی سیدنا عمرابن خطاب ؓ کے عہد خلافت میں ایک شخص نے سیدنا عمر ابن خطاب ؓ سے شکایت کی کہ اے امیر المومنین گورنر مصر حضرت عمر و بن العاص ؓ کے بیٹے محمد بن عمرو ؓ نے میری پشت پر آٹھ کوڑے۔ مارے ہیں اور کہتا ہے کہ میں گورنر کا بیٹا ہوں خلیفہ دوم نے حکم فرمایا کہ محمد بن عمرو کو گرفتار کرکے لایا جائے۔
اور عمرو بن العاص ؓ کو بھی پیش ہونے کا حکم دیا۔ جب محمد بن عمرو ؓ کو گرفتار کرکے لایا گیا تو حضرت عمر ؓ نے اس آدمی سے کہا کہ گورنر کے بیٹے محمد بن عمرو ؓ کی پشت پر آٹھ کوڑے مارو۔ اس متاثرہ شخص نے گورنر کے بیٹے کی پشت پر کوڑے ماری تو حضرت عمر ؓ بن خطاب نے اس آدمی سے کہا کہ اب عمرو بن العاص ؓ کی پشت پر بھی ایک کوڑا مارو تاکہ اسے پتا چلے کہ اس کا بیٹا کیا کرتا ہے اس پر اس آدمی نے کہا کہ اے امیر المومنین عمرو بن العاص ؓ نے تو مجھے کوئی کوڑا نہیں مارا لہذا میں انہیں معاف کرتا ہوں۔ اس کے بعد خلیفہ دوم عوام کے جم غفیر کے سامنے گورنر مصر حضر ت عمرو بن العاص ؓ سے مخاطب ہوئے اور فرمایا اے عمرو بن العاص ؓ تمہیں کیا ہوگیا لوگوں کو تم نے کب سے اپنا غلام بنانا شروع کر دیا ہے۔ حالانکہ ان کی مائوں نے انہیں آزاد جنا تھا۔ ایک جرمنی کی پارسی لڑکی اس واقعہ کی وجہ سے حضرت عمر ؓ بن خطاب سے اس قدر متاثر ہوئی کہ اس نے سیرت سیدنا عمر ؓ پر 7000انگریزی کی کتب جمع کیں اور ایک انٹرنیشنل لائبریری بنائی اور اس نے ایک بین الاقوامی سیمینار منعقد کیا جس میں 1000دنیا کے بڑے دانشوروں نے شرکت کی اس نے مقالہ پیش کیا جس میں یہ اعتراف کیا گیا کہ انسانی حقوق کا سب سے بڑا علمبردار حضرت عمر فاروق ہیں۔
حضرت عمر فاروق ؓ سفر پر جارہے تھے جاتے جاتے سفر کے دوران انہیں بھوک لگی۔ ہوٹلوں اور ریسٹورنٹس کا زمانہ تو تھا نہیں کہ بھوک لگی تو کسی ہوٹل میں جاکر وہاں سے کھانا کھا لیا جائے تو حضرت عمر فاروق ؓ نے آس پاس کسی بستی کو تلاش کیا لیکن وہاں کوئی بستی بھی نہیں تھی بستی تلاش کرتے کرتے دیکھا کہ ایک چرواہا بکریوں کا ریوڑ چرا رہا ہے خیال ہوا کہ اس بکری والے سے کچھ دودھ لے کر پی لوں تاکہ بھوک مٹ جائے تو دیکھا کہ چرواہا بکریاں چرا رہا ہے اس سی جاکر کہا کہ میں مسافر ہوں اور مجھے بھوک لگی ہے مجھے ایک بکری کا دودھ نکال دو تاکہ میں پی لوں اور اس کی قیمت جو بھی تم چاہو وہ میں تم کو ادا کردوں چرواہے نے کہا کہ جناب میں ضرور آپ کو دودھ دیتا لیکن یہ بکریاں میری نہیں ہیں میں تو ملازم ہوں مجھے مالک نے بکریاں چرانے کیلئے رکھا ہوا ہے اور جب تک میں اس سے اجازت نہ لے لوں اس وقت تک مجھے آپ کو دودھ دینے کا کوئی حق نہیں حضرت عمر فاروق ؓ لوگوں کو آزمایا بھی کرتے تھے اس لیے آپ نے ان سے کہا کہ میں تمہیں تمہارے فائدے کی ایک بات بتاتا ہوں اگر تم اس پر عمل کرلو اس بندی نے پوچھا وہ کیا آپ ؓ نے فرمایا ایسا کرو کہ ان بکریوں میں سے ایک بکری میرے ہاتھ بیچ دو۔ اس کی قیمت میں تمہیں ابھی دیتا ہوں میرا فائدہ یہ ہوگا کہ مجھے دودھ مل جائیگا ضرورت ہوگی تو میں بکری کو ذبح کرکے گوشت بھی کھا لوں گا پھر جب مالک تم سے پوچھے کہ ایک بکری کہاں گئی تو کہہ دینا کہ بھیڑیا کھا گیا اور اسی وجہ سے ایک بکری کم ہے اور کہا کہ تمہارا مالک تمہاری تحقیق کرتا پھرے گا کہ بھیڑیے نے کھایا یا نہیں تم ان پیسوں کو اپنی جیب میں رکھ کر ان کو اپنی ضروریات میں استعمال کرنا اگر تم ایسا کر لو گے تو اس میں تمہار ابھی فائدہ ہے اور میر ابھی اس چرواہے نے یہ بات سنی اور کہا کہ شہزادے تم مجھ سے یہ کہتے ہوکہ میں مالک سے جاکر جھوٹ بول دوں اور یہ کہہ دوں کہ بکری کو بھیڑیا کھا گیا تو اللہ تعالیٰ کہاں ہے؟ میرا مالک مجھے نہیں دیکھ رہا؟، لیکن مالک کا مالک تو دیکھ رہا ہے، اس کے پاس جاکر میں کیا جواب دونگا، مالک کو تو میں خاموش کر سکتا ہوں لیکن اس مالک کو کیسے خاموش کروں گا۔ حضرت عمر فاروق ؓ نے فرمایا کہ جب تک تجھ جیسے انسان امت کے اندر موجود ہیں اس وقت تک اس امت پر کوئی فساد نہیں آسکتا جن کے اندر اللہ کے سامنے جواب دہی کا احساس موجود ہے جب تک یہ احساس باقی ہے اس وقت تک دنیا میں امن باقی ہے جب یہ ختم ہوگیا اس وقت انسان انسان نہ رہے گا بلکہ بھیڑیا بن جائیگا جیسا کہ آج کل اکثر انسان بھیڑیا بنا ہوا نظر آرہا ہے کیونکہ ہمارے اندر یہ احساس نہیں رہا کہ اللہ ہر عمل کو دیکھ رہا ہے۔
قیصر روم نے حضرت عمر فاروقؓ کے حال و احوال معلوم کرنے کے لیے اپنا قاصد مدینہ میں بھیجا۔ مدینے میں آکر اس نے دیکھا یہاں تو کوئی محل تعمیر نہیں کیا ہوا ہے اور نہ ہی کوئی ایسا گھر ہے جس سے معلوم ہو کہ یہ کسی بادشاہ کا ہے، قاصد نے مدینہ کے لوگوں سے پوچھا تمہارا بادشاہ کون ہے، انہوں نے جواب دیا ہمارا کوئی بادشاہ نہیں البتہ ہمارا ایک امیر ہے جو مدینے سے باہر گئے ہوئے ہیں، وہ قاصد حضرت عمر فاروقؓ کی تلاش میں مدینے سے باہر نکل پڑا اور دیکھا کہ دور ایک جگہ پر آپؓ زمین کو فرش بنائے اور درخت کے نیچے اپنا سر اپنے درہ کے نیچے رکھا ہے اور سو رہے ہیں اور کوئی آس پاس غلام پہرا نہیں دے رہا ہے، یہ منظر دیکھ کر اس کے دل میں ہیبت بیٹھ گئی یہ وہ آدمی ہے جس کی ہیبت سے بادشاہوں کو چین اور سکون نہیں آتا اور اس کی ظاہری حالت یہ ہے، تو اس نے کہا اے عمرؓ تو نے واقعی لوگوں میں عدل کیا ان کو امن دیا تبھی تو آرام کی نیند سو رہا ہے، اس کے مقابلے میں ہمارا بادشاہ ظلم کرتا ہے، تبھی تو اس کے سر پر خوف سوار رہتا ہے، اسے راتوں کو نیند نہیں آتی۔ اے عمرؓ تمہارا دین حق پر ہے، اگر میں قاصد بن کر نہ آیا ہوتا تو میں ضرور ایمان لے، البتہ میں واپس جا کر ضرور مسلمان ہو جائوں گا۔
حضرت عمر فاروقؓ کی عدل کی یہ حالت تھی کہ جب آپؓ کا انتقال ہوا تو آپؓ کے دور دراز کے علاقے سے ایک چرواہا بھاگا ہوا آیا اور چیخ کر کہا:
اے لوگو! حضرت عمر فاروقؓ کا انتقال ہو گیا ہے، لوگوں نے کہا تم اتنے دور دراز علاقے میں رہتے ہو تمہیں کیسے معلوم ہوا؟ تو اس نے کہا جب حضرت عمر فاروقؓ تک زندہ تھے، میری بھیڑیں جنگل میں بے خوف پھرتی تھیں اور کوئی درندہ ان کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتا تھا لیکن آج پہلی بار ایک بھیڑیا میری بھیڑ کا بچہ اٹھا کر لے گیا ہے، میں نے بھیڑیے کی اس جرات سے اندازہ لگایا حضرت عمر فاروقؓ اب موجود نہیں ہیں۔ یہ تھا میرے نبی کریمؐ کے ہدایت یافتہ صحابہ کرامؓ کا طرز حکمرانی، جن کے طرز حکمرانی سے نہ صرف کفر کانپتا تھا بلکہ شیطان بھی بھاگ جاتا تھا۔ خلفائے راشدینؓ کے دور میں عدل و انصاف میں اکثر مقدموں میں غیر مسلم مقدمہ جیت جاتے تھے اس کی وجہ عدل و انصاف تھا۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز خلیفہ بننے سے پہلے ایک شاندار زندگی گزارتے تھے مگر جب خلیفہ بنے تمام آسائش کا سامان ترک کر دیا اور اپنی جائیداد بیت المال میں جمع کرا دی۔ ایک دن آپ کو اطلاع ہوئی کہ آپ کی فوج کا کمانڈر بہت فضول خرچ ہی، آپ نے اس کو ایک رات کھانے پر دعوت دی اور ہر طرح کا کھانا بنوایا اور ساتھ ایک لذیذ کدو کا حلوہ بھی بنوایا، جب کمانڈر آیا تو اسے سب سے پہلے کدو کا حلوہ پیش کیا گیا وہ اس قدر لذیذ تھا کہ اس نے اور مانگا، جب اس کا پیٹ بھر گیا تو خلیفہ عمر بن عبدالعزیز نے کہا دوسرے کھانے بھی تناول فرمائیں! کمانڈر نے جواب دیا حضور میرا پیٹ بھر گیا ہے تو آپ نے کہا اگر تیرا پیٹ ایک کدو کے حلوے سے بھر سکتا ہے تو اتنی فضول خرچی، اتنے زیادہ کھانے بنوانے کی کیا ضرورت ہے۔ موجودہ دور میں حکمرانی ایک خادم کے مترادف ہے، ایک حکمران کا کام عوام کو چین اور سکون مہیا کرنا ہے اور تمام بنیادی سہولتیں فراہم کرنا ہے اور انصاف کے تقاضے پورے کرنے ہیں، تب ہی وہ ایک کامیاب حکومت بن پائے گی۔ حکمرانوں کو چاہیے کہ اپنے مفادات کو چھوڑ کر ملک کی امن و سلامتی کے لیے کام کریں جب آپ لوگوں کو سکھ اور سکون مہیا کریں گے تو کامیاب حکمران بن جائیں گے۔ جدید دور میں حکومتوں کی پوری مدت نہ کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ عوامی مسائل حل کرنے میں ناکام دکھائی دیتی ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button