Editorial

حکومت سازی، معاملات جلد طے کئے جائیں

عام انتخابات کے انعقاد کو دو ہفتے ہونے کو ہیں، لیکن اب تک وفاقی حکومت کا قیام عمل میں نہیں آسکا ہے۔ چونکہ انتخابات 2024میں کوئی بھی سیاسی جماعت واضح اکثریت حاصل نہیں کر سکی ہے تو ایسے میں اتحادی حکومت کا قیام ہی عمل میں آسکتا ہے۔ اس ضمن میں مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی کے درمیان معاملات طے کرنے کے لیے اجلاسوں کا انعقاد ہورہا ہے، لیکن اب تک دونوں فریق کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے ہیں۔ پی پی ن لیگ کے وزارت عظمیٰ کے امیدوار کو ووٹ دینے پر آمادہ ہے، لیکن حکومت میں حصّہ داری نہیں چاہتی اور اب تک اس موقف پر ڈٹی ہوئی ہے۔ مسلم لیگ ن تن تنہا حکومت کا بار اُٹھانے پر آمادہ نہیں۔ ایم کیو ایم 17سیٹیں جیت کر اتحادی حکومت کا حصّہ بننے پر رضامند ہے اور اس حوالے سے وہ یقین دہانی بھی کراچکی ہے۔ دوسری جانب پی ٹی آئی، جس نے قومی اسمبلی کی 92سیٹیں جیت رکھی ہیں، اُس کی جانب سے عام انتخابات میں دھاندلی کے الزامات عائد کیے جارہے ہیں، اُس کی جانب سے دعوے کیے جارہے ہیں کہ پی ٹی آئی کے آزاد امیدواروں نے 180نشستیں جیتی ہیں اور ہم سے نصف کے قریب سیٹیں دھاندلی کے ذریعے چھینی گئی ہیں۔ اس حوالے سے پی ٹی آئی سمیت جی ڈی اے، جماعت اسلامی، جے یو آئی اور دیگر سیاسی جماعتوں اور اتحادوں کی جانب سے احتجاج کے سلسلے ہیں۔ ملک کے طول و عرض میں احتجاج ہورہے ہیں۔ دوسری جانب پی ٹی آئی کی بھی جانب سے حکومت سازی کی کوششیں ہورہی ہیں۔ گزشتہ روز پی ٹی آئی کی جانب سے اس کی آزاد ارکان اسمبلی نے سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار کی ہے۔ جیسے جیسے حکومت کے قیام میں تاخیر ہورہی ہے، قوم کی تشویش بڑھتی چلی جارہی ہے۔ ماہرین کو ملک کے مستقبل سے متعلق اندیشے اور خدشات لاحق ہورہے ہیں۔ کاروباری حلقے بھی اس صورت حال پر پریشان دِکھائی دیتے ہیں۔ گزشتہ روز بھی پی پی اور مسلم لیگ کے درمیان اجلاس بے نتیجہ اختتام پذیر ہوا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق وفاق میں حکومت سازی کے لیے پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کا پانچواں اجلاس بھی بے نتیجہ ختم ہوگیا۔ نجی ٹی وی کے مطابق مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی رابطہ کمیٹیوں کے درمیان مذاکرات کا پانچواں دور پارلیمنٹ لاجز میں اسحاق ڈار کی رہائش گاہ پر ہوا۔ پیپلز پارٹی کے وفد میں مراد علی شاہ، قمر زمان کائرہ، ندیم افضل چن اور دیگر شامل تھے۔ تین گھنٹے طویل بیٹھک کے بعد دونوں جماعتوں نے مذاکرات میں وقفہ کیا۔ دس بجے کے بعد پیپلز پارٹی کا وفد دوسرے رائونڈ کیلئے نہ آیا اور ن لیگ کے قائدین انتظار کرتے رہ گئے، جس کے بعد سوا گیارہ بجے انہوں نے اجلاس ختم کرکے صبح بات چیت آگے بڑھانے کا عندیہ دیا۔ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے مذاکرات کے پانچویں اجلاس میں بھی پیپلز پارٹی کا کابینہ میں شمولیت کا فیصلہ نہ ہوسکا۔ لیگی ذرائع کا کہنا ہے کہ ہم پرامید ہیں معاملات اور معاہدہ طے پا جائے گا۔ اجلاس کے اختتام پر صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو میں اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ دونوں جماعتوں کے درمیان بات چیت مثبت انداز میں جاری ہے، وفاقی کابینہ میں پیپلز پارٹی کی شمولیت کے حوالے سے کچھ چیزیں پہلے سے طے شدہ ہیں۔ دوسری طرف متحدہ قومی موومنٹ پاکستان نے مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے ساتھ حکومت سازی میں مکمل ساتھ دینے کی یقین دہانی کرادی۔ مسلم لیگ ن اور ایم کیو ایم پاکستان کے درمیان حکومت سازی اور کابینہ میں شمولیت سے متعلق اجلاس ہوا۔ اس حوالے سے کامران ٹیسوری نے صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کی اور بتایا کہ ہم حکومت سازی کے مشکل مرحلے میں ساتھ ہیں۔ علاوہ ازیں ترجمان ایم کیو ایم نے بتایا کہ ملاقات میں گورنر سندھ کامران ٹیسوری، سینئر ڈپٹی کنوینر سید مصطفیٰ کمال، ڈاکٹر فاروق ستار، اسحاق ڈار، ایاز صادق اور محمد احمد خان شریک تھے۔ ترجمان کے مطابق ملاقات میں ملک کو درپیش چیلنجر سے نمٹنے کیلئے مشترکہ حکمت عملی بنانے سمیت دیگر امور پر تبادلہ خیال کیا گیا اور پاکستان، سندھ بالخصوص شہری سندھ کے لوگوں کو مسائل کے دلدل سے نکالنے کے لیے مختلف امور پر بھی گفتگو ہوئی۔ ترجمان نے بتایا کہ ایم کیو ایم پاکستان نے حکومت میں شامل ہونے کیلئے ن لیگ سے تین نکاتی آئینی ترمیم پر حمایت بھی مانگ لی ہے، ملک کو درپیش مسائل کا حل اور بحرانوں سے نکالنا ہم سب کی ذمے داری ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اختیارات اور وسائل کی نچلی سطح تک منتقلی کو آئینی تحفظ دلوانا ایم کیو ایم پاکستان کی اولین ترجیح ہے، دونوں جماعتوں کے رہنماؤں نے حکومت سازی کے حوالے سے بات چیت ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رکھنے پر اتفاق کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم نے اپنی حمایت کی یقین دہانی کرا دی۔ ایم کیو ایم کی جانب سے حمایت کی یقین دہانی احسن عمل ہے۔ حکومت سازی کے حوالے سے معاملات کو جلد از جلد طے پاجانا چاہیے، اسی میں ملک و قوم کی بہتری اور بھلائی ہے۔ دونوں سیاسی جماعتوں کو اس حوالے سے مسائل کو افہام و تفہیم سے حل کرنے کی جانب توجہ دینی چاہیے۔ تاخیر کسی کے مفاد میں بہتر ثابت نہیں ہوگی۔ سیاسی بحران جنم لینے کے اندیشے لاحق ہورہے ہیں۔ پہلے ہی ملک مشکل چیلنجز سے نبردآزما ہے۔ معیشت مشکل دور سے گزر رہی ہے۔ روپیہ تاریخی بے وقعتی اور بے توقیری سے دوچار ہے۔ مہنگائی کا آسیب قوم سے چمٹا ہوا ہے اور کسی طور پیچھا چھوڑنے پر آمادہ نہیں۔ غریبوں کے لیے روح اور جسم کا رشتہ برقرار رکھنا آسان نہیں۔ ایسے میں ملک و قوم مزید کسی بحرانی کیفیت کے متحمل نہیں ہوسکتے، لہٰذا پاکستان اور اُس کے عوام کے مفاد میں مثبت سمت پیش رفت کی جائے اور حکومت سازی کے عمل کو پایہ تکمیل کو جلد از جلد پہنچا کر مسائل سے نمٹنے کے لیے مشترکہ حکمت عملی طے کرنے پر توجہ دی جائے۔
وفاقی حکومت کا رمضان پیکیج کا اعلان
رمضان المبارک کی آمد میں 20روز باقی رہ گئے ہیں۔ وطن عزیز کے طول و عرض میں بسنے والے مسلمان ماہ صیام کی آمد کا بے صبری سے انتظار کرتے ہیں اور اس نیکیوں کے موسم بہار میں خوب خوب نیکیاں سمیٹنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسے عناصر بھی یہاں بہ کثرت پائے جاتے ہیں، جو پورا سال ماہ صیام کا انتظار عوام کی جیبوں پر بھرپور نقب لگانے کی خاطر کرتے ہیں۔ وہ اس کے لیے ذخیرہ اندوزی اور گراں فروشی کے حوالے سے بھرپور منصوبہ بندی کرتے ہیں اور ماہ صیام میں اس پر پوری تندہی سے عمل پیرا ہوتے ہیں۔ انہی عناصر کے باعث رمضان المبارک میں گرانی کا ہیولہ بے قابو ہوجاتا اور عوام کے لیے بے پناہ پریشانی اور مصائب کا باعث بنتا ہے۔ وہ مہنگائی کے نشتروں سے تنگ آجاتے ہیں۔ سالہا سال سے یہی سلسلہ جاری ہے اور اب تک اس پر قابو نہیں پایا جاسکا ہے۔ گراں فروش، ناجائز منافع خور اور ذخیرہ اندوز عوام کی جیبوں پر بھرپور نقب لگانے میں آزاد ہوتے ہیں۔ ہر سال ہی مرکزی حکومت کی جانب سے رمضان ریلیف پیکیج کا اعلان کیا جاتا ہے، جس کے ذریعے عوام کی کچھ اشک شوئی کا بندوبست کیا جاتا ہے۔ اس مرتبہ نگراں وفاقی حکومت کی جانب سے گزشتہ برسوں کی نسبت بڑے ریلیف پیکیج کا اعلان سامنے آیا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق وفاقی حکومت کی جانب سے ساڑھے 7 ارب روپے کے رمضان پیکیج کا اعلان کیا گیا ہے، جس کے مطابق رمضان المبارک کے دوران 19 اشیاء پر ٹارگٹڈ سبسڈی دی جائے گی۔ آٹا، چینی، گھی، کوکنگ آئل، چاول، دالیں، کھجور، بیسن، دودھ، مشروبات اور مسالہ جات سمیت 19 اشیاء پر خصوصی رعایت فراہم کی جائے گی۔ رمضان ریلیف پیکیج سے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں رجسٹرڈ خاندان جن کا غربت انڈیکس پر اسکور 60 پی ایم ٹی یا اس سے کم ہوگا، مستفید ہوسکیں گے۔ جنرل صارفین کے لیے بھی خصوصی رعایتی قیمتیں مقرر کی جائیں گی۔ رمضان ریلیف پیکیج کا اعلان خوش گوار ہوا کے تازہ جھونکے کی مانند ہے۔ اس سے غریب عوام کی بڑی تعداد مستفید ہوسکے گی۔ حکومت کی جانب سے کیے گئے اس اعلان کی جتنی تعریف و توصیف کی جائے، کم ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس اعلان کردہ ریلیف پیکیج سے غریبوں کی زیادہ سے زیادہ تعداد کو فائدہ پہنچانے کا بندوبست کیا جائے۔ دوسری جانب ماہِ صیام میں ایسے انتظامات کیے جائیں کہ کسی کو بھی غریبوں کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالنے کا موقع نہ مل سکے۔ ناجائز منافع خوری، گراں فروشی اور ذخیرہ اندوزی کے تمام راستے مسدود کیے جائیں۔ اس ضمن میں روزانہ کی بنیاد پر متعلقہ ٹیموں کو ملک بھر میں قائم بازاروں اور مارکیٹوں کے دورے کرنے چاہئیں، جو حکومت کے مقرر کردہ نرخوں سے زائد پر اشیاء فروخت کرتا پایا جائے، اُسے نشان عبرت بنایا جائے۔ یقیناً درست سمت میں اُٹھائے گئے قدم مثبت نتائج کے حامل ثابت ہوں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button