Columnمحمد مبشر انوار

آخری جیت

محمد مبشر انوار(ریاض)
منصوبے ناکام ہو گئے،اندازے فیل ہو گئے،لائحہ عمل زمین بوس نظر آرہا ہے،قارئین اس سے بخوبی واقف ہیں کہ پاکستانی سیاست اس وقت ایک نیا موڑ لے چکی ہے،جہاں گھاگ و موقع پرست سیاستدانوں کو چھپنے کی جگہ بھی میسر نہیں بلکہ حصول اقتدار میں کی جانے والی ان کی تمام تر حرکات،انہیں عوام میں مزید ننگا کر رہی ہیں۔حالیہ عام انتخابات فروری 2024میں مطلوبہ نتائج کے حصول کی خاطر جو پاپڑ بیلے گئے،جو غیر قانونی اقدامات کئے گئے،انسانی حقوق کی پامالی کی گئی،چادرو چار دیواری کے تقدس کو پامال کیا گیا،عوامی اظہار رائے کوبزور دبانے کی کوششیں و کاوشیں ،اندھے انتقام میں مخالفین کے خلوت کدوں میں گھس کر خلوت کے مناظر کو عام کرنے جیسی گندی و گھناؤنی حرکتیں تک رائیگاں گئی۔حد تو یہ ہے کہ مخالفین کے امیدواران کو ہراساں کرنے کی خاطر ان کے بچوں،پوتوں یا بزرگوں کو اغوا کرنا ،حبس بے جا میں رکھنا،ظلم و تشدد کرنا،منظور نظر امیدواران کے حق میں بٹھانے کے باوجود مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہو سکے،شرمندگی و سبکی کی ایسی مثال پاکستانی تاریخ میں ڈھونڈے سے نہیں ملے گی لیکن جیت کے دعویداروں کی شکلیں ،ان کے حرکات و سکنات سے شرمندگی کی بجائے ڈھٹائی ہی نظر آ رہی ہے ،ہوس اقتدار میںاس قدر اندھے ہو چکے ہیں کہ انتخابات میں تمام تر حربے استعمال کرنے کے باوجود بری طرح شکست کا چکے ہیں لیکن ابھی بھی حکومت سازی کے لئے فارمولے طے کئے جارہے ہیں کہ جلد ازجلد حکومت بنا کر چوتھی مرتبہ وزیراعظماپنے نام کے ساتھ لکھوا کر تاریخ رقم کر لی جائے۔ عین ممکن ہے کہ جلد بازی میں،پیپلز پارٹی کے تعاون سے گو کہ اپنے لائحہ عمل اور دعوئوں کے برعکس پیپلز پارٹی دستیاب حالات میں تعاون کرتے ہوئے،اس خواہش کی تکمیل کر دے لیکن ایسی بونی و کوتاہ قد شخصیات کو تاریخ سے کوئی سروکار نہیں ہوتا اور نہ وہ مستقبل میں جھانکنے کی صلاحیت رکھتے ہیں،کہ تاریخ انہیں کن الفاظ میں یاد رکھے گی۔انہیں صرف حال سے غرض ہوتی ہے اور اس کے لئے وہ کسی بھی حد تک جانے کے لئے تیار و آمادہ نظر آتے ہیں تاہم یہاں یہ امر برمحل ہے کہ پس پردہ جن قوتوں کے اشارہ ابرو پر یہ سارا کھیل کھیلا گیا ہے،وہ اس خواہش کی تکمیل پر آمادہ دکھائی نہیں دیتے اور یہ بھی ممکن ہے کہ پیپلز پارٹی ،اپنے دعوے کے مطابق اس خواہش کی تکمیل میں رکاوٹ بن جائے اور قرعہ فال شہباز شریف کے نام نکل آئے۔بہرکیف اس کا فیصلہ بھی چند دنوں میں ہو جائیگا لیکن دوسری طرف پیپلز پارٹی کا جیالا اس ساری صورتحال میں کھل کر اپنے خدشات کااظہار کر رہا ہے اور پیپلز پارٹی کے بنیادی فلسفے کی وکالت کرتے ہوئے،عوامی مینڈیٹ حاصل کرنے والی جماعت کی حمایت کرنے کو ترجیح دے رہا ہے۔
پاکستانی سیاست میں زور،جبر،دھونس او ردھاندلی کی ایک روایت رہی ہے اور مقتدرہ نے ہمیشہ ،سیاستدانوں کی موقع پرستی و فرمانبرداری کا فائدہ اٹھایا ہے جبکہ سیاستدانوں کی اپنی کمزوریاں ہیں،جن کے باعث وہ مقتدرہ کے ہاتھوں کھلونا بن جاتے ہیں تو دوسری طرف اہم ترین حقیقت یہ رہی ہے کہ دورحاضر کے اکثر سیاستدان،اسی نرسری کی پروردہ ہیں اور اقتدار کا حصول اسی نرسری کے مالکوں سے کرنا چاہتے ہیںلہذا بالعموم اقتدار کے بدلے سب کچھ تسلیم کرنے کے لئے تیار نظر آتے ہیں۔حالیہ انتخابات میں بھی یہی صورتحال نظر آئی کہ راندہ نرسری سیاستدان کے لئے انتخابی زمین تنگ کردی گئی،اس کے امیدواران کو مساوی مواقع دینے سے انکار کردیا گیا،نگران حکومتیں اورسرکاری مشینری اپنے تمام تر وسائل کے ساتھ اس سیاستدان کے خلاف بروئے کار رہی،اسے ڈرایا دھمکایا گیا،اس پر قاتلانہ حملے کئے گئے،اس کو ہر طرح سے زچ کرنے کی کوشش کی گئی،اسے باور کروایا گیا کہ منصوبے کے مطابق چلو،تمہیں دوبارہ موقع دیا جائے گا لیکن وہ شخص اپنا سب کچھ دائو پر لگا کر میدان میں ڈٹ گیا۔رجیم چینج کے وقت اس نے کہا تھا کہ میں حکومت سے باہر زیادہ خطرناک ہو جائوں گا ،اسے اقتدار سے نکالنے والوں کا حساب کتاب جانے کہاں غلط ہوا کہ جب اسے نکالا گیا، اس وقت اس کی مقبولیت انتہائی کم تھی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ،اسے عوامی حمایت میسر ہوتی گئی اور اس کی طاقت میں اضافہ ہوتا گیا۔عوامی نبض ، عوامی ردعمل اور عوامی شعوراس امر کا غماز ہے کہ یہ اپنے سیاسی رہنما وقائد کی ساکھ کو بہت اہمیت دیتا ہے،اسے پرکھنے میں غلطی نہیں کرتا ،ایسی ہی صورتحال قائد اعظم کی تحریک پاکستان کے وقت تھی کہ عوام ان کی زبان سے نابلد ہونے کے باوجود ان پر اعتماد کرتے تھے،یہی صورتحال قائد ملت لیاقت علی خان،مادر ملت فاطمہ جناح ،شیخ مجیب الرحمن اور ذوالفقار علی بھٹو کی بھی تھی کہ عوام ان پر خود سے زیادہ اعتماد کرتے دکھائی دیتے ہیں۔جبکہ آج یہ عزت و افتخار عمران خان کا نصیب ٹھہر ا ہے اور پوری پاکستانی قوم نے اسے اپنے اعتماد کے قابل سمجھتے ہوئے،تمام تر ریاستی ظلم و جبر کے باوجود،اس کی جھولی اپنے ووٹوں سے بھر د ی ہے، الیکشن کمیشن و دیگر ادارے کوشش کے باوجود اس کی اکثریت کو اقلیت میں بدلنے میں ناکام دکھائی دیتے ہیں۔ تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدواران کو پینتیس سے چالیس نشستوں تک محدود رکھنے کی تمام تر کوششیں ناکامی سے دوچار ہو چکی ہیں اور اس کے حمایت یافتہ امیدواران کو خریدنے کے لئے جو منڈی لگائی جانی مقصود ہے،اس میں مخالفین/سوداگروں /تاجروںکو کتنی کامیابی ملتی ہے،فی الوقت کچھ کہنا قبل از وقت ہو گاتاہم لاہور سے ایک حمایت یافتہ رکن نے اپنے ضمیر کا سودا کر لیا اور ووٹرز نے جو اس کی درگت بنانا شروع کی ہے،یقینا وہ دیگر کو بکنے سے روکنے میں معاون ہو گی۔بہرکیف چھانگا مانگا،مری اور سندھ ہاؤس کے بیوپاری میدان میں موجود ہیں لیکن انہیں تاحال بہت زیادہ کامیابی کی امید دکھائی نہیں دیتی کہ بہت سی سیاسی جماعتوں نے ،ماسوائے مسلم لیگ ن،تحریک انصاف کے مینڈیٹ کو تسلیم کرنے کا عندیہ دیا ہے اور اکثر جماعتیں تحریک انصاف کے مینڈیٹ کے ساتھ کھڑی دکھائی دیتی ہیں۔
صورتحال ایسی بن گئی ہے کہ یہ نہ نگلی جا رہی ہے اور نہ اگلی جار ہی ہے،مدمقابل وہ شخص ہے جو آسانی سے شکست تسلیم کرنے والوں میں سے نہیں،اس کو ہر طرح سے توڑنے کی کوشش کی گئی لیکن اس نے ہر کوشش کا ایک ہی جواب دیا کہ مجھے شفاف انتخابات میں اگر شکست دے سکتے ہوتو دے دو،وگرنہ میں شکست تسلیم نہیں کرونگا۔ انتخابات کی شفافیت پر ساری دنیا انگلیاں اٹھا رہی ہے اور انہیں دھاندلی زدہ انتخاب گرداننے کے باوجود عمران خان کو تاریخ رقم کرنے بر مبارک باد دے رہی ہے،پاکستان میں ایسا کب ہوا ہے کہ مقتدرہ کی خواہش و منصوبے کے برعکس نتائج سامنے آئے ہوں؟ان نتائج کے بعد،حکومت سازی ایک امتحان بن چکی ہے ،مقتدرہ کے نمائندے پھر وہی پیشکشیں لے کر اڈیالہ پہنچ رہے ہیں کہ کچھ عرصہ انتظار کر لو،پھر موقع دے دیا جائیگا جبکہ کپتان کا مطالبہ اب بدل گیا ہے،وہ کہتا ہے کہ اب پہلے مجھے میرا مینڈیٹ واپس کرو،جن نشستوں پر ریاستی مشینری نے بددیانتی کی ہے،وہ نشستیں مجھے واپس کرو،میرے کارکنوں کو رہا کرو،پھر مزید بات ہو گی۔کپتان کے اس مطالبے پر یہی کہا جا سکتا ہے کہ میری سادگی دیکھ میں کیا چاہتا ہوں،ریاست نے اتنی محنت اس لئے تو نہیں کہ کپتان کا مینڈیٹ اتنی آسانی سے اسے واپس کردیا جائے،وہ تو اپنی بھرپور کوشش میں ہیں کہ کسی طرح عمران خان کو رام کرلیا جائے اور اپنے منصوبے کے مطابق کم و بیش ستر نشستوں والی جماعت کو حکومت بنانے دی جائے۔معاملات تاحال الجھے ہوئے ہیں اور ان کا حل تحریک انصاف اور مقتدرہ کے پاس تو ہے ہی لیکن تمام سیاسی جماعتوں کے یک زبان ہونے میں بھی ہے کہ یہی سیاسی جماعتیں بطور حزب اختلاف مداخلت/ڈوریاںہلائے جانے پر شکوہ کناں رہتی ہیں لیکن عمران خان کی طرح سامنے کھڑے ہونے سے کتراتی ہیں۔مدمقابل کھڑے نہ ہونے کی وجوہات سے بھی ہم سب واقف ہیں کہ جب اپنا کردار عیب سے خالی نہ ہو، جب اپنی کامیابی انہی بیساکھیوں پر کھڑی ہو،تو زبانی جمع خرچ تک ہی شکوے شکائتیں رہتی ہیں ،عملی طور پر یہ سیاسی جماعتیں کچھ کرنے کے قابل نہیں رہتی، اس وقت بھی صورتحال بعینہ یہی نظر آ رہی ہے کہ وہ سیاستدان جنہیں حکومت سازی کی جلدی ہے،درحقیقت آقائوں کے اشارہ ابرو پر سب کچھ کررہے ہیں۔کسی بھی معاشرے میں بہرکیف آخری جیت عوام ہی کی ہوتی ہے اور پاکستان جیسے معاشرے میں ایسا وقت کہ جہاں آخری کاری ضرب درکار ہو،بار بار نہیں آتااور نہ ہی عمران خان جیسا شخص دوبارہ سیاسی منظر نامے پر نمودار ہوتا ہے،پاکستانی سیاستدانوں کوعوام کی اس آخری جیت کے لئے عمران خان کا ساتھ دینا چاہئے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button