حکومت سازی اور دھاندلی کے خلاف احتجاج
امتیاز عاصی
ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں انتخابات میں دھاندلی اور 2013ء کے الیکشن میں عمران خان کا چالیس حلقوں میں پنکچر لگانے کا الزام کے بعد حالیہ انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف سیاسی جماعتوں کے احتجاج کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ اگرچہ انتخابات کسی حد تک پرامن ماحول میں اختتام پذیر ہوئے لیکن انتخابی دھاندلی کے خلاف احتجاج اور اعلیٰ عدالتوں اور الیکشن کمیشن سے رجوع کرنے سے یہ انتخابات متنازعہ بن گے ہیں۔ دراصل انتخابی نتیجہ کے لئے مختص فارم 45اور الیکشن کمیشن کو بھیجا جانے والے فارم 47میں مماثلت کا نہ ہونا تنازعہ کا باعث بن گئی ہے۔ الیکشن کمیشن کی طرف سے بہت سے حلقوں کے نتائج روکنے سے یہ بات واضح ہو گئی ہے دال میں کچھ نہ کچھ کالا ضرور ہے لہذا انتخابات کے نتیجہ میں اقتدار میں آنے والی حکومت کمزور ترین، سیاسی اور معاشی استحکام کی بجائے انتشار کا باعث بن سکتی ہے۔ ملک میں انتخابی دھاندلیوں کے خلاف شور غوغا کے بعد امریکی کانگرس کے بہت سے ارکان نے اپنی حکومت سے ہمارے انتخابات کو تسلیم نہ کرنے کا مطالبہ کر دیا ہے۔ انتخابی نتائج نے شریف خاندان کے وزارت عظمیٰ کے خواب کو چکنا چور کر دیا ہے۔ قارئین کو یاد ہوگا الیکشن سے پہلے پیپلز پارٹی کے قائد آصف علی زرداری نے برملا کہا تھا وہ کسی صورت نواز شریف کو وزیراعظم نہیں بننے دیں گے لہذا وہ اپنی بات پر ابھی تک قائم ہیں۔ ملک کی مقبول ترین سیاسی جماعت کے حصے بخرے کرنے اور طاقتور حلقوں کی توقعات کے برعکس پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ سو سے زیادہ امیدوار کامیاب ہوئے ہیں۔ یہ علیحدہ بات ہے کسی دبائو اور روپے پیسے کے لالچ سے ان کی وابستگی کو بدلا جا سکتا ہے تاہم عمران خان کے وہ ساتھی جو مشکل گھڑی میں اس کے ساتھ کھڑے ہیں ان کی حمایت کا حصول طاقت ور حلقوں کے لئے خاصا مشکل ہوگا۔ انتخابات کے بعد اب ارکان کے بھائو لگنا شرو ع ہو چکے ہیں آزاد ارکان من مانے دام وصول کر سکتے ہیں۔ پی ٹی آئی کا دعوی ہے وہ وفاق اور کے پی کے میں حکومت بنائے گی۔ مسلم لیگ نون ، ایم کیو ایم اور کئی آزاد ارکان نے رابطوں کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ تادم تحریر پیپلز پارٹی بلاول بھٹو کا وزیراعظم بنانے کے اپنے مطالبے پر قائم ہے۔ پیپلز پارٹی نے مسلم لیگ نون کا ساتھ نہیں دیا تو نواز شریف کو حکومت سازی میں مشکلات پیش آسکتی ہیں۔ گو مسلم لیگ نون وزارت عظمیٰ کے حصول کے لئے آزاد ارکان کو ساتھ ملانے کی بھرپور کوشش کرے گی تاکہ وہ کسی طرح وزارت عظمیٰ سنبھال سکے۔ مسلم لیگ نون کو وزارت عظمیٰ کے حصول میں طاقت ور حلقوں کی حمایت حاصل ہونے کی صورت میں وزارت عظمیٰ تک شریف خاندان کے لئے پہنچنا آسان ہو گا ورنہ وزارت عظمیٰ کا خواب پورا پوتا دکھائی نہیں دیتا ہے۔ نواز شریف ایک تجربہ کار سیاست دان ضرور ہیں جہاں تک تعلیمی قابلیت کی بات ہے بلاول بھٹو آکسفورڈ کے فارغ التحصیل اور نواز شریف سے کئی درجے زیادہ ذہین و فطین ہیں۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے ایم کیو ایم طاقت ور حلقوں کی خواہش کے مطابق وزارت عظمیٰ کے لئے ووٹ دے گی ۔ جے یو آئی ہمیشہ سے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کے ساتھ شریک اقتدار رہی ہے لہذا مولانا فضل الرحمان گزشتہ انتخابات کے مقابلے میں اس مرتبہ خاصے پرامید ہیں جس کی وجہ اپنے حلقے میں الیکشن ہارنے کے باوجود قلات سے منتخب ہونے میں کامیاب ہو گئے ہیں لہذا وہ اس مرتبہ حکومت گرانے کے گنا میں شریک نہیں ہوں گے بلکہ کوئی اہم عہدہ سنبھال لیں گے۔ شریف خاندان کی بڑی خوبی یہ ہے وہ ارکان کی خریداری میں دل کھول کر سرمایہ لگاتے ہیں اور اقتدار میں آنے کے بعد مبینہ طور پر کئی گنا زیادہ سرمایہ جمع کر نے کے ماہر سمجھے جاتے ہیں۔ تحریک انصاف کے بانی عمران خان کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے یا جو ان سے ہوا اپنی جگہ لیکن طاقت ور حلقوں کو پی ٹی آئی کی طاقت کو تسلیم کرنا چاہیے اسی میں ملک و قوم کی بھلائی ہے۔ ہمارا ملک سیاسی اور استحکام کا باعث اسی صورت بن سکے گا جب عوام کے مینڈیٹ کو صد ق دل سی تسلیم کیا جائے۔ اب وقت آگیا ہے ذمہ دار حلقے دانش مندی کا مظاہر ہ کرتے ہوئے ملک و قوم کے مفاد میں سیاسی جماعتوں کے مینڈیٹ کو قبول کریں۔ جس طرح انتخابی مرحلہ کسی حد تک پرامن طور پر گذر گیا ہے طاقت ور حلقوں کو غیر جانبداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے سیاسی جماعتوں کو آزادانہ طریقہ سے حکومت سازی کرنے دیں تو ملک میں سیاسی اور معاشی استحکام کی امید کی جا سکتی ہے ورنہ گزشتہ الیکشن کی تاریخ کو دہرایا گیا تو ملک میں انتشار پیدا ہونے کے خدشات کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ اعلیٰ عدلیہ اور الیکشن کمیشن کو انتخابی دھاندلی کے خلاف درخواستوں کو جلد از جلد نپٹنا چاہیے اگر مبینہ دھاندلی کے خلاف شکایات کو طوالت دی گئی تو انتخابات کی ساکھ مزید متاثر ہونے کا امکان ہے۔ جیسا کہ پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر کا دعویٰ ہے وہ وفاق اور کے پی کے حکومت بنائیں گے طاقت ور حلقوں کو حکومت سازی کے عمل میں پی ٹی آئی کے ارکان کو خوش اسلوبی سے شریک ہونے دیا جائے۔ سیاسی جماعتوں اور طاقت ور حلقوں کو حکومت سازی میں کسی خاص شخصیت کی بجائے ملک و قوم کے مفاد میں حکومت سازی کا عمل خوش اسلوبی سے طے کرنے دیا جائے تو یہ بات یقینی ہے ہمارا ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے۔ ہمیں دیگر ملکوں کے لئے تماشا بننے کی بجائے پاکستان کو رول ماڈل بنانے کی طرف توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے ۔ حالیہ انتخابات میں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدواروں کو عوام نے ویسے ووٹ نہیں دیئے بلکہ وہ مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کے ستائے ہوئے تھے۔ دونوں جماعتوں نے اپنے دور اقتدار میں عوام کو ماسوائے مہنگائی کا تحفہ دینے کے کچھ نہیں کیا بلکہ اپنے خلاف مبینہ کرپشن کے مقدمات ختم کرانے کی طرف توجہ دی۔ حق تعالیٰ سے دعا ہے ہمارے ملک میں سیاسی اور معاشی استحکام آئے اور یہاں کے عوام دیگر اقوام کی طرح خوشحالی کی زندگی گزار سکیں۔